ترکی کے صوفی شاعر یونس ایمرے : آئو باہم کریں دائمی دوستی تاکہ آسان ہو جائے یہ زندگی آئو عاشق بنیں اور معشوق بھی کیسی رنجش؟ کسی کی نہیں یہ زمیں یونس ایمرے کی شخصیت اور فکر و فن سے اردو قارئین کو متعارف کرانے کی قابل تحسین اور کامیاب کوشش کرنے پر ’’کلیم الٰہی امجد‘‘ یقینا مبارکباد کے ساتھ ہم پاکستانیوں کی طرف سے شکر گزاری کے مستحق ہیں‘ یونس ایمرے نام تو سن رکھا تھا، بس نام کی حد تک اور یہ بھی کہ ترکی اور ترک زبان بولنے والے ممالک میں یونس ایمرے کی شہرت و مقبولیت حضرت اقبال کے پیر و مرشد مولانا روم سے بھی فزوں تر ہے‘ یہ بات ناقابل یقین لگتی تھی بلکہ عقیدت مندوں کی مبالغہ آرائی‘ پھر بھارت میں یونس ایمرے پر ترک ڈرامہ اردو ٹائٹل کے ساتھ دکھایا گیا‘ پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش اور وہ سب علاقے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں پر خود اردو میں بننے والی فلموں اور ڈراموں سے کہیں زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی‘ ڈرامہ یا فلم شخصیت کی ایک جھلک تو ہے اس کا پورا تعارف نہیں ہو سکتا۔’’کلیم الٰہی امجد‘‘ کی کتاب ’’محبت کا سفر‘‘ نے بڑی حد تک اس صوفی شاعر کی شخصیت اور فن سے اردو خوں طبقے کو متعارف کروانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ عشق‘ محبت‘ انسان دوستی کا نمائندہ صوفی یونس ایمرے کا کہنا ہے کہ ’’نفرت میری واحد دشمن ہے‘‘ پانچ لفظوں کا یہ چھوٹا سا فقرہ ازل میں لکھی گئی ابدی سچائی کی طرح دائمی اثر رکھتا ہے۔ آج سے ساڑھے سات سو سال پہلے جب پورے عالم اسلام بلکہ دنیا بھر میں فارسی اور عربی زبان کا سکہ ہی رائج الوقت تھا ۔ترک علاقوں میں بھی اعلیٰ خیالات کا اظہار انہی معروف زبانوں میں ہی ممکن تھا‘ یہی وجہ ہے کہ مولانا روم کی مثنوی بھی بزبان فارسی لکھی گئی، جو اعلیٰ طبقوں میں اعلیٰ خیالات اور فلسفیانہ اظہار کا اصل ذریعہ ابلاغ تھا‘ یونس ایمرے نے عوام کیلئے عوامی زبان ترکی کو ذریعہ اظہار بنایا، برصغیر کے صوفی شعراء کی طرح ‘ بلھے شاہؒ وارث شاہ ‘ سلطان باہو‘ میاں محمد بخش ‘ سرائیکی میں بابا فرید‘ سندھ میں لطیف بھٹائی ہم دیکھتے ہیں کہ گزرتے وقت کیساتھ ‘میر و غالب کو پڑھنے‘ سمجھنے ‘ جاننے والوں کا طبقہ محدود ہوتا جا رہا ہے جبکہ مقامی زبانوں کے شاعر‘ عوام سے خواص کی طرف اپنا اثر بڑھاتے چلے جا رہے ہیں‘ پاک و ہند‘ کبیر داس‘ تلسی رام‘ میاں محمد بخش‘ غلام فرید‘ سلطان باہو ہماری موسیقی کی محافل کی جان بن چکے ہیں، اسی تناظر میں اگر سمجھنا چاہیں تو ہم جان سکتے ہیں کہ یونس ایمرے کو ترکی خواں طبقات کا اتنی شہرت اور عزت کا مستحق کیوں گردانا گیا ہے‘ وقت کیساتھ ان کا فن اور اعلیٰ خیالات اور اظہار کی نزاکت اور اثر بڑھتا چلا جائے گا‘ کلیم الٰہی امجد صاحب نے انکے اوریجنل کلام سے کس قدر استفادہ کیا، یہ تو معلوم نہیں مگر مذکورہ کتاب جو ہمارے سامنے رکھی ہے، اس میں یونس ایمرے کے ترک کلام کا انگریزی ترجمہ اور اس منظوم انگریزی ترجمے کو اردو ترجمے کیلئے ذریعہ بنایا گیا، یعنی یونس ایمرے کے ترجمے کا ترجمہ منظوم ترجمہ یا ترجمے کا ترجمہ سات صدی بعد اردو بولنے والے قاری پر وجد آفریں اور دیرپا اثر چھوڑتا ہے تو ان سامعین و قارئین کو کس قدر دیوانہ بنا دیا ہو گا جو براہ راست مستفید ہوئے۔