ایک عظیم ناول نگار، جن کے ’’چاکی واڑہ میں وصال‘‘ کو فیض احمد فیض نے اردو کا سب سے بڑا ناول قرار دیا۔ ایک انوکھے افسانہ نویس، جنھوں نے قیامِ پاکستان سے بھی قبل تھرپارکر سندھ کے عوام کی سادہ، غربت زدہ اور اخلاص سے لبا لب زندگی کو اپنے ابتدائی افسانوں کا موضوع بنایا۔ جب وہ انجینئرنگ میں فیل ہو جانے کے خوف یا آوارہ و نظارہ گردی کے شوق میں گھر سے بھاگ کر مِٹھی (تھرپارکر) میں سکول ٹیچر بھرتی ہو گئے تھے، لیکن امتحان میں پاس ہو جانے کی پاداش میںانھیں بقول پطرس ’والدینی اغراض‘ کے پیشِ نظر واپس بلا کر با دلِ نخواستہ دوبارہ انجنئیرنگ کے سفر پہ ڈال دیا گیا۔ پاکستانی سیاحت کو دل و جان سے عزیز رکھنے والے ایسے سفرنامہ نواز، جنھوں نے ’یاترا‘ اور ’سواتی و کاغانی مہم‘ کے ذریعے ا س وقت وطنِ عزیزکی خوب صورت وادیوں کی ادبی تصویر کشی کی، جب ہمارا مقامی سفر نگار ابھی یورپ و امریکا کی گوریوں کے بھورے بالوں، سفید پنڈلیوںاور نیلی آنکھوں کے احساسِ کمتری سے لبریز قصے بیان کرنے میں مصروف تھا۔ ایک خاص انداز کے خاکہ طراز، جن کے لکھے ہوئے سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، شفیق الرحمن، رستم کیانی، فکر تونسوی اور ظہور نظر کے محبت بھرے خاکے پڑھ کے مَیں خود اس صنف کی زلفوں کا اسیر ہوا تھا۔ اسلوبِ غالب کے سب سے اہم تحریف پرداز، جن کے ’فنون‘ او ر ’افکار‘ میں شائع ہونے والے ’مکاتیبِ خضر‘ اور ’عودِ پاک‘ کے سلسلوں نے اُردو کے تمام اہلِ قلم کو گرویدہ کر رکھا تھا۔ وزیرِ اعظم بھٹو، اور جنرل یحییٰ سے لے کر ایک چرواہے تک کے نام لکھے یہ خطوط اُردو ادب کا سرمایہ ہیں۔وہ پاکستانی ادب کے پہلے اور منفرد فینٹیسی پرور بھی ہیں، جن کی جارج آرویل کی ’نائنٹین ایٹی فور‘ کی طرز میںبقولِ خود: زہر میں بجھے قلم سے لکھی یہ سیاسی طنز ’بیس سو گیارہ‘ جس کو پڑھنے کے بعد معروف مزاح نگار کنہیا لعل کپور نے حسرت آمیز انداز میں کہا تھا کہ ’’کاش مَیں اس کا مصنف ہوتا۔‘‘ پھر وہ ادب اور ادیب کی روح میں اتر جانے والے اچھوتے نقاد بھی ہیں، جن کے کھرے اور دوٹوک تبصروں کی شدت اور حدت کو آج بھی اردو کے تمام بڑے اور اہم رسائل و جرائد کے اوراق میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔جنھوں نے مشتاق احمد یوسفی جیسے مہان مزاح نگار کی شہرہ آفاق شگفتہ خود نوشت’’زرگزشت‘‘ کی کرافٹ مین شپ کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا: ’ ’ایک ایک سطر سے خون پسینے اور موم بتی کی بو آتی ہے۔‘‘ انگریزی ادب کو گھول کے پی جانے والے، چارلس ڈکنز، پی جی وُڈ ہاؤس، مارک ٹوین،ڈین سوفٹ اور گراہم گرین کے عاشق اور بقولِ خود ’رابرٹ لوئی سٹیونسن کے چیلے‘ ہمارے یہ منفرد طنز و مزاح نگار، کہ جن کی شگفتہ تحریروں کے موضوعات اور مزاح کے نئے نویلے انداز دیکھ کے حیرت انگیز اندازہ ہوتا ہے کہ اردو ادب کے شاید ہی کسی دوسرے ادیب اور بالخصوص کسی مزاح نگار کی تحریروں میں اتنا تنوع اور اس قدر رنگا رنگی موجود ہے۔ انھیں دنیا ’رائٹر آف رائٹرز‘ اور محمد خالد اختر کے نام سے جانتی ہے۔ وہ ایک معروف اور باوقار خاندان کے چشم و چراغ تھے، ڈیرہ اسماعیل خاں کی ایک معزز فیملی میں شادی ہوئی۔ ہمیشہ عالی شان بنگلوں میں مقیم رہے، بہاول پور، لاہور اور برطانیہ کے اعلیٰ سے اعلیٰ اداروں سے تعلیم حاصل کی، بڑے سے بڑے عہدوں پر فائز رہے، اچھے سے اچھے پرچوں میں چھپے، وطنِ عزیز کی نامور علمی، ادبی، سیاسی، سماجی،شخصیات سے دوستانہ مراسم رہے، پاکستان ٹیلی وژن سے ان کی شگفتہ کہانیوں کے سلسلے ’چچا عبدالباقی‘ کی ڈرامائی تشکیل اس زمانے میںمنظرِ عام پہ آئی جب پی ٹی وی سے متعلق ہونا معنی رکھتا تھا۔ ۱۹۶۸ء میں ان کے مجموعے ’کھویا ہوا افق‘ کو آدم جی ادبی ایوارڈ ملا، مختلف ممالک کی سیر کی ، 2001ء میں مجلسِ فروغِ ادب دوحہ قطر کی جانب سے ان کی مجموعی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں عالمی ادبی اعزاز سے بھی نوازا گیا لیکن تمام عمر مِٹھی، نوں کوٹ، سوات اور ناران کے چرواہوں کی زندگی پہ رشک کرتے رہے۔ اُردو دنیا کے اس قابل فخر سپوت نے ۲۳ جنوری۱۹۲۰ء کو بہاول پور کی زرخیز بلکہ مردم خیزدھرتی پر ایک علمی، ادبی اور خوشحال گھرانے میں جنم لیا اور کراچی کی موت آشنا وادی میں بیاسی سال اور گیارہ دن کی عمر میں دو، دو، دو (2فروری2002ئ) کو وفات پائی۔ کراچی کی ایک الیکٹرک کمپنی سے آغاز پانے والی اپنی ملازمت کے سلسلے میںوہ احمد پور شرقیہ، چشتیاں، خان پور، حیدرآباد، ملتان اور لاہور میں تعینات رہے۔ 1980ء میں واپڈا ہاؤس لاہور ہی سے ڈائریکٹر سٹورز کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔کراچی میں ابتدائی ملازمت کے دوران اندلس کے معروف سیاح ابنِ جبیر کے سفرنامے کو اردو ترجمہ’ابنِ جبیر کا سفر‘ کے عنوان سے کیا، جو حنیف رامے کے پرچے ’نصرت‘ میں قسط وار چھپا اور جسے وہ ہمیشہ اپنی زندگی کی بیش قیمت متاع قرار دیتے رہے۔ محمد خالد اختر سے راقم کا تعلق 1988ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اُردو سے ایم اے کے امتحان کے لیے مقالے کا موضوع (محمد خالد اختر: فن اور شخصیت) تفویض ہو جانے کے بعد شروع ہوا لیکن اپنی زندگی کے بقیہ چودہ سال انھوں نے مجھے مثل اپنے گھر کے ایک فرد کے سمجھا۔ اس ڈیڑھ دہائی میں ان کے کوئی سو کے قریب خط میرے نام آئے۔ ان خطوط میں ان کی ذاتی و ادبی زندگی کے بہت سے گوشے اور ادب اور ادیبوں کے بہت سے پہلو اور رویے محفوظ ہیں۔ جن کو انشا اللہ جلد منظرِ عام پر لایا جا رہا ہے۔ اپنے مقالے کی تسوید و تحقیق کے دوران 27مارچ 1988ء کو بہاول پور کے ’مولوی اختر علی ہاؤس‘ میںان میری ان سے ایک تفصیلی ملاقات بھی ہوئی، جس میں محمد خالد اختر کے خاندانی حالات ، ذاتی شجرہ، دوران ملازمت تعیناتی کے مقامات اور زمانہ، نیز اپنے سفرناموں میں فرضی ناموں سے در آنے والی شخصیات کا تفصیلی تعارف کرایا ۔