پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں میں تہی دست ہوں اور بارہا یہ سوچتا ہوں اس طرح لوگ کہاں لوٹ کے گھر جاتے ہیں لیکن بعض لوگ ان پھولوں کی طرح ہوتے ہیں جو یکسر خوشبو میں ڈھل جاتے ہیں اور وہ خوشبو لوگوں کے مسام جاں کو مہکاتی رہتی ہے۔ بعض لوگ اپنی پہچان نہیں بناتے بلکہ زندگی کی پہچان کرواتے ہیں وہ مرتے کہاں ہیں‘ وہ تو بقول کیٹس اپنی دوسری زندگی، بعد میں اپنے کام کی صورت میں گزارتے ہیں۔ یہی باکمال لوگ ہوتے ہیں جو بانٹتے بانٹتے اپنا دامن خیر سے بھر کر چلتے ہیں۔ میں محمد حامد سراج سے کبھی نہیں ملا اور نہ ہی ان کے بارے میں مجھے اتنی معلومات تھیں، کہ شاعر ہونے کے ناتے بس اپنی دنیا ہی میں ہم لوگ رہتے ہیں۔ پتہ نہیں ان کی وفات کی پوسٹوں پر ان کی نورانی صورت دیکھ کر میرے دل میں ایک عجیب خواہش پیدا ہوئی کہ انسان کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ کیا نورانی چہرہ سبحان اللہ۔ میں جوں جوں ان کے بارے میں جاننے لگا تو ان کی شخصیت کے سحر میں آ گیا۔ ان کا تعلق میانوالی کی خانقاہ سراجیہ سے تھا اور اتفاق یہ کہ میرے ددیال کندیاں کے پیر ڈاکٹر اختر شمار‘ ڈاکٹر اورنگ زیب اور کئی دوستوں کی پیار بھری پوسٹیں سوشل میڈیا پر نمودار ہوئیں اور یقین مانیے مجھے ایسے لگا کہ یہ محض خانہ پوری نہیں بلکہ دوستوں کا دلی خراج تحسین ہے اور ایسے لگا کہ جیسے محمد حامد سراج کا چلا جانا ان کا ذاتی نقصان ہوا۔ میرا احساس شدت اختیار کر گیا کہ میں اس فرشتہ صفت انسان سے کیوں نہ مل سکا۔ میں نے ان کی وال پر جا کر ان کا ایک حالیہ انٹرویو سنا جو فرحین چودھری نے کیا تھا۔ سارا ماحول ہی کتابی نظر آیا۔ ایک پاکیزگی ‘ تطہیر اور تقدیس ان کی باتوں میں تھی اور چہرہ تو ان کا تھا ہی نورانی سا۔ یہ علم و ادب سے بھرا ہوا ایک آدمی نکلا۔ جس نے چھٹی ساتویں ہی میں نسیم حجازی کے سارے ناول پڑھ ڈالے۔ یہی لوگ ہوتے ہیں جو کتابوں کے درمیان زندگی بسر کرتے ہیں اور پھر زندگی کو کتاب میں رکھ دیتے ہیں: خوں جلایا ہے رات بھر میں نے لفظ بولے ہیں تب کتابوں سے وہ درویش گو شہ نشیں تھے اور ساری عمر اپنے اردگرد ریشم بنتے رہے۔ یہی لوگ ہوتے ہیں جو کام کر کے جاتے ہیں اور ہماری طرح نہیں جو گانے سے پہلے مشہور ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ایک تنظیم اور ترتیب اس لئے تھی کہ وہ باقاعدہ ایک سلسلہ سے بیعت تھے اور اسی باعث انہوں نے ادب کو بھی خودسر نہیں ہونے دیا۔ ان کی تصنیف ’’سوانح خواجہ خواجگان حضرت مولانا خان محمد ’’ہمارے بابا جی‘‘ ان کے روحانی پہلو کا پتہ دیتی ہے۔ برادر سجاد بلوچ نے اچھا کیا کہ 92نیوز کے ادبی صفحہ پر ان کا بھر پور تعارف لکھ دیا۔ ان کی تصانیف میں پانچ افسانوی مجموعے ہیں۔ ’’وقت کی فصیل‘‘ ’’برائے فروخت‘‘ چوب دار اور برادہ‘ ان کا ایک وسیع اور اہم کام دنیا کی اہم آپ بیتیوں کا انتخاب اور تلخیص ہے۔ اس سے ان کی وسعت مطالعہ کا پتہ چلتا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ وہ باتیں نہیں کام کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی وال پر ناصر کاظمی کا شعر لگا رکھا ہے: آئو چپ کی زبان میں ناصر اتنی باتیں کریں کہ تھک جائیں محمد حامد سراج نے اپنے بچپن کے واقعات میں ایک دلچسپ بات کی کہ وہ اپنے ماموں کے ہاں گئے تو انہوں نے ’’نقوش‘‘ چرا لیا کہ اس میں کمال کے افسانے چھپے ہوئے تھے۔ مجھے پطرس بخاری کا انتساب یاد آ گیا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ میری کتاب اگر آپ نے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اگر کسی نے تحفہ میں دی ہے تو اس نے مجھ پر احسان کیا ہے اور اگر آپ نے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں‘‘ ان کو ماں کے موضوع پر لکھی ہوئی طویل تحریر ’’میّا‘‘ سے زیادہ شہرت ملی۔ اگرچہ اس سے پہلے قدرت اللہ شہاب کا ماں جی اور منشا یاد کا ’’ماں جی‘‘ بھی ادب کی شاہکار تحریریں ہیں مگر محمد حامد سراج نے کافی تفصیل میں لکھا ہے ان کی ماں سے اٹیچ منٹ یعنی وابستگی نظر آئی ہے۔ اس طویل خاکے کا ترجمہ ہندی میں بھی ہوا۔ محمد حامد سراج نے جاتے جاتے اپنی وال پر لکھا تھا: آئی رُت مجھے روئے گی جاتی رُت کا جھونکا ہوں ہمیں چھوڑ جانے والے دوسرے دوست شرافت نقوی ہیں۔ ان کی رحلت کا پڑھتے ہی دل کو ہاتھ پڑا کہ ٹی وی کے سارے شب و روز آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ان کے ساتھ ہمارا روز کا واسطہ تھا۔ وہ سراپا شرافت تھے۔ ڈاکٹر اورنگزیب نیازی نے درست لکھا کہ ’’کیا خوف قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور‘‘ اورنگزیب نے شرافت نقوی کے والد گرامی سید قدرت نقوی کی غالب شناسی پر ایم اے کا مقالہ تحریر کیا تھا اور اس حوالے سے ان کا شرافت نقوی سے گہرا تعلق رہا۔ ایک بڑے شخص کا بیٹا ایسے ہی ہوتا ہے جیسے برگد کے نیچے اگنے والا پودا۔ شرافت نقوی اکثر اپنے والد گرامی کی تصانیف کا ذکر کرتے کہ وہ ثنا خوان اہل بیت بھی ہے اور یہ ایک اعلیٰ شرف ان کے پاس تھا ہم اکثر شرافت نقوی سے مذاق کرتے کہ تھے تو وہ ابا تمہارے تھے مگر تم کیا ہو؟۔ شرافت نقوی بہت ہی محبت کرنے والے اور ہمدرد دوست تھے۔ وہ ہمیں بہت سینئر بن کر ملتے اور سمجھانے کے انداز میں بات کرتے مگر ہمارا بے تکلفانہ انداز دیکھ کر خود بھی مسکرا دیتے۔ آتے جاتے اور خاص طور پر کیلی گرافی والے کمرے میں سلمان سعید ‘ حفیظ طاہر اور دوسرے دوست سلام شاد‘ غلام رسول اور حفیظ وغیرہ اکٹھے ہوتے تو خوب گزرتی۔ پھر وہ ترقی کرتے گئے اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر پی ٹی وی ملتان بھی رہے۔ اس کے بعد وہ کراچی چلے گئے۔ ان کا طرز تکلم اور شخصیت ہماری یادوں کا حصہ رہے گی کہ وہ اہل بیت کی خوشبو میں رہتے تھے اور انہیں کے وسیلہ شرافت نقوی کے لئے مغفرت کی دعا۔ آخر میں شرافت نقوی کی وال پر لکھا ہوا بوقلندر کا شعر: اے خضر چشمۂ حیواں کہ برآں می نازی بو دیک قطرہ زدُر تہہ پیمانہ ما ترجمہ:اے خضر آپ حیواں کا چشمہ کہ جس پر تو ناز کرتا ہے وہ تو ہمارے پیمانے کی تہہ میں بیٹھی ہوئی تلچھٹ کا ایک قطرہ ہے۔