دلیل ختم ہوجائے تو محاذ آرائی کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ پی ڈی ایم کے حکمرانوں نے ایک مرتبہ پھر محاذ آرائی کا دروازے کا کھول دیا ہے۔ اس حقیقت سے بے خبر کہ اس کا سارا فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا‘ اگر موجودہ حکمران کوئی سب سے بڑی غلطی کرینگے تو وہ نواز شریف کی واپسی کیلئے عمران خان کی گرفتاری اور ان کی نا اہلی یا گرفتاری ہو گی۔اور تو کچھ نہیں ہوگا البتہ تحریک انصاف مزید قوت کیساتھ ابھرے گی‘پھر انتخابات سے خائف حکمرانوں کی سیاست آخری تباہی کے دھانے پر ہوگی۔ اور ان کی کوئی سیاسی چال کارگر ثابت نہیں ہو گی۔ تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کو جس طرح صبح صبح گرفتار کیا گیا‘یہ مناظر دیکھ لیجئے‘کیا اس سے حکومت کو کچھ حاصل ہوا؟ البتہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے اس صورتحال پر درست تبصرہ کیا کہ الیکشن کمیشن سیاسی فریق بن کر سامنے آیا ہے۔ فواد چوہدری پر توہین الیکشن کمیشن کے تحت بغاوت کے درج ہونیوالے مقدمے نے متعدد سوالات کو جنم دیا ہے۔قانونی ماہرین کی ایک یونیفارم رائے ہے کہ الیکشن کمیشن وفاق اور صوبائی ادارہ نہیں لہذا وہ اس قسم کا مقدمہ کیسے درج کروا سکتا ہے۔ اس بارے میں متواتر سوال اٹھایا جارہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے درج کروائی گئی ایف آئی آر کے متن سے صاف واضح ہوتا ہے کہ پہلے سے کوئی جواز تلاش کیا جارہا تھااور جیسے ہی کچھ حاصل ہوا تو مقدمہ درج کروادیا گیا۔ فواد چوہدری کو لاہور رنگ روڈ سمیت لاہور کے بیشتر علاقوں میں پولیس کی پلٹون جس طرح لے کر دندناتی رہی‘اس پر بھی طرح طرح کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں‘کچھ لوگوں کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ بغاوت جیسے مقدمات الیکشن کمیشن یا پولیس کا وطیرہ نہیں۔ جو بھی ہے جیسا بھی ہے‘ایک بات طے شدہ ہے کہ فواد چوہدری کو گرفتار کرنے کے پس پردہ مقاصد وہ نہیں جو ظاہر کئے جارہے ہیں‘ پس چلمن کچھ تو ہے‘اس کا اظہار پولیس کی لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے ایک یوم میں تین سے چار مرتبہ طلبی کے باوجود بے فکری سے ہوگیا۔ سونے پر سہاگہ تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب کی جانب سے پولیس کی گاڑیوں کو روکنے کی کوشش اور انہیں یہ بتانا کہ عدالت نے طلب کر رکھا ہے‘توہین عدالت نہ کریں اس کے باوجود پولیس کی دیدہ دلیری سامنے آئی۔فواد چوہدری کو اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کرنے کے بعد منہ پر سفید چادر ڈال کر لیجانے پر سیاسی حلقوں کا بھی پارہ نقطہ عروج پر پہنچا۔ سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر سمیت متعدد سنجیدہ سیاستدانوں نے اس عمل پر برہمی کا اظہار کیا‘ اب سوال جنم لیتا ہے کہ ایسا کیو ں کیا گیا؟ دراصل تحریک انصاف کی مقبولیت کے بعد جب عمران خان پنجاب اسمبلی تحلیل کروانے میں کامیاب ہوچکے ہیں‘ کے پی کے اسمبلی بھی تحلیل کروائی جاچکی ہے‘جس کے بعد نگران وزیر اعلی کی تعیناتی پر طے شدہ حکمت عملی کے تحت محاذ آرائی کی گئی ۔ جس پہلے روز نگران وزیر اعلی کے طور پر فرائض کی انجام دیہی شروع کی‘سب سے پہلے سی سی پی او لاہور غلام محبوب ڈوگر کو تبدیل کیا گیا‘جس سے عمران خان پر وزیر آباد میں ہونیوالے قاتلانہ حملے کے سربراہ تبدیل ہوگئے کہ بلال صدیق کمیانہ کو سی سی پی او لاہور تعینات کردیا گیا‘اسی طرح عمران خان کا الزام ہے کہ جے آئی ٹی کے ایک اس تفتیشی آفسیر کو بھی تبدیل کردیا گیا جس نے سب سے زیادہ محنت کی تھی اور جے آئی ٹی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی تھی۔بلال صدیق کمیانہ 25 مئی کو جب تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے پیش نظر بدترین ظلم و بربریت پر بازار سرگرم کیا گیا‘وہ اس وقت بھی سی سی پی او لاہور تھے‘لہذا نگران وزیر اعلی کا یہ اقدام تنازعے کی پہلی وجہ بنا‘حالانکہ حکمرانوں کو 25مئی کے بعد 27جولائی کو ضمنی انتخابات میں اپنی بدترین شکست کا بھی ماہرانہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاہم نگران وزیر اعلی کی تعیناتی کے بعد 24جنوری کی رات کے آخری پہر زمان پارک میں واقعہ عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پی ٹی آئی کے کارکنوں کا تانتا بندھ گیا۔تحریک انصاف کے بیشتر رہنماؤں نے سوشل میڈیا پر کارکنوں کو بتایا کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کی تیاری کی گئی ہے۔فواد چوہدری بھی اسی گرج سے زمان پارک پہنچے جہاں سے واپسی پر ان کو گرفتار کرلیا گیا‘ ان واقعات نے تحریک انصاف کے نگران وزیر اعلی پر اعتراضات کو عملی شکل دی ہے اور سوال کیا جانے لگا ہے کہ کیا نگران وزیر اعلی کی آئینی و قانونی حدود و قیود انہیں ایسے اقدامات کی اجازت دیتی ہیں؟ایسی افواہیں بھی مسلسل گردش ایام میں ہیں کہ پنجاب اور کے پی کے میں ضمنی انتخابات بروقت نہیں کروائے جائینگے‘وفاق کے انتخابات بھی اگست کے بعد نوے روز کی نگران حکومت لا کر اس کو التوا کا شکار کیا جائیگا‘گو کہ الیکشن کمیشن کے مطابق وہ انتخابات کے لئے تیار ہے اور اس نے انتخابات کی تخمینہ لاگت کے مطابق درکار فنڈز بھی طلب کرلئے ہیں‘ پنجاب اور کے پی کے میں ضمنی انتخابات کی تاریخیں بھی دونوں صوبوں کے گورنرز کو تجویز کردی ہیں لیکن الیکشن کمیشن کا کردار بھی مسلسل متنازعہ ہورہا ہے‘تحریک انصاف کے یکے بعد دیگرے 35‘35ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے بعد 43ارکان نے سپیکر قومی اسمبلی سے ملاقاتوں میں ناکامی کے بعد چیف الیکشن کمشنرکو تحریری درخواست جمع کروائی تھی کہ اگر سپیکر قومی اسمبلی ان کے استعفے منظور کر لیں تو الیکشن کمیشن انہیں ڈی نوٹیفائی نہ کرے‘اس سلسلہ میں پہلے الیکشن کمیشن کا ایک اجلاس بغیر کسی فیصلے کے ملتوی ہوا اور اگلے روز جس وقت فواد چوہدری کو پولیس لاہور کی سڑکو ں پر لے کر سیر سپاٹے کررہی تھی‘اسی اثناء میں الیکشن کمیشن سے تحریک انصاف کے ان43ارکان اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی خبر سامنے آگئی‘گویا طے ہوا کہ حکومت کے پاس انتخابات کے التوا‘عمران خان اور تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کی ہر دلیل ختم ہوچکی ہے‘لہذا محاذ آرائی کے دروازے کا کھول دیا گیا ہے‘کیا حکومت کو اس سے کچھ حاصل ہوگا؟ معذرت کیساتھ:حکومت ناکام ہی رہے گی!!