اکتالیس سالہ اینی اسپیگل جرمنی کی نوجوان سیاست دان ہیں ۔اینی نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز 2006ء میں کیا، وہ فیملی سسٹم پر یقین رکھنے والی سیاست دان کے طور پر سامنے آئیں، اپنے اٹھارہ سالہ کیریئر میں اینی کی کارکردگی اچھی رہی، وہ اپنی جاندار مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھتی رہیں ۔چار بچوں کی ماں اینی جرمنی کی ریاست رہائن لینڈ پلانٹینٹے میں دو بار وزیر رہیں، ایک بار ڈپٹی منسٹر پریذیڈنٹ بھی رہیںآ۔خرکار وہ پچیس دسمبر 2021میں علاقائی سیاست سے جمپ کرکے جرمنی کی وفاقی کابینہ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔انہیں فیملی افیئرز کاقلمدان دیا گیا۔اینی کے لئے سب کچھ ٹھیک جارہا تھا ان کا سیاسی سفر کامیابیاں لئے ہوئے تھا لیکن ایک چھوٹی سی خبر نے اینی کا سیاسی کیرئیر داؤ پر لگا دیا،وفاقی کابینہ میں ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے اینی اپنی ریاست میں ماحولیات کی وزیر تھیں ،ان کی وزارت کے دوران ہی جرمنی میں بدترین سیلاب آیا جس میں 180جانیں ضائع ہوئیں،جرمنی کے ایک اخبار نے انہی دنوں کی ایک خبر کھوجی کہ بدترین سیلاب کو گزرے بمشکل دس دن ہوئے تھے کہ ماحولیات کی وزیر صاحبہ چار ہفتوں کی چھٹیاں لے کر فرانس جا پہنچی تھیں، خبرجنگل کی آگ کی طرح پھیلی اورہرجگہ ڈسکس ہونے لگی ہر جگہ یہی سوال تھا کہ ایک طرف 180اموات کا سوگ ہو، ملک اس مشکل میں ہو تو کوئی کیسے چھٹیاں منا سکتا ہے ، انسانیت نام کا کوئی لفظ لغت میں ہے کہ نہیں ! اینی اسپیگل سے سوالات ہونے لگے تقاریب میں تنقید ہونے لگی ،ان کی پارٹی کے لئے ان کا دفاع مشکل ہوگیا، تب اینی نے ٹھنڈی سانس لی اور قوم سے معافی مانگ کرخاموشی سے مستعفی ہوگئیں۔انہوں نے اپنے استعفیٰ میں لکھا کہ مجھ سے غلطی ہوئی، کورونا کے لاک ڈاؤن میں بچے چڑچڑے ہوگئے تھے ،پھر میرے شوہر کوفالج کے بعدتناؤ سے بچانے کی ضرورت تھی، میرے شوہر اور میرے خاندان کو چھٹی کی ضرورت تھی ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ یونان کی ایک ائیر ایمبولینس کسی مریض کو لینے کے لئے جاتے ہوئے خرا ب موسم کے باعث کہیں کریش کر گئی جہاز میں ڈاکٹر نرسیں اور عملہ تھا،زخمیوں نے ریسکیو کے لئے ایمرجنسی نمبر ڈائل کیا جو قدرے تاخیر سے لگا زخمیوں نے انہیں واقعے سے آگاہ کیا جس کے بعد تلاش کا عمل شروع ہوا اور ریکسیووالوں نے انہیں تلاش کر کے اسپتال منتقل کردیا ۔یہ ایک حادثہ تھا جو کسی کے ساتھ بھی پیش آسکتا تھا لیکن یونان میں غم و غصے کی لہر پھیل گئی کہ ریکسیو کا نمبر تاخیر سے کیوں ملا ؟ اگر نمبر بروقت مل جاتا تو کچھ زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں۔یہ معاملہ میڈیا میں آیاا ک طوفان کھڑا ہوگیا اوریونان کے وزیر داخلہ کا منصب لے کرہی ٹلا ،وزیر داخلہ نے قوم سے معافی مانگ کر استعفیٰ دے دیا۔ مہذب کہلانے والی قوموں میں یہ عام سی باتیں ہیں 2017میںجنوبی کوریا کے علاقے انچیون سے ’’سیول‘‘ نامی مسافربردار کشتی سیاحتی جزیرے جیجو کی جانب بڑھی کشتی میں 476افراد سوار تھے ،کشتی آگے بڑھی اورپھر اچانک الٹ گئی اس واقعے میں174مسافروں کو بچا لیا گیادیگر کی لاشیں ہی نکالی جاسکیں ،اس افسوس ناک واقعے میں کورینز کے دل بوجھل کردیئے ،پورے کوریا میں سوگ کی فضا میں پھیل گئی اس سوگ میں ناراضگی بھی تھی اور غصہ بھی تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ امدادی سرگرمیوں میں تاخیر ہوئی ہے،آگے بڑھنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لئے، سوچ لیں کہ ایسا واقعہ اپنے یہاں ہوا ہوتا توکیا ہوتا ؟ سوائے د و تین کی معطلی کے کوئی سزا دی جاتی ؟ معطلی بھی چھ ماہ بعد خبروں کی جھاگ بیٹھنے پر ختم ہوچکی ہوتی اور وہ افسر پھر کسی جگہ موجوددکھائی دیتا ،لیکن وہ پاکستان نہیں کوریا تھا، کوریا کے وزیر اعظم نے کسی وزیر مشیر یا ڈائریکٹر شائریکٹر کو معطل کرنے کے بجائے اپنا ستعفیٰ لکھا اور کرسی چھوڑدی کسی شاعر کو یہ نہیں کہنا پڑا کہ ’’کرسی ہے تمہارا جنازہ تو نہیں ہے کچھ کر نہیںسکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے‘‘ کورین وزیر اعظم چانگ ہان وان نے کہا کہ وہ پہلے ہی استعفیٰ دے دینا چاہتے تھے لیکن اس وقت حادثے سے نمٹنا زیادہ ضروری تھا۔امدادی کام کروانا ذمہ دارآنہ رویہ تھا،اب میں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ انتظامیہ پر بوجھ نہ بنوں ۔جرمنی، کوریا اور مہذب ملکوں کے یہ مصائب میرے وطن میں ان دنوںآئے سیلاب کے سامنے کچھ نہیں سرکاری ریکارڈ پر یقین کیا جائے تو گیارہ سو سے زائد زندگیاں سیلابی ریلے کی نذر ہوچکی ہیں۔وادی دبیر کوہستان کے ان پانچ نوجوانوں کی بپھرے بہتے نالے کے درمیان چٹان پر پناہ لی ہوئی تصویر کس نے نہیں دیکھی ہوگی وہ تین گھنٹے تک مدد کے منتظر رہے لیکن ان کے لئے کوئی ہیلی کاپٹر پرواز نہ کرسکا اس لئے کہ وہ کسی ’’بڑے‘‘ کے بیٹے بھتیجے یا کچھ لگتے نہیں تھے ۔وہ ہیلی کاپٹر جوشندور میلہ دیکھنے کے لئے جانے والی اس وقت کے ایک وزیر اعظم کی بہن کو ریسکیو کرنے کے لئے منٹوں میں پہنچا تھاوہ ان بے بسوں کے لئے پرواز ہی نہیں کرسکا کہاجاسکتا ہے کہ موسم خراب تھا ہیلی کاپٹر اڑانے میں رسک تھا۔ مان لیا لیکن جناب یہ کوئی معمولی واقعہ تھا! درجنوں لوگوں کے سامنے چار زندگیاں چار کڑیل جوان پانی میں بہہ گئے تھے ۔کے پی کے حکومت کے پاس اس سنگدلی اور بے پرواہی کا کوئی عذر نہیں ان کا رویہ قابل افسوس ہے ،عوام کے پیسوں پر پروازیں اور لینڈکروزروں ،مرسیڈیزوں پر فراٹے بھرنے والوں میںاتنی انسانیت بھی نہیں کہ سیاسی اسٹنٹ کے طور پر ہی وہ کوہستان چلے جاتے ،یہ واقعہ کسی جرمنی ،کوریا یاکسی مہذب ملک میں ہوتا تو عوام سڑکوں پر آچکی ہوتی اور ان کے ذمہ دار وں کو اٹھا کر تاریخ کے کچرے دان میںپھینک چکی ہوتی ،کاش ایسا ہو یہ میرا خواب ہے لیکن یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ ہم ایسا کرنے لگ جائیں تو کتنے کوڑے دان درکار ہوں گے!