ہم نے کہانی بدل کے دیکھی کر کے نئی پرانی اپنے ہاتھوں قتل ہوئے پھر اک راجہ اک رانی یہ طاقت کی بات ہے ساری جس کے ہاتھ بھی آئے ہم نے عقل سے کام لیا تو دل نے ایک نہ مانی ویسے ایک پتے کی بات بتادوں کہ کہتے ہیں جب فطرت سب سب کی بدل نہیں سکتی ہے۔ کیوں پھر ہر انسان کی فطرت ہوتی نہیں انسانی، ویسے فطرت کے اختلاف ہی سے ساریبو باس اور رنگ ڈھنگ ہے یعنی دنیا کی بو قلمونی۔ یہ الگ بات کے اقبال نے ہماری توجہ کسی اور طرف کردی کہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ باقی وہی یہ کائنات تو رب نے ہمارے لیے ہی تخلیق کی اور احمد ندیم قاسمی نے خوب کہا تھا حسن انسان سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں۔ آپ لاکھ پرہیز گاری کے پردے چڑھا لیں مگر ایک حقیقت عیاں ہے کون کہتا ہے حسن کچھ بھی نہیں۔ منیر نیازی نے کہا تھا: یہ حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا ایک لمحہ ٹھہرئے میں تو کچھ اور لکھنے کا ارادہ رکھتا تھا چلیئے فیض صاحب کی انگلی پکڑ کر چلتے ہیں کہ اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجئے۔ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے۔ سیلاب نے اور بارشوں نے قیامت ڈھا رکھی ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ ہمیں وزیراعظم کی بات نہایت بھلی معلوم ہوئی کہ انہوں نے اس موقع پر سیلاب زدگان کو معاوضہ 24 گھنٹے کے اندر دینے پر زور دیا ہے اور یہ 2 لاکھ معاوضہ شاید پانچ لاکھ ہو جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آخری گھر آباد ہونے تک آرام سے نہیں بیٹھیںگے۔ مجھے فلیش بیک میں اپنا پرانا مشرقی پاکستان یاد آیا کہ ایسے ہی سیلاب میں جنرل اعظم نے بوٹ لی اور کہا کہ وہ اس وقت تک وردی نہیں اتاریں گے جب تک کہ سیلاب زدگان کو آفت سے نہ نکال لیں۔ کیسے کیسے لوگ تھے ہمارے بنگالی ان پر فریفتہ ہو گئے۔ اس وقت لوگ بہت برے حالوں میں ہیں ۔پانی تو یلغار کرتا جا رہا ہے۔ بھارت نے بھی اپنی طرف سے پانی چھوڑ دیا ہے۔ پانی کا راج ہے وہی جو شہزاد احمد نے کہا تھا: میں کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر کانپ اٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر یقیناً حکومت سیلاب زدگان کو ریلیف دینا اپنی ترجیحات میں سب سے پہلے رکھے گی۔ یقیناً مقامی لوگ اور تنظیمیں بھی آگے آئیں گی کہ یہ شاندار روایت رہی ہے۔ الحمدللہ اس وقت الخدمت ہے جو ہر برے وقت میں اور ہر آفت میں متاثرین تک پہنچتی ہے۔ عبدالشکور صاحب بہت انرجیٹک ہیں۔ اصل میں اس مقصد کے لیے ایسی ہی تنظیمںآئیں جن کو لوگوں کا اعتماد حاصل ہے وگرنہ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک مرتبہ جب محترم زرداری کا دور تھا تو سعودیہ نے نقد رقم دینے سے انکار کردیا تھا۔ تب کمبل اور کھجوریں بھیجی گئیں مگر ہم ان سے زیادہ سیانے نکلے وہ کمبل اور کھجوریں مارکیٹ میں کھلے عام بکتی رہیں۔ بات تو ساری احساس کی ہے ہم تو وہ منظر بھی نہیں بھولتے کہ جب تھر میں بھوک سے بچے مر رہے تھے تب قائم علی شاہ کی ٹیم وہاں پروٹوکول کے ساتھ مرغن غذائیں کھا رہی تھی۔ یہ میں اپنے پاس سے نہیں لکھ رہا۔ یہاں بلوچستان کی ایک وزیر بچوں کے فنڈز کھا جاتے ہیں۔ یعنی غریب بچوں کی مدد کے لییرکھے گئے فنڈز۔ جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس دور کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے بہرحال اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ یتیم بچوں کا مال کھانا پیٹ میں آگ بھرنا ہے یہاں تو افسر تک اپنے ملازموں کے نام پر چھوٹے چھوٹے پلاٹ بھی نہیں چھوڑتے اور وہ یہی ہیں جو پاکستان کے وسائل کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ کسی ایک کی نہیں سب کی بات کر رہا ہوں کہ جو پاکستان کے دیئے گئے عہدے کو کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ غالباً حضرت عمر کے زمانے میں ایک گورنر نے کہا کہ ہمیں عوام نے کچھ تحائف دیئے ہیں۔ اس سے پوچھا گیا کہ اگر اس کے پاس یہ منصب نہ ہوتا تو کیا پھر بھی اسے تحفے ملتے۔ بات کہیں سے نہیں نکل گئی مگر جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنا محاسبہ خود کرنا چاہیے۔ یہ یقین رکھیے کہ حساب ہوگا۔ ذرہ برابر نیکی ہو یا ذرہ برابر برائی سب کچھ نوٹ ہو رہا ہے ہمارے دوست ڈاکٹر ہارون رشید کہا کرتے تھے کہ انہیں یقین ہے کہ انسان کے عمل کی وڈیو بن رہی ہے۔ وہ روحانیت کی باتیں کرنے لگے تھے جو کہتے کہ اب میں سب کچھ خلق خدا کے لیے اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہوں: سحر کے ساتھ ہی سورج ہمرکاب ہوا جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا جو بھی اچھا کام کرے گا لوگ اس کی تعریف کریں گے اب پرویزالٰہی نے اعلان کیا ہے کہ وہ 1122 کا دائرہ کار بڑھائیں گے اور سیلاب سے متاثرین کے لیے انہوں نے بھی امداد کا اعلان کیا ہے۔ ایک بات تو ہے لوگ بھی سوشل میڈیا کے توسط سے کافی باشعور ہو چکے ہیں۔ جو شخص بھی کام کرے گا نظروں میں آ جائے گا یعنی جس دیئے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا۔ لوگ تقریریں بہت سن چکے۔ تقریروں سے پیٹ نہیں بھرتا‘ مہنگائی روز افزوں سے تازہ ترین یہ کہ دودھ 170 روپے کلو ہو چکا اور وہ بھی خالص نہیں ہوتا اس سے بھی بڑا ظلم وہ دودھ ہے جو کیمیکل سے بنتا ہے مگر کوئی ماں کا سورما ہے جو لگام ڈالے؟ یہاں کون کسی کو پکڑے گا ۔ نیب کے حوالے سے یہ کہنا کہ وہ پچاس کروڑ کی کرپشن ہی پکڑ سکے گا۔ آپ بتائیے کہ اب کون ثابت کرے گا کہ کرپشن پچاس کروڑ سے زیادہ ہے۔ بے ایمان لوگ کرپشن کو قسطوں میں کرلیں گے۔ ویسے اب تو بات اربوں میں آ چکی ہے کہ بقول پی ٹی آئی چالیس او رپچاس کروڑ میں ممبرز خرید ے گئے تھے۔ میں پھر سیلاب کی طرف آتا ہوں کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی اپنی جگہ ان بے چاروں کے لیے کچھ نہ کچھ کریں کہ وہ اپنے جلسوں پر تو کروڑوں خرچ کر دیتے ہیں یا ہارس ٹریڈنگ میں نوٹوں کی بوریاں کھول دیتے ہیں: کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا