سوویت لیڈر میخائل گورباچوف اور امریکی صدر جارج بش سینئرکے درمیان 1990میں وائٹ ہاوس میں تخفیف اسلحہ اور فضائوں کو کھولنے کیلئے چوٹی کی ملاقات جاری تھی، کہ روسی مترجم کے گورباچوف کے کسی لفظ کے غلط ترجمہ سے فضا مکدر ہوگئی ۔ میٹنگ سبوتاژہونے کے قریب ہی تھی کہ گورباچوف نے معاملہ سنبھال لیا۔ ملاقات کے اختتام پر جب مترجم اگور کورچیلوف نے امریکی صدر کے پاس آکر معذرت کی، تو بش نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ ’’نوجوان ، شکر کرو کہ تمہاری وجہ سے تیسری عالمی جنگ نہیں چھڑ گئی‘‘۔ترجمہ نگاری یوں تو دنیا کے قدیم ترین پیشوں میں سے ایک ہے، مگر گلوبلائزیشن اور باہمی انحصار کی دنیا میں ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ اور صحیح مفہوم ایک ضرورت بن چکی ہے۔ اقوام متحدہ ہر سال 30ستمبر کو عالمی ترجمہ د ن مناتی ہے، تاکہ مترجموں کے رول اور ان کے ذریعے مختلف قومیتوںکو کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور بات چیت میں ان کے کردار کو اجاگر کیا جائے۔ ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کتنی اہم ہے اور اسے کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ کس طرح ہوسکتا ہے، اسکی سب سے بڑی مثال دہلی یونیورسٹی کے مرحوم پروفیسر عبدالرحمٰن گیلانی ہیں، جن کو دہلی کی ایک عدالت نے کشمیر ی زبان میں ٹیلیفون پر ہوئی بات چیت کی وجہ سے پارلیمنٹ حملہ میں ملوث ہونے کے الزام میںسزائے موت سنائی تھی۔ مگر بھلا ہوا دہلی ہائی کورٹ کا ، جس نے کشمیر ی فلم میکر سنجے کاک اور ٹریڈ یونین لیڈر سمپت پرکاش کی دلیل کو تسلیم کرکے انکو بری کردیا۔ دونوں زبان دانوں نے عدالت کو باور کرادیا کہ پولیس کی طرف سے دائر کشمیر ی زبان میں ہوئی بات چیت کا ترجمہ غلط ہی نہیں بلکہ برعکس ہے۔ پولیس نے دہلی کی آزاد پور سبزی اور فروٹ منڈی میں ایک آٹھویں جماعت پاس ایک فروٹ بیچنے والے شخص سے پروفیسر صاحب کی کشمیر میں ان کے برادر سے ہوئی بات چیت کا کشمیری سے ہندی میں ترجمہ کروایا تھا۔13 دسمبر 2001 کو ہوئی اس بات چیت کی بنیاد پر پولیس اور نچلی عدالت نے نتیجہ اخذ کیا کہ انکو پارلیمنٹ پر حملہ کی پیشگی اطلاع تھی اور وہ اسکی پلاننگ کرنے والوں میں شامل تھے۔ ان کے برادر نے فون پر انکو بتایا تھا ’’کہ دہلی میں آج کیا ہوگیا؟ ‘‘ جس کا ترجمہ ہندی میں کیا گیا کہ ’’ دہلی میں آج آپ نے کیا کردیا؟ ‘‘ پروفیسر صاحب نے ہنستے ہوئے کشمیری میں جواب دیا چھا’’یہ ضروری‘‘ یعنی کہ’’ ـکیا یہ ضروری تھا؟‘‘ پولیس نے اسکو لکھا ’’یہ چھہ ضروری‘‘ یعنی ’’یہ ضروری تھا۔‘‘ مجھے یاد ہے کہ 90ء کے ابتدائی دنوں میں سرینگر میں ایک بس میں دو بڑھئی ایک دوسرے کے ساتھ کشمیر ی زبان میں کسی مکان کی چھت ڈالنے کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ بس میں موجود کسی مخبر کو اس گفتگو میں بس بام کا لفظ سمجھ آرہا تھا۔ اس نے ایک سکیورٹی پکٹ پر اہلکاروں کو اشارہ کیا ۔ ان دونوں کو اتار کر گرفتار کیا گیا۔ انٹروگیشن میں یہ دونوں بڑھئی دہائی دے رہے تھے کہ وہ بام یعنی چھت کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے، بم بنانے سے ان کا دور دور تک کا کوئی واسط نہیں ہے۔ چونکہ پچھلے ایک سال کے دوران کشمیر میں حراست میں لئے افراد کو اکثر بھارت کے طول و عرض میں مختلف جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے، مترجموں کی عدم موجودگی ان کیلئے ایک اورطرح کے ٹارچر کا موجب بن رہی ہے۔ وہ جیل حکام سے گفت و شنید نہیں کر پا رہے ہیں۔ پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی نے اپنی ایک رپورٹ میں بارہمولہ کے 28 سالہ فیاض میرکا واقعہ درج کیا ہے۔ اس نے قرضہ لیکر ایک ٹریکٹر خریدا تھا تاکہ بوڑھے ماں باپ اور چار جوان بہنوں کی کفالت کر سکے۔ اسکو گرفتار کرکے اتر پردیش کے شہر بریلی کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ اس کے باپ نے 25ہزار روپے اکھٹا کئے اور ملاقات کیلئے بریلی پہنچا۔ مگر ملاقات کے کمرے میں سلاخوں کے پیچھے وہ صرف اپنے بیٹے کو دیکھ سکا اور کوئی بات نہیں کرسکا، کیونکہ جیل سپریٹنڈنٹ کی سخت ہدایت تھی کہ گفتگو صرف ہندی زبان میں سپاہیوں کی موجودگی میں کی جائیگی۔ مگر اس کے والد کشمیر ی کے علاوہ اور کوئی زبان بولنے سے قاصر تھے۔ 20منٹ تک باپ بیٹے بس ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، تاآنکہ سپاہی فیاض کو دوبارہ اندر لیکر گئے اور ملاقاتی کو باہر نکال دیاگیا۔ بیٹے سے بات کئے بغیر عمررسیدہ باپ 11,00کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس اپنے گھر لوٹا۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ دور میں سفارت کاروں سے زیادہ مترجموں کے سینوں میں اندرون خانہ راز دفن ہوتے ہیں۔ بند دروازوں کے پیچھے ، ون ٹو ون میٹنگوں میں، جہاں وزیروں و مشیروں کی بھی رسائی نہیں ہوتی ہے، بس مترجم ہی دنیا اور ملکوں کی تقدیر سنوارتے اور بگاڑتے رہتے ہیں۔ آجکل دنیا کے متعد لیڈر پر سنل کیمسٹری کو بڑھانے کیلئے غیر رسمی بات چیت پروقت صرف کرتے ہیں، جس میں افسران سے زیادہ مترجم ہی زیادہ رول ادا کرتے ہیں۔ 1977میں امریکی صدر جمی کارٹر اپنے پولینڈ کے دورہ کے دوران اپنے مترجم کی وجہ سے مذاق کا موضوع بن گئے۔ اپنی تقریر میں پولینڈ کے عوام کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے ان کے مستقبل کے بارے میں انکی خواہش جاننی چاہی۔ یاد رہے تب تک پولینڈ کمیونسٹ سویت بلاک کا رکن تھا۔ مترجم اسٹیون سیمویر نے پولش زبان میں بتایا کہ امریکی صدر پولش عوام کی ’’خواہش‘‘ رکھتے ہیں۔ جب کارٹر نے کہا کہ’’ و ہ پولینڈ آکر خوشی محسوس کرتے ہیں‘‘ ، تو مترجم نے کہا کہ کارٹر ’’پولینڈ کو باہوں میں لینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں‘‘۔ دورہ کے اختتام پر امریکی صدر نے کہا ’’وہ اب خوش ہوکر واپس امریکہ جا رہے ہیں‘‘۔ سیمویر نے ترجمہ کیا کہ ’’وہ بخوشی امریکہ کو خیر باد کر رہے ہیں‘‘۔ امریکی نژاد بھارتی مترجم گوریپ چاولہ ، جو وزایر اعظم نریندر مودی کیلئے اقوام متحدہ میں ان کی تقاریر کی پچھلے کئی سالوں سے ہندی سے انگریزی کے ترجمہ کا کام انجام دے رہی ہے، کا کہنا ہے کہ مترجم کیلئے لازم ہے کہ وہ سو فیصد دھیان سے کام لے، کیونکہ کرکٹ کی بیٹنگ کی طرح غلطی ہونے پر بس آوٹ ہی ہونا ہے۔ کوئی لائف لائن نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے بغور سننے کے ساتھ ساتھ برا ہ راست ترجمہ کرتے ہوئے دماغ میں اسکا تجزیہ بھی کرنا ہوتا ہے۔ اس بات کا خیال بھی رکھنا ہے کہ لہجہ، ادائیگی اور مزاج برقرار رہے اور اگر لیڈر محاورو ں کا استعمال کرتا ہے تو انکو بھی دوسری زبان میںبالکل وہی جامہ پہنانا ہوتا ہے۔(جاری)