خیالِ حلقۂ زنجیر سے عدالت کھینچ عذاب بار نفس ہے تو پھر ندامت کھینچ ہوائے حرص و ہوس سے نکل کے دیکھ ذرا ضمیر رشتۂ احساس سے ملامت کھینچ تو صاحبو! آج ذرا میں کسی اور رنگ میں بات کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ڈگر سے ہٹ کر ایک بات خاص کو عام کرنا چاہتا ہوں فریب عشق بتاں سے نکل پئے ناموس۔ برنگ خارمغیلاں زدشت راحت کھینچ۔ اس تمہید کے بعد میں آتا ہوں موضوع کی طرف پہلے آپ ایک اور تمہید دیکھیے کہ ایک لفظ پر ذرا غور کرنا ہے وہ لفظ ہے متاع اس کا قرآن مجید میں کئی جگہ استعمال آیا ہے متاع قلیل بھی ۔ظاہر اس کے سامنے کے معنی تو یہی ہیں کہ جمع پونجی یا دولت اس کے معنی کو عربی دان ہی صحیح طور پر بتا سکتے ہیں آپ کے لئے میں نہایت دلچسپ واقعہ بیان کروں گا کہ اس لفظ کی پوری کیمسٹری آپ کے سامنے آ جائے گی اسی لئے تو امین اصلاحی صاحب نے تدبیر القرآن میں عربی کے زمانہ جہالت کی شاعری کو کھنگالا کہ الفاظ اپنی درست اور صحیح مفہوم کے ساتھ سمجھ میں آ جائیں خیر بات لمبی ہو جائے گی کہتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادی نےؒ خیال کیا کہ اس لفظ کے معنی مکہ یا مدینہ کے رہائشیوں میں سے کسی سے پوچھے جائیں اتفاق دیکھیے کہ ایک گھر سے آواز آئی کہ والدہ اپنی بیٹی سے پوچھ رہی تھی متاع کہاں ہے بیٹی نے کہا وہ تو ایک کتا اٹھا کر لے گیا تھا۔ اس فقرے پر حضرت چونکے کہ یہ کیا چیز ہے متاع؟ کہ کتا اسے اٹھا کر لے گیا حضرت تو پہلے ہی اس لفظ کے معانی جاننے کے لئے بے تاب تھے پوچھنے پر پتہ چلا کہ متاع اصل میں وہ کوچی یا کپڑا ہے جس سے برتن صاف کرتے ہیں یعنی سالن وغیرہ جو برتن میں جم جاتا ہے تو اس کپڑے سے مانجا جاتا ہے پتہ چلا کہ کتا اسے اس لئے اٹھا کر لے گیا کہ اس پر سالن وغیرہ لگا ہو گا اور کتے نے اسے سونگھ کر اٹھا لیا اب اس کے بعد خیال ادھر بھی جاتا ہے کہ اس کے بعد کتے نے اسے کھانے کی کوشش کی تو وہ ناکام رہا مگر خوشبو اسے تنگ کرتی رہی تو یہ جو دنیا ہے اسی طرح کی متاع ہے کہ اس کا فائدہ کچھ نہیں یہ متاع قلیل بس اس کپڑے سے آنے والی خوشبو ہے جو رات کے بچے یا جمے ہوئے سالن نے ڈالی تھی۔ میں اس واقعہ پر سوچتا رہا کہ کیا بلاغت ہے پھر میرے ذھن میں یہ بات بھی آئی کہ اگر متاع وہی کوچی یا کپڑا ہے کہ جس سے سالن لگے برتنوں کو صاف کرتے ہیں اور اگر اس متاع کو دولت مان لیا جائے اور ہے بھی تو پھر اس دولت کو بھی عین متاع کی طرح اپنے اندر لگے ہوئے رنگ کو بھی صاف کیا جا سکتا ہے یا اپنے ساتھ چمٹے حرص و ہوس کو بھی ہم جانچ کر الگ کر سکتے ہیں مقصد کہنے کا یہ کہ اتفاق کر سکتے اللہ کے راستے میں اس کے دیے ہوئے میں سے خرچ کر کے اپنی صفائی کر سکتے ہیں مجھے یاد آیا کہ دولت کو اسی لئے ہاتھوں کی میل بھی کہا گیا ہے مگر یہاں تو اس دولت کا اچھا استعمال اسے متاع ہی بنا دے گا کہ جس نے من کی صفائی کا کام کیا۔ پھر ایک اور خیال میرے ذھن میں آیا کہ کتے نے اسے اٹھایا تو ایک مطابقت اس کی کتے کے ساتھ بنی کہ اس کی طمع بھی اسی جیسے لوگ کرتے ہیں۔ ساری بات کا لب لباب یہ ہے کہ دنیا دولت ہے اور یہ کچھ نہیں ہے بس ایک عارضی سے شے ہے جس کی حیثیت آخرت کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں یہ واقعہ موجودہ صورتحال میں زیادہ اپیل کیا کہ اس وقت جو حال ہے وہ کبھی بھی نہیں تھا آپ یقین کیجیے کہ میں صبح سورۃ البقرہ میں دوسرے پارے کا نواں رقوع دیکھ رہا تھا کہ اس میں ایک آیت آئی جس کا مفہوم مجھے چونکا گیا کہ لوگوں میں سے ایک شخص ذھن میں رہے کہ یہ عموم ہے خاص نہیں۔ایسا ہے جس کی باتیں آپ کو بہت بھاتی ہیں اور وہ اپنی باتوں پر اپنے دل کی بات پر خدا کو گواہ بنا کر بات کرتا ہے اور وہ سخت جھگڑالو ہے وہ لوگوں میں جاتا ہے فساد پھیلاتا ہے اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔آپ اکثر سنتے ہیں کہ ہمارے سیاست دان کیسے بات کرتے ہیں اپنی باتوں پر اللہ کو گواہ بناتے جاتے ہیں آپ کے ذھن میں بہت کچھ آیا ہو گا کہ وہ بات ہی ایسے شروع کرتے ہیں کہ اللہ گواہ ہے یا پھر اللہ کو جان دینی ہے وغیرہ وغیرہ۔ عام لوگ بھی سمجھتے ہیں بعض اوقات انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اصل میں انہیں اپنے جھوٹ کا علم تو ہوتا ہے وہ اپنی بات کو اعتبار دینے کی کوشش کرتے ہیں وہی کہ وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا۔کیا تماشہ نہیں کہ اکثر اپنے جھوٹ کا آغاز خدا کے نام سے کرتے ہیں کردار ایسا ہونا چاہیے کہ بات پر جھوٹ کا گمان تک نہ ہو۔ مجھے قائد اعظم کا ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ جب وہ انگریزی میں تقریر کر رہے تھے تو ایک بابا بڑے غور سے سن رہا تھا پاس کھڑے کسی شخص نے ہنستے ہوئے پوچھا بابا جی کچھ سمجھ وی آندھی اے کہ بس اس بابے نے کہا پتر ایہہ سچ بول رہیا اے واہ یہ بات ہوتی ہے کہ جس کی بولی سب کچھ بتا دیتی ہے کردار اعتبار رکھتا ہے اللہ معاف کرے وگرنہ ہمارے ایسے ایسے سیاستدان ہوئے کہ لوگوں میں سگریٹ کیس لہرا کر کہتے تھے کہ یہ قرآن ان کے ہاتھ میں ہے آپ شہاب نامہ پڑھیں تو یہ واقعہ بھی آپ کو وہاں ملے گا کوئی کرمانی صاحب قسم کے سیاستدان تھے۔ اللہ ڈھیل دیتا ہے ایک دن انہیں اللہ کو جواب تو دینا پڑے گا۔آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی اٹھ کر کہتا ہے کہ میں کپڑے بیچ کر آپ کو آٹا دوں گا پھر پتہ چلا کہ وہ تو کپڑے اتار رہا ہے اجتماعی طور پر بھی ان کے کمالات یہی ہیں کہ نجات دلانے آئے تو ان سے نجات حاصل کرنا مشکل ہو گیا ایک نے مارا تھا اور یہ دفنانے کے قریب لے آئے ہیں غلط نہیں کہہ رہا مثلاً شہباز شریف صاحب بھی خدا کی گواہی کے بغیر بات ہی نہیں کرتے۔ ٭٭٭٭