نواز شریف تاحیات نااہل سزا یافتہ مفرور مجرم‘ اکیس اکتوبر کو پاکستان واپس آ رہے ہیں؟ کیا کہوں بھائی: ان کا آنا یا نہ آنا ایک جیسا ہے یقیں آ کے کہہ جائیں گے آخر‘ پھر نہیں آنے کی رات؟ نواز شریف کے آنے کی کیا پوچھتے ہو‘ ابھی شہباز شریف واپس نہیں آئے تھے؟ ان کے پاکستان آنے اور واپس لوٹ جانے کی خبر اخبارات میں ایک ساتھ چھپی ہے۔ خوشی خوشی آئے تھے ڈر کے مارے بھاگ گئے، ہوا کیا؟ ہونا کیا تھا‘ ایک سے ایک مخبر پال رکھا ہے‘ پہلے ملاقاتی نے کہا میاں صاحب کیا غضب کرتے ہو‘ کالے کرتوتوں کی فائلیں ٹرکوں میں بھر کے عدالتوں میں پہنچا دی گئی ہیں‘ آپ پر فرد جرم بالکل تیار ہے‘ بلاوا آیا ہی چاہتا ہے‘ بلاوے کے ساتھ نام ’’سٹاپ لسٹ‘‘ میں ڈال دیا جائے گا کمر کا درد فرد جرم ایک ساتھ وارد ہونے والے ہیں تب میاں صاحب کا اوپر کا سانس اوپر نیچے کا نیچے رہ گیا، بھاگم بھاگ ایئر پورٹ پہنچ گئے۔ لندن پہنچ کر دم لیا‘ مریم نواز پیچھے رہ جانے والوں میں نہیں تھی وہ بھی سدھار گئیں، محفل مشاورت نئے سرے سے شروع ہو گی! اقتدار کے لالچ پاکستان کو پھر سے لوٹ کھانے کی خواہش سے باچھیں کھلی اور رالیں ٹپک رہی ہیں، دوسری طرف دام ہم رنگ زمین بچھا دیا گیا۔ جھوٹے اور لالچی کی نئی کہانی شروع ہو چکی ہے دیکھتے جائیے انجام کار ہوتا کیا ہے؟ قارئین محترم! خود سے پوچھئے تحریک انصاف کی کم از کم مقبولیت بھی ستر (70) فیصد ہے باقی ساری پارٹیاں تیس(30) فیصد بچتی ہے۔ تیس فیصد میں نون کے حصے میں کیا بچا؟20فیصد بھی کہہ لیجیے تو ستر کے مقابلے میں بیس کی اوقات کیا ہے ؟ وہ کہتے ہیں یعنی میاں نواز شریف کہ میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ اگلی حکومت ہماری ہو گی اور میں سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ‘ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور بعض سپریم کورٹ کے ججوں کو نشان عبرت بنا دوں گا‘ نشان عبرت جب بنائو گے دیکھا جائے گا مگر یہ طے ہوا کہ نواز شریف اور اس کی مسلم لیگ برسر میدان آ نہیں سکتی ‘ آ جائے تو جیت نہیں سکتی‘ پھر کس بھروسے پر وہ لکھ کر دینے کو تیار ہیں کہ اگلی حکومت ان کی ہو گی، جس بھروسے سے پر وہ کہہ رہے ہیں وہ بھروسہ سو سو جتن کر کے بدنامی مول لے کر آپ کو اقتدار میں لائیگا۔ مولانا اکرم اعوان سا جواب اور خواب کیا وہ خود نہیں دیکھ سکتا اور دے سکتا‘ میاں نواز شریف برے دنوں میں کہاں کہاں ماتھا نہیں ٹیکتے‘ واقفان حال جانتے ہیں ایسے دنوں میں ایک دن وہ اکرم اعوان صاحب کے پاس آن حاضر ہوئے کہا: حضرت میں دعا کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ میرے لئے تہجد کے بعد خصوصی دعا فرمائیے کہ میں ایک بار پھر سے وزیر اعظم بن جائوں۔ اگر یہ کام ہو جائے تو میں ہر خدمت کو تیار ہوں‘اعوان صاحب بڑے دبنگ آدمی تھے ساڑھے چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد سر پر بھاری پگڑی‘ بھرا بھرا جسم بھاری پگڑی انہیں دیو قامت بنا دیتی‘ پررعب شخصیت پاٹ دار آواز اکرم اعوان صاحب ’’موڈ‘‘ میں تھے، سن کر مسکرائے اور کہا نواز شریف‘ توں میرے کولوں چوکھا سوہنا ایں یا یوں سیانا‘ میں تیرے کان دعاواں کر کے وزیر اعظم بنواواں‘ میری دعا دے نال وزیر اعظم لگناں اے تے میں اپنے آپ کیوں نہ بن جاواں‘ اپنے کم وی کراں تے مخلوق دے کم وی آواں‘ وہ تو خالی دعا کا مسئلہ تھا۔ اعوان صاحب نے کہا اگر میری رب اتنی ہی مان رہا ہے تو اپنے لئے ہی منوا لیتا ہوں‘ یہ تو بگلے کے سر پر موم رکھ کر بگلا پڑکنے والی بات ہے‘ کیوں نہ موم رکھنے کی بجائے اسی وقت بگلا پکڑ لیا جائے۔ تمہیں وزیر اعظم بنوائوں‘ پھر اپنے کام نکلوانے کے لئے درخواست کرتا رہوں نہ بابا یہ کام ہم سے نہ ہو گا‘ یہاں تو مسئلہ کہیں زیادہ دشوار تر ہے‘ پہلے تو ایک مفرور اور عدالتوں کو مطلوب مجرم کو آزادانہ آنے کی اجازت دے کر قانون کی خلاف ورزی کی جائے‘ جلسے جلوس کی پابندی کے باوجود ایک مجرم اور مفرور کو شہر بھر میں دندناتے پھرنے کی آزادی ہو‘ عوام جس کے خلاف غصے سے بھری پڑی ہے، اس کی حفاظت کے لئے پنجاب بھر کی پولیس لگا دی جائے‘ عدلیہ کے ہاتھ پائوں باندھ کر بے بس کر کے فیصلے بدلنے پر مجبور کیا جائے‘ جلسے کے لئے کہیں سے ’’ہوائی مخلوق‘‘ کا بندوبست کیا جائے کہ خلق خدا تو کسی اور کی دیوانی ہے۔ اسمبلی کی غیر موجودگی اور عارف علوی کے صدر ہوتے قوانین بدل کر سہولت بہم کی جائے تاکہ نااہلی ختم ہو سکے۔ عدلیہ سے مرضی کے فیصلے لئے جائیں، سارے ملک خصوصاً پنجاب میں نہ کوئی تحریک انصاف کا امیدوار انتخاب میں حصہ لے سکے نہ آزاد امیدوار ہوں، مبادا تحریک انصاف کا اشارہ آزاد ارکان کی طرف ہو جائے‘ 70 فیصد مقبولیت کو پانچ‘ سات فیصد والی پارٹی سے شکست دلوانے کا معجزہ تخلیق کیا جائے، حکومت بنوا کر وزارت عظمی سونپی جائے اس حکومت کو چلانے کے لئے چوبیس کروڑ لوگوں کی پانچ سال کے لئے مشکیں کس دی جائیں تاکہ کوئی احتجاج نہ ہو سکے۔ سلیمانی ٹوپیاں فراہم کی جائیں کہ ان کے چہرے اور کرتوت عالمی ذرائع ابلاغ سے چھپے رہ جائیں اور ساری دنیا خاموش بیٹھ رہے۔ ملک بھر کے سرکاری ملازمین الیکشن کا عمل اور کارندوں کے ضمیر مار دیے جائیں‘ الغرض: سنجیاں ہو جان گلیاں وچ مرزا یار پھرے اس کے بدلے میں ملے گا کیا؟ وعدہ فردا‘ اس شخص کی طرف سے وعدہ فردا جس کی کہہ مکرنیاں زمانے بھر کو ازبر ہیں یہ سب عذاب جھیلنے سے کہیں بہتر نہیں‘ وہ شخص جو یہ سب بدنامیاں مول لے گا وہ نیک نام بھی رہے اور خود ہی سارے اقتدار و اختیار کا مالک بن جائے۔ 13اگست کے کالم میں عرض کیا تھا کہ جو ہو سکتا تھا سب کر کے دیکھ لیا۔ صرف دو رستے باقی بچے ہیں کوئی تیسری راہ ہے ہی نہیں، جس پر جایا جا سکے۔1۔ آزادانہ ‘ شفاف انتخابات۔2۔ بے رحم احتساب: ایوب خاں سے ضیاء الحق اور مشرف تک ہر ایک نے بدعنوانی کے خلاف اقدامات اور کڑے احتساب کی نوید سنا کر پاکستانی عوام کو بہلائے رکھا اور اقتدار کو طویل دینے کے لئے کامیاب نعرہ رہا ہے‘ ابھی تک اس کی چمک باقی ہے‘ عوام فی الوقت غصے میں ہیں ‘ غصے کو دبا کر مناسب وقت کے انتظار میں ہیں‘ ایک بار انتخاب کا بگل بج گیا، تو سب دیکھتے رہ جائیں گے‘ دھارا ایک ہی سمت میں بہہ رہا ہو گا‘ کوئی اس کے سامنے بند نہیں باندھ سکے گا‘ فی الوقت کسی نہ کسی طرح عوامی رائے سے بچ رہنے کی راہ کھوجی جا رہی ہے اور وہ راہ ہے بے رحم احتساب‘ جس طرح روم میں اکھاڑے سجا کر بڑے مجرموں اور غداروں کو بھوکے شیروں کے ساتھ لڑنے کا تماشہ عوام کو دکھا کر انہیں خوش اور مطمئن کیا جاتا تھا‘ یہ عمل آج بھی عوام کو بہلانے کے کام آتا ہے، ابھی تک عوام محض احتساب کے نعرے پر بہلتے رہے ہیں‘ اگر سچ مچ بدعنوان عناصر کچے اور پکے کے ڈاکوئوں کے خلاف وہی سلوک کیا جائے جو چین میں روا رکھا جاتا ہے یا کم از کم جس طرح سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کیا‘ تو پاکستان کے عوام خصوصاً نوجوانوں کو ایک مناسب مدت تک اس نظارے سے بہلایا جا سکتا ہے‘ اس نظارے کے سب سے مقبول کردار پچھلے چار برس سے مفرور ہیں‘ ان کی واپسی صرف پسندیدہ لالچ میں بہلانے پر ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