یونس ایمرے یوں مخاطب ہیں: آئو باہم کریں دائمی دوستی تاکہ آسان ہو جائے یہ زندگی آئو عاشق بنیں اور معشوق بھی کیسی رنجش‘ کسی کی نہیں یہ زمیں فطرت نگاری : اے مرد عشق کھول آنکھ ذرا روئے زمیں کو دیکھ ذرا سجائے گئے یہ تیرے لئے ان پھولوں کو دیکھ ذرا علامہ اقبال ملاحظہ کریں: کھول آنکھ زمیں دیکھ ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ مشرق سے نکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ انسانی اتحاد۔ہمیں یقیں ہے کسی کا مذہب ہمارے دیں کا نہیں ہے دشمن جو ایک ہو جائیں دین و مذہب تو عشق صادق کا دور آئے وہ زاہد ہے وہ عاقل ہے وہ عالم ہے وہ فاضل ہے نگاہ پارسا میں نیک سیرت پیر کامل ہے مگر اہل بصیرت کے لئے ہے باغی و جاہل اگر وہ اتحاد نوع انسان کا نہیں قائل مجھے کسی سے عناد کیوں ہو کہ اجنبی ‘ آشنا ہیں میرے راس آئی ہے مجھ کو فقیری ‘نفرت میری تنہا بیری بغض کسی سے مجھ کو نہیں ہے/ جائوں جہاں بھی میری زمیں ہے/کعبہ میں‘ دل کے ہو اگر‘ اک بار باریاب۔ بہتر ہزار حج سے ہو یہ حج باثواب/ایمان سر میں ہوتا ہے دستار میں نہیں/وہ عاشقوں کے حلقہ ابرار میں نہیں۔جو ذات حق کو چھوڑ کر جنت طلب کرے/جنت ہوس کا دام ہے‘ احمق کے واسطے ریاکار/جب سامنے آیا لوگوں کے‘ تسبیح پہ حق کا ورد کیا/ پھر دین خدا کا ذکر کیا/ گو دل میں نہیں ایمان ذرا/ جس شخص نے دیکھا وہ میرے‘ ظاہر سے بہت مرعوب ہوا/معصوم سمجھ کر جھکا‘ ہاتھوں کو عقیدت سے چوما/ گفتار کو میری سچ جانا‘ دستار و عباکو دیں سمجھا۔ خدا سے میزاں میں تولتا ہے یہ اعمال‘ کس لئے؟ کیا اس لئے کہ مجھ کو جہنم میں ڈال دے؟ اللہ تو بصیرہے‘ اللہ تو علیم ،اللہ تجھ کو علم ہے‘ اعمال کا مرے۔میزاں میں تولتا ہے‘ یہ اعمال کس لئے؟ اللہ کی حقیقت اک بحر بے کراں ہے۔اس میں سفینہ دیں کب سے رواں دواں ہے۔ غواصِ بحر کم ہیں‘ کشتی سوار زیادہ۔ جو غوطہ زن ہوا ہے‘ اس نے خدا کو پایا ۔ اگر دل دکھایا ہے‘ تونے کسی کا۔ تو بے کار ہیں تیرے علوم و صلٰو۔ ناکارہ‘ کسی کو نہ سمجھو۔ ناکارہ یہاں کوئی نہیں ہے۔لوگوں میں برائی کو نہ ڈھونڈو۔دیکھو تو بھلائی بھی یہاں ہے تحقیر سے دیکھے‘ نہ وہ دل کو توڑے۔محبوب ہیں صوفی کو‘ بہتر فرقے یونس نے آج خود کو سپرد خدا کیا۔ یونس پہ اس نے در اپنا وا کیا۔یہ عالم نجات ہے کیفیت ابد۔ بندے کو رب نے رتبہ سلطان عطا کیا روح کی گہرائیوں سے چاہتا ہوں میں تجھے۔عشق میرا روح کی حد سے بھی گزرا ہے پرے/میرے اندر ایک ’’میں‘‘ ہے میرے‘‘ میں اسے بھی قریب اور یہ میں‘ تو ہے اسے محبوب‘ اے میرے حبیب گونجے یہ آواز تیرے کانوں میں‘ محروم محبت۔اس دل کی زمیں ‘ شور ہے ‘ جس میں نہیں قطرۂ الفت مجھے تجھ سے محبت ہے‘ مجھے موت آ نہیں سکتی