محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور حسن عمل کا انسان کو صلہ ملتا ہے ۔سعودی عرب کا دورہ بار آور رہا اور چین کے نائب سفیر نے عمران خان کے اگلے ہفتے دورہ بیجنگ کی کامیابی کا مژدہ سنا دیا۔ متحدہ عرب امارات کا اعلیٰ سطحی وفد طویل ملاقاتوں کے بعد وطن واپس جا چکا اور اُمید یہ کی جا رہی ہے کہ دوست ملک ہماری مشکلات کم کرنے میں مددگار ہو گا۔ عمران خان نے کفائت شعاری مہم کا آغاز کیا تو مخالفین کے علاوہ فعال میڈیا نے مذاق اُڑایا۔ گاڑیاں اور بھینسیں بیچنے سے کتنی بچت ہو گی؟ دسترخوان سمیٹنے سے قومی خزانے میں کتنے ارب جمع ہوں گے؟ اور عالمی مالیاتی اداروں کے بجائے دوست ممالک اور بیرون ملک پاکستانیوں سے امداد طلب کرنا کس قدر مفید ہے؟ یہ سوالات تھے جو بار بار دہرائے گئے۔ کسی نے سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ اپنے شہریوں اور دوست ممالک کا اعتماد بحال کرنا کتنا ضروری ہے۔ جب اپنے عوام‘ دوست احباب اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کار شاکی ہوں کہ ٹیکسوں اور سرمایہ کاری کی صورت میں ان کے خون پسینے کی کمائی شاہ خرچ حکمرانوں‘ ان کے فرنٹ مینوں اور کرپٹ بیورو کریسی کی جیبوں میں چلی جاتی ہے‘اشرافیہ کے اللوں تللوں پر صرف ہوتی اور منی لانڈرنگ کی بھینٹ چڑھتی ہے تو ان کا اعتماد بحال کرنے کے لیے حکومت کیا کرے۔؟ کفائت شعاری اور پائی پائی کی حفاظت کے سوا کیا چارہ ہے۔ ایک نہیں کئی واقعات ہیں۔ بھٹو صاحب پاکستان کی اقتصادی و معاشی مشکلات کم کرنے کے لیے دوست ممالک کے دورے پر گئے‘ درجنوں افراد پر مشتمل وزیروں‘ مشیروں ‘دوست احباب اور افراد خانہ کے لیے مہنگی گاڑیاں کرائے پر لی گئیں۔ پانچ ستارہ ہوٹلوں میں کمرے بک کرائے گئے اور وفد شاہانہ کروفر کے ساتھ مذاکرات کے لیے پہنچا تو میزبان ملک کے سربراہ اور حکام ہکا بکا رہ گئے۔ ایک بار ناروے کے وزیر اعظم نے عشائیہ دیا تو بھٹو صاحب بروقت پہنچ گئے مگر وزیر اعظم ناروے تاخیر سے آئے‘ معذرت کی کہ میں چونکہ گاڑی خود ڈرائیو کر کے آیا ہوں اور پارکنگ کے لیے مناسب جگہ نہ مل سکی یوں آتے آتے تاخیر ہو گئی۔ یہ وزیر اعظم میٹرو بس اور ٹرین میں سفر کرنے کا عادی تھا اور دیگر کئی ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں کا بھی یہی معمول ہے۔ سابق سیکرٹری خارجہ سلطان محمد خان نے اپنی کتاب ’’چمن پہ کیا گزری‘‘ میں بھٹو صاحب کے دورہ سویڈن کا تذکرہ کیا ہے جس میں وزیر اعظم بوئنگ طیارہ بھر کر وفد لے گئے اور سویڈن کے اخبار نے سرخی لگائی کہ ’’پاکستان کو سویڈن کی امداد کی ضرورت نہیں‘‘ مطلب واضح تھا کہ یہ چونچلے امداد دینے والوں کو زیب دیتے ہیں لینے والوں کو نہیں۔سفارت کار کرامت غوری نے اپنی کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو‘ ضیاء الحق‘ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے بیرونی دوروں کا تذکرہ کرتے ہوئے دلچسپ مگر ندامت آمیز واقعات بیان کئے ہیں۔ کشکول بردار قافلہ اگر تھری پیس سوٹ میں ملبوس لیموزین گاڑیوں میں سوار کسی بادشاہ‘ سربراہ مملکت اور وزیر اعظم کے دروازے پر دستک دے اور امداد کی درخواست کرے تو ہر غیرت مند شخص ندامت محسوس کرے گا۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ ڈالروں‘ پونڈوں ‘ یوان اور درہم و دینار کی صورت میں ملنے والی امداد واپسی پر عشرت کدوں کی تعمیر‘ مہنگی گاڑیوں کی خریداری اور ندیدوں کی شکم پروری پر خرچ ہو۔ چین 1949ء میں آزاد ہوا اور چیئرمین مائو نے شاہی محلات (فاربڈن سٹی) کے بجائے تیانمن سکوائر کے قریب ایک کمپائونڈ میں رہنا پسند کیا ۔ ستر سال گزر گئے آج بھی صدر ژی‘ وزیر اعظم‘ کابینہ کے ارکان بڑے بڑے محلات کے بجائے ایک ہی کمپائونڈ میں رہتے ہیں تین تین چار چار بیڈ روم کے گھر اور قریب ہی دفاتر‘ حالانکہ چین اس وقت معاشی سپر پاور بن چکا اور دفاعی سپر پاور بننے کی تگ و دو کر رہا ہے۔ پاکستان میں مگر صدر‘ وزیر اعظم ہائوس کو دیکھ کر امریکہ کے صدر اور برطانیہ کے وزیر اعظم کو کمتری کا احساس ہوتا ہے۔ عمران خان نے گزشتہ روز دو تین اچھے فیصلے کئے۔ وفاقی وزیروں کے بیرونی دوروں پر پابندی لگا دی۔ صدر اور چیف جسٹس کے سوا کوئی فرسٹ کلاس میں سفر نہیں کرے گا اور دورہ چین میں جو تاجر و صنعت کار وزیر اعظم کے ہمراہ جائیں گے وہ اپنا خرچہ خود برداشت کریں گے۔ سعودی عرب کے دو دوروں میں عمران خان درجنوں افراد پر مشتمل وفد لے کر نہیں گئے اور چین و ملائشیا کے سفر میں بھی مسافروں کی تعداد محدود ہو گی۔ قومی خزانے کو اس سے بچت ہو نہ ہو میزبانوں کو یہ تاثر ضرور ملے گا کہ مہمان عزیز واقعی قومی معیشت‘ اقتصادیات کی بہتری کا خواہش مند ہے اور پاکستان کو بحران سے نکالنے کے لیے جو مالی امداد اس کے حوالے کی جائے گی وہ شہ خرچیوں کی نذر نہیں ہو گی۔مختلف دارالحکومتوں میں سیاسی بنیادوں پر تعینات سفیروں کو ہٹا کر منجھے ہوئے سفارت کاروں کو ذمہ داریاں سونپنے کا فیصلہ بھی حکومت کی سنجیدگی کا مظہر ہے۔ علی جہانگیر صدیقی کو امریکہ جیسے ملک میں سفیر لگانا شاید خاقان عباسی حکومت کا ایسا جرم ہے جو قوم کبھی معاف نہیں کر سکتی۔ لیکن فراخدل قوم ایسے معلوم نہیں کتنے جرائم معاف کر چکی۔ وال سٹریٹ جرنل نے شنگھائی الیکٹرک اور ابراج کے حوالے سے جو سٹوری شائع کی وہ کسی جمہوری ملک میں شائع ہوتی تو سیاسی سطح پر طوفان آ جاتا۔ جس سیاستدان پر رشوت کا الزام لگتا وہ کسی کو نہ دکھانے کے قابل نہ رہتا اور اس کے پورے خاندان کا مستقبل تاریک ہو جاتا مگر یہاںکسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ مُنہ زور میڈیا نے بھی نظرانداز کیا اور رات گئی بات گئی کا مقولہ سچ کر دکھایا۔ سعودی عرب کی طرح چین‘ ملائشیا اور متحدہ عرب امارات‘ پاکستان کی دستگیری پر آمادہ ہیں تو اس کی ایک وجہ شائد حکومت کی سنجیدگی ہے اور دوسرا سبب صاف گوئی۔ وزیر اعظم اگر یہ کہتا ہے کہ میرے ملک میں کرپشن ہے‘ منی لانڈرنگ ہوتی رہی ہے اور کرپٹ عناصر کی وجہ سے ملک معاشی دیوالیہ پن کی حدوں کو چھو رہاہے تو پاکستان کے دوست ممالک کو یہ بات اپیل کرتی ہے‘ انہیں احساس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کوچونکہ احساس زیاں ہے اور حالات سدھارنے کی خواہش‘ لہٰذا ایک بار نیو کلیر ریاست کو معاشی سہارا ملنا چاہیے۔ چین بھارت کو بحر ہند کا قبضہ دلانے کے لیے امریکی ریشہ دوانیوں سے واقف ہے اور پاکستان کی سٹرٹیجک پوزیشن کا شناسا‘ لہٰذا نائب سفیر کا بیان محض خیر سگالی کا مظاہرہ نہیں ٹھوس زمینی و معاشی حقائق کا آئینہ دار ہے۔ اگر چینی حکمرانوں کی طرح ہمارے نئے حکمران بھی کفائت شعاری بلکہ کنجوسی کی عادت اپنا کر ملک کی مالی حالت سدھارنے میں مگن رہے تو کامیابی دور نہیں۔ یہی ملک تھا جس کی ایک فیکٹری کے دورے میں چین کے وزیر اعظم چواین لائی نے اپنے تکنیکی ماہرین کو پاکستان بھیجنے اور فیکٹری میں انٹرن شپ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس ملک کے ڈاکٹر ‘ انجینئر اور دیگر شعبوں کے ماہرین امریکہ و یورپ میں اپنے ہنر کی داد پا رہے ہیں اور یہی ملک کرپشن‘ کام چوری‘ اقربا پروری اور فضول خرچی کے کلچر کو خیر باد کہہ کر ایک بار پھر ہمسایہ ممالک کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بجا کہ معاشرہ تیزرفتار تبدیلیوں کے لیے تیار نہیں‘ سٹیٹس کو کا عادی ہے اور سسلین مافیا نے ہر شعبے میں پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ بحیثیت مجموعی ہم مظلوم سے زیادہ ظالم سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ چاروں صوبوں میں کیڑوں مکوڑوں سے بدتر زندگی بسر کرنے والے بے کس و بے آسرا عوام سے زیادہ ہمیں چوروں‘ لٹیروں اور نوسر بازوں کے شہری و انسانی حقوق کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اور ان کی حق تلفی پر ہم تلملا اٹھتے ہیں۔ مگر تابکے‘ اس دلدل سے ہمیں نکلنا ہے۔ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور سنجیدہ سعی و تدبیر کبھی بے ثمر نہیں ہوتی۔ عمران خان کی طرح اس کی ٹیم اور پاکستان کے طفیل دنیا جہاں کے مزے لوٹنے والی بیورو کریسی بھی اگر ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر جہد مسلسل کو شعار کرے تو پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مدد ضرور کرتا ہے جو اپنی مددآپ کرنے کو تیار ہوں ؎ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا