چرند ، پرند ، انسان سب کی اپنی اپنی زبانیں ہیں ، محبت کی زبان مشترکہ ہے ۔ کہتے ہیں کہ ہنر مند ، کاریگر اور فنکار نہیں بولتا ، اس کا فن بولتا ہے ۔ اس کے باوجود ہنر مندوں کاریگروں اور فنکاروں کی اپنی ایک زبان ہے ۔ سرائیکی زبان کے عظیم ماہر لسانیات پروفیسر شوکت مغل نے زبان پر کام کیا اور ان ہنر مندوں کی زبان کو بھی محفوظ کیا جو پیشے ہی معدوم ہو گئے ۔ پروفیسر شوکت مغل کا لسانیات پر تحقیقی کام ابھی جاری تھا کہ بے رحم موت نے مہلت نہ دی ، اب ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے تشنہ کام کو کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچائیں ۔ میرے سامنے ان کی کتاب اصطلاحات پیشہ وران ہے ۔ اس میں دو سو سے زائد دستکاروں ،پیشہ وروں اور ہنر مندوں کے اصطلاحی الفاظ سرائیکی زبان میں اردو ترجمے کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں ۔ 992 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک بہت بڑا علمی خزانہ ہے ۔ اس میں 200 پیشہ جات کے ساتھ ساتھ تقریباً سات سو کے قریب سب یا ضمنی پیشہ جات کا ذکر موجود ہے اور یہ کام ابھی آگے جاری تھا ۔ خصوصاً سات جلدوں پر مشتمل جامع سرائیکی لغت ،یہ کام شاید انفرادی طور پر نہ ہو سکے ، وزیراعلیٰ سردار محمد عثمان بزدار کو اس کام کی تکمیل کیلئے خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ وسیب کا مرکزی شہر ملتان صدیوں سے ہنر مندوں کا گہوارا چلا آ رہا ہے ۔ پروفیسر شوکت مغل نے لکھا کہ ہندوستان کے تاج محل کی تعمیر میں ملتان کے کاریگروں نے اپنی ہنر کے جوہر دکھائے تو ہندی زبان میں کہاوت شامل ہوئی ’’ آگرہ اگر، دلی مگر ، ملتان سب کا پِدر ‘‘ مگر افسوس کہ ان ہنر مندوں کو احترام دینے کی بجائے جاہل جاگیرداروں نے ان کو کمی و کسبی کا نام دے دیا۔ حالانکہ ’’ کمی کسبی‘‘ نہ کوئی ذات ہے نہ قومیت ،،کام کرنے والا کمی ہے اور کسب کرنیوالا یعنی ہنر مند کسبی ہے ،دونوں قابل احترام اور لائق صد تعظیم ہیں البتہ جس کی سوچ میں کمی ہو گی وہ دوسروں کو کمی سمجھے گا ، کام کرنیوالے ہنر مندوں کو کمی کہنے کا مرض عموماً جاگیرداروںخصوصاً حملہ آور اور ان کی اولادوں میں زیادہ ہوتا ہے، اوروہ جہالتیں بکھیرتے رہتے ہیں یہ تو ان کی بات ہوئی، لیکن کوئی پڑھا لکھا، دانشور، صاحب بصیرت ، سیاستدان یا کالم نویس کسی انسان کو اس کی غربت یا اس کے پیشے کے اعتبار سے کمی کہہ کر پکارے تو صرف افسوس ہی نہیںصدمہ ہوتا ہے ۔ بد قسمتی سے ذات پات کا تصور پوری دنیا میں ہے سرکارؐ کی تشریف آوری کے وقت عرب میں بعض قبائل اپنی عددی طاقت کے بل بوتے احساس تفاخر میں مبتلا تھے، باقی کیلئے یہ تھا کہ بلوچ اور پشتون نسلی معاشرت کی طرح یا تو وہ اپنی قومیت بدل کر کسی طاقتور قبیلے کا حصہ بنیں یا پھر کمی اور شودر بن کر رہیں ۔ سرکار دو عالمؐ نے اس روش کو سخت نا پسند فرمایا اور عظمت کا معیار کو قرار دیا ۔ آپؐ نے عرب معاشرت میں حقیر کہلانے والے بلال حبشی ؓ کو عظمت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ ہمارے دوست عبد الشہزاد بہاولپوری نے اس موضوع پر اپنی تحقیقات میں درست لکھا ہے کہ کوئی بھی مذہب انسان کو پیشے کے اعتبار سے کمی نہیںبناتا ، انہوں نے بجا لکھا کہ اردو لغات میں میراثی کے معانی جابجا غلط لکھے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ میراثی کا لفظ میراث سے ماخوذ ہے ۔ سرائیکی وسیب میں ایک لفظ ’’ ڈاڈے حال ‘‘ بولا جاتا ہے ، یہ ’’ ڈاڈے حال ‘‘ شجرہ نسب پڑھنے والے اور میراث کا علم رکھنے والے لوگ ہیں ۔ ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ ہمیں تیسرے دادے کے نام اور اس کی قبر کے نشان کا علم نہیں جبکہ ’’ ڈاڈے حال ‘‘ کو کم از کم سات پشتوں کا علم ہوتا تھا اور ’’ ڈاڈے حال ‘‘ تسلیم ہی اُسے کیا جاتا تھا جو کم از کم سات پشتوں کا علم رکھے ۔ ڈاڈے حال کو اردو میں میراثی کہا جاتا ہے مگر معاشرتی جبر نے میراثی کو کمی بنا دیا ۔میراثی در اصل کوئی ذات نہیں ، یہ لفظ میراث سے ماخوذ ہے اور پہلے وقتوں میں میراث اور وراثتوں کے معاملات میں میراثی یا ’’ ڈاڈے حال ‘‘ کی گواہی کو معتبر سمجھا جاتا تھا، رشتہ داری کے معاملات میں بھی ان کی ملائی گئی کڑیوں کو اہمیت حاصل تھی۔ 1865 ء کی ایک تحریر Settlement Report میں لکھا ہے کہ میراثی شجرہ انساب رکھنے والے لوگ ہیں ، جائیداد کے معاملات میں بطور گواہ پیش ہوتے ہیں ، خود بے زمین ہو کر دوسروں کی زمینوں کا تحفظ کرتے ہیں ،گھر میں صبح شام غربت کا ماتم ہو تب بھی دوسروں کی ہر خوشی میں رنگ بکھیرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اپنی نعلین مبارک کی خود مرمت فرما کر سرکار دو عالم ؐنے اپنے ہاتھ کی محنت کی عظمت کو سر بلند فرما دیا۔ یہ دُرست ہے کہ اپنے نام کے آگے پیچھے لمبے چوڑے القابات لکھنا تو علمی اعتبار سے غلط ہو سکتا ہے لیکن رزق حلال کیلئے پیشے قطعی طور پر غلط نہیں ، یہ نسبتیں ہیں بالکل اس طرح جیسا کہ برہمن ، مہابرہمن ، قاضی، مولوی ، چشتی ، صابری ، اویسی ، نقشبندی ، سہروردی ، قادری ،گیلانی ، بخاری ،علوی ،حسنی ، حسینی ، شیخ ، انصاری ، پیر ، پیرزادہ وغیرہ بھی ذاتیں نہیں بلکہ مذہبی نسبتیں ہیں ،لیکن نسبت میں بھی اعلیٰ ادنیٰ کا پیمانہ ذاتی عمل ہے، مہاتما گاندھی نے کمی کے حوالے سے کہا تھا کہ عملی طور پر ایک خاکروب کا بادشاہ سے مرتبہ اس لئے زیادہ ہے کہ بادشاہ گندگی پھیلاتا ہے اورخاکروب صاف کرتا ہے ۔ میں اپنی بات کو ایک بار پھر دہراؤں گا کہ کورونا نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے ، نئی دنیا آباد ہونے جا رہی ہے ، انسان کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی اور انسان کو انسان جاننا ہوگا ، انسان کی بڑائی کا معیار اس کے علم ، ہنر اور کردار کے طور پر ماننا ہوگا ۔ ابوجہل بھی ان پڑھ نہ تھا ، فرعون اور قارون کے پاس دولت کی کمی نہ تھی ، کوئی بھی شخص اپنے مال و زر ، عہدے ، مرتبے ، بنگلوں اور اراضیات یا مربع جات سے بڑا نہیں ہوتا بلکہ انسان اپنی سوچ سے بڑا ہوتا ہے ۔ ہنر مند، پیشہ ور اور فن کار کمی نہیں بلکہ کمی وہ ہے جس کی سوچ میں کمی ہے ۔ انسانیت کے لئے سرکارؐ کے پیغام کو عام کرنا ہوگا اور جہالت کے بت پاش پاش کرنا ہونگے ورنہ دنیا میں آسودگی نہیں آ سکے گی ۔