پنجاب سے صرف دریائے سندھ نہیں نکلتا۔ اس دھرتی سے ایک دریا اور بھی نکلتا ہے۔ وہ محبت کا دریا ہے۔ محبت کے اس دریا کے لیے موسم کی کوئی قید نہیں۔ وہ دریا ساون کے مہینے میں بہنے کے لیے مجبور نہیں۔ وہ دریا گرمیوں کی بارشوں کی وجہ سے نہیں بہتا۔ وہ دریا اس وقت سرد موسموں میں مچلتا رہتا ہے جب ساری ندیا ںاور سارے نالے سوکھ جاتے ہیں۔ محبت کا وہ دریا جو اپنے آپ کو عشق کے سمندر میں سمانے کے لیے سفر کرتا ہے۔ اس دریا کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب ٹی وی چینل پر قصور کے رپورٹر نے یہ خبر دی کہ برصغیر کے عظیم صوفی شاعر بابا بلھے شاہ کا عرس منایا جا رہا ہے۔ بابا بلھے شاہ کا نام وہ چابی ہے جس سے صرف دل کے نہیں بلکہ دماغ کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ یہ ایک غلطی ہے یا سازش ؟ مجھے اس سلسلے میں سوچنا پڑے گا مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمارے بزرگوں کو ہمیشہ عقیدت اور احترام کی چادروں میں چھپایا گیا ہے۔ پاکستان میں اشفاق احمد کے بعد ایسا کوئی قلم اور ایسی کوئی زباں نہیں جو اس دھرتی کے قدیم اور عوامی فوک وزڈم کو جدید انداز سے پیش کرے۔ ہمارے مسائل کا حل ہم میں ہے۔ مگر اپنے آپ میں داخل ہونے کا ہنر ہمیں صرف ان بزرگوں سے حاصل ہوتا ہے جو آج بھی ہمارے اندر میں محبت کا ساز بجا رہے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے ملک کے جاہل اور جھوٹے سیاستدانوں کے پیچھے چل کر اس راستے کو فراموش کردیا ہے جو دل سے نکلتا ہے اور دل کی طرف جاتا ہے۔ سیاستدانوں نے سندھ اور پنجاب میں ہمیشہ فاصلے بڑھائے ہیں۔ صوفیا ء کرام نے انسانوں کے درمیان فاصلے گھٹائے ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے پنجاب کو میاں نواز شریف کے حوالے اور سندھ کو زرداری کے سپرد کردیا ہے۔ حالانکہ سندھ شاہ لطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی سرزمین ہے اور پنجاب بلھے شاہ اور خواجہ فرید جیسے ان بزرگوں کی دھرتی ہے جو دلوں کو دلوں سے جوڑنے کا فن جانتے تھے۔ وہ عظیم انسان پوری زندگی غلط فہمیوں کی دیواریں گراتے اورمحبت کے گیت گاتے رہے۔ دنیا بدل گئی ہے۔ دنیا کے ساز بدل گئے ہیں۔ مگر بلھے شاہ اور باہو کے سر آج تک نہیں بدلے۔ موسیقی کی نئی دنیا مجبور ہے کہ وہ اپنے جدید سازوں پر محبت کے قدیم گیت گائے اور لوگوں کے دلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش میں کسی حد تک کامیاب ہوجائے۔ کچھ دن قبل میں سندھی زباں کے ابھرتے ہوئے ایک ماڈرن آرٹسٹ سیف سمیجو کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور اس کی گفتگو میں وہی باز گشت تھی جو آج سے تین چار صدیاں قبل سندھ کی ہواؤں میں صوفیا ء کرام کے سازوں اور آوازوں سے ایک عظیم صدا کی صورت پیدا ہوئی تھی۔ جب سیف سمیجو علن فقیر کا مشہور کلام گنگنا رہا تھا تب تاریخ کے فاصلے سمٹتے جا رہے تھے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ جب سچل سرمست کے سرائیکی کلام ’’گھوم چرخڑا‘‘ گایا جاتا ہے تب اس کلام کو زیادہ خوبصورت بنانے کے لیے بلھے شاہ کے اشعار بھی اس میں شامل کیے جاتے ہیں۔ وہ اشعار سن کر یقین سا ہو جاتا ہے کہ محبت کی ساری صدائیں ایک جیسی ہیں۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو شیخ ایاز کیوں لکھتے : ہم دونوں میں نباہ گر تیرا سچل دوست ہے میرا بلھے شاہ جب بھی سندھ اور پنجاب کے درمیاں قلندر لال شہبازؒ ؛ سچل سرمستؒ؛ شاہ لطیف ؒاور بلھے شاہؒ؛ حضرت باہوؒ اور خواجہ فریدؒ کے نام گونجتے تب سیاست کی بنائی وہ ساری دیواریں گرجاتی ہیں جنہوں نے ہمیں آج تک ایک دوسرے سے دور رکھا۔ ہماری سیاست بہت بدذوق اور نفرت کی پلی ہوئی ہے اس لیے ہم نے وہ راستے تلاش نہیں کیے جو راستے ہمارے لیے ہمارے بزرگوں نے بنائے تھے۔ ان راستوں پر صرف محبت کی چھاؤں نہیں بلکہ حسن کی خوشبو بھی ہے؛ وہ بہت آسان اور دل میں بس جانے والے مناظر سے بھرپور راستے ہیں۔ ہمیں ان راستوں سے دور کرنے میں کبھی بندوق والی سیاست کا ہاتھ رہا اور کبھی نام نہاد مخلوق والی سیاست نے ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں جان بوجھ کر بھٹکایا۔ آج اگر ہم قومی وحدت کی کمی کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں تو اس کا سبب صرف اتنا ہے ہم نے خود کو ان راہوں سے دور کر دیا جن راہوں کی بانہوں میں سکون کے ساتھ ساتھ تحفظ کا عظیم احساس بھی محسوس کرتے تھے۔ میری نظر میں اشفاق احمد جدید خیالات اور قدیم احساسات کا حسین سنگم تھے۔ وہ بہت حلیم بھی تھے اور وہ بہت حکیم بھی تھے۔ ان کو نہ صرف ہمارے قومی اور معاشرتی امراض کا علم تھا بلکہ وہ ان بیماریوں کا علاج بھی جانتے تھے۔ اس لیے جب سندھ اور پنجاب کے درمیاں نفرت کی دیواریں بنائے جانے کی سازش ہونے لگی تب انہوں نے لاہور میں ’’شاہ لطیف کا میلہ‘‘ سجایا تھا۔ وہ میلہ بہت محدود پیمانے پر تھا مگر اس میلے میں کوئی جھوٹ اور کوئی مکر نہیںتھا۔ وہ میلہ محبت کا میلہ تھا۔محبت کے اس میلے کا تسلسل نہیں رہا۔ یہ کتنی غلط بات ہے ہم نفرت کا تسلسل تو نسل در نسل تلاش کرلیتے ہیں مگر ہمیں محبت کا سلسلہ آگے بڑھانے کا آرٹ نہیں آتا۔ہم کو بڑی عیاری کے ساتھ ایک دوسرے سے دور رکھنے کے طریقے استعمال میں لائے گئے ہیں۔ ہم سیاست کے سیلاب میں بہتے ہوئے ایک دوسرے سے بہت دور نکل جاتے ہیں مگر جب بھی ہماری سماعتوں پر ہماری سرزمین کی صوفی صدا اترتی ہے ہم تاریخ میں اپنے کھوئے ہوئے رشتوں کے بارے میں بہت جذباتی ہوجاتے ہیں اور اس بچے کی طرح رونے لگتے ہیں جو بھالو کے تماشے میں بہت دور نکل جاتا ہے اور جب شام کے سائے گہرے ہوجاتے ہیں تب اس کو اپنے گھر کی یاد ستانے لگتی ہے۔ ہمارا اصل گھر یہاں نہیں‘ ہمارا اصل گھر وہاں ہے جہاں محبت کی مہک بسی ہوئی ہے۔ محبت کی وہ مہک قصور میں بھی ہے۔ محبت کی وہ مہک لاہور میں بھی ہے۔ محبت کی وہ مہک ملتان بھی ہے اور محبت کی وہی مہک ہالا سے لیکر خیرپور اور سندھڑی کے سیہون میں ہے جہاں آج بھی نقارے بجتے ہیں تو دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے ہمارے لیے کیا کچھ نہیں کیا اور ہم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ کاش! ہم ان کے بتائے ہوئے راستے کو نہ چھوڑتے۔ کاش ! ہم محبت کے اس سفر کو بھول کر نہ بیٹھتے جس کی منزل وہاں ہیںجہاں مزاروں پر کبوتر اڑتے ہیں۔ جہاں غریب لوگ دل کا کھویا ہوا سکون تلاش کرنے آتے ہیں۔ جہاں محبت کی زباں میں موسیقی بجتی ہے تب خون کی گردش بھی ہمارے وجود میں رقص کرنے لگتی ہے۔ یہ وہ کیفیت تھی جس کیفیت میں شیخ ایاز نے پنجاب کے صوفی شعراء کی حضور میں عقیدت کے سندھی گلاب رکھے تھے۔ وہ شعر کبھی کسی سرکاری ادارے نے سندھ سے پنجاب نہیں پہنچائے۔اگر سندھ کا محکمہ ثقافت یہ تکلیف کرتا تو اس کا کیا بگڑتا؟ اگر پنجاب کے سرکاری ادارے اس سمت میں دو قدم اٹھاتے تو انہیں کون سی تکلیف پیش آتی؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے علمی اور ادبی اداروں کے سربراہ بھی محض حکمرانوں کی خوشامد میں دن دگنی اور رات چگنی محنت کرتے ہیں۔ انہیں تو اپنے مفاد عزیز ہیں۔ انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ ہمارے قومی اور عوامی مفادات کا تحفظ کریں۔ سندھ میں بلھے شاہؒ سے محبت صرف صوفی خیالات کی وجہ سے نہیں کی جاتی مگر ان سے عوامی عشق کی وجہ یہ ہے کہ وہ محبت کے سفیر تھے اور وہ محبت کے سفیر ہیں۔ آج بھی ان کا کلام دل پر جما ہوا نفرت اور تعصب کا زنگ ہٹانے میں اہم کردارا دا کرتا ہے۔ آج دنیا بہت آگے چلی گئی ہے۔ مگر جب آگے کا راستہ ختم ہونے لگتا ہے تو ہم واپس جانے کے لیے پیچھے دیکھتے ہیں اس وقت ہمیں اپنے محبت کے بچھڑے ہوئے مسکن شدت سے بلاتے ہیں۔ یہ عشق کی صدا ہے۔ یہ وہی صدا ہے جس سے تاریخ گونجتی ہے۔ یہ وہی صدا ہے جس صدا کو اپنے فن میں سماتے ہوئے شیخ ایاز نے لکھا تھا: بلھے بھئیا تجھ کو مجھ کو عشق نچائے تھئیا تھئیا! محبت کی یہ صدائیں فراموش کرکے ہم جس نفرت کے شور میں جیتے ہیں اس کا لازمی اثر یہی ہوگا کہ ہم مزید تکلیف کے مراحل میں پہنچیں گے۔ ہماری دھرتی کی سرزمین بھی سیراب ہوگی مگر اس سے قبل ہمیں دل کی دھرتی کو اس پانی سے سیراب کرنا ہوگا جو پہاڑوں سے اترتا ہوا اور پنجاب سے گزرتا ہوا وادی سندھ میں داخل ہوتا ہے۔ وہ عشق کا دریاآج بھی بہہ رہا ہے اور اس کی ہر لہر میں ایسے الفاظ ہیں جیسے الفاظ کے اظہار کا تحفہ قدرت نے صرف بلھے شاہ کو عطا کیا تھااور انہوں نے انا کے قیدی انسانوں کو آئینہ دکھاتے ہوئے فرمایا تھا: پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں تو نام رکھ لیا قاضی ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھ لیا حاجی اے بھلیا حاصل کی کیتا؟جے تو رب نہ کیتا راضی