وفاقی بجٹ میں سولر پینلوں پر عاید ٹیکسوں کا خاتمہ واحد خبر ہے جس پر لوڈ شیڈنگ سے پریشان لوگوں کو تسلی ملی ہے، انہیں امید ہے کہ اب سولر ٹیکنالو جی کی مدد سے وہ اذیت دہ کیفیت کا حل خود نکال سکیں گے۔ بجلی کے شعبے کو تین طرح کے بڑے چیلنجز لاحق ہیں۔طلب میں مسلسل اضافہ کے باوجود بجلی سپلائی جاری رکھنا‘ ماحولیاتی تغیر کا مقابلہ اور شہری آبادی میں تیز رفتار اضافہ۔ان تین نکات کو پیش نظر رکھ کر حکومتوں کو انرجی پالیسی ترتیب دینا ہو تی ہے۔ ان امور کو نظر انداز کیا گیا تو ناصرف کم نرخوں پر مسلسل بجلی کا حصول ناممکن ہو سکتا ہے بلکہ ماحولیاتی مسائل بھی سنگین ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے سے ہر صارف پریشان ہے۔بجلی انسان کی اس طرح کی ضرورت بن چکی ہے جس طرح آکسیجن، پانی اور خوراک۔ آکسیجن ،پانی اور خوراک قدرتی ذرائع سے ملتے ہیں لیکن بجلی انسان خود پیدا کرتا ہے۔جتنی ضرورت ہو اتنی بجلی پیدا کر لی۔بجلی کے نرخوں میں اتار تو شائد کبھی نہیں دیکھا گیا ہاں چڑھائو وقفے وقفے سے محدود آمدن والوں کی زندگی اجیرن ضرور کر دیتا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اتار چڑھائو کا تعلق طلب میں کمی بیشی‘ بجلی پیدا کرنے والے ذرائع کی دستیابی‘ بجلی پیدا کرنے کے لئے جو ایندھن استعمال ہوتا ہے اس کی قیمتوں اور پاور پلانٹس کی موجودگی سے ہے۔ گرمیوں میں گھروں اور دفاتر کے پنکھے و اے سی چلتے ہیں جس سے بجلی کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اس اضافی طلب کو پورا کرنے کے لئے جو افرادی قوت‘ آلات اور ایندھن استعمال ہوتے ہیں، ان سب کی قدر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا بڑا حصہ تیل سے حاصل کیا جا رہا ہے۔تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو بجلی کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔پھر آئی پی پیز کے ساتھ جو معاہدے کئے گئے ہیں ان سے بھی بجلی غیر معمولی طور پر مہنگی ہو رہی ہے اس صورت حال میں یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ صارفین کو سستی بجلی کیسے مل سکتی ہے؟ یہ سوال اس لئے ہمارے لئے زیادہ اہم ہے کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے لئے زیادہ تر گیس اور تیل کو بطور ایندھن استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ دونوں زرمبادلہ خرچ کر کے خریدنا پڑتے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے 2016ء میں متبادل ذرائع سے 2022ء تک 175گیگا واٹ بجلی تیار کرنے کا ہدف رکھا تھا۔ بھارت 95گیگاواٹ بجلی ہوا‘ پانی اور سورج کی روشنی سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے‘ پاکستان میں بجلی کی طلب 25000میگاواٹ بتائی جا رہی ہے۔نیپرا کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے تمام قسم کے پاور پلانٹس 38700میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی استعداد رکھتے ہیں،سوال بنتا ہے کہ پھر طلب پوری کیوں نہیں ہو رہی؟57فیصد بجلی تیل سے پیدا ہوتی ہے‘31فیصد پانی سے‘ 8فیصد ایٹمی بجلی گھروں سے اور صرف 4فیصد ہوا،سورج اور بائیوماس سے پیدا کی جا رہی ہے۔بجلی پیدا کرنے کے روائتی ذرائع کا ایک مسئلہ ٹرانسمیشن اخراجات ہیں۔یہ اخراجات اس صورت میں بچت میں تبدیل ہو سکتے ہیں اگر متبادل ذرائع کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ توانائی کے متبادل ذرائع کے فروغ میں کئی رکاوٹیں ہیں۔عوامی سطح پر آگاہی کی کمی۔بجلی کی سرکاری کمپنیوں کی صارف مارکیٹ پر اجارہ داری‘ بینکوں کی جانب سے متبادل ذرائع توانائی کے لئے قرضوں کا مشکل عمل‘ تربیت یافتہ ٹیکنیکل عملے کی کمی‘ آلات کی فراہمی کے مسائل اور سولر پینلوں کی درآمد پر ساڑھے 17فیصد ڈیوٹی نے ایسی کمپنیوں کی حوصلہ شکنی کی جو مناسب نرخوں پر صارفین کو بجلی فراہم کرنے میں مدد دینا چاہتی تھیں۔حکومت نے کہا ہے کہ سولر پینلوں پر ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔ایسا ہوا تو بڑے پیمانے پر نہ سہی گھریلو صارفین کی بڑی تعداد سولر انرجی پر منتقل ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں مختلف متبادل ذرائع کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے ماڈل پہلے سے موجود ہیں۔شوگر ملوں میں بائیو ماس سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے‘ کے پی کے اور بلوچستان کے دور دراز علاقے جہاں بجلی کی ٹرانسمشن لائنیں نہیں وہاں لوگ سولر پینل استعمال کر کے ضروریات پوری کر رہے ہیں۔بلوچستان اور سندھ کے ساحلی اور کھلے علاقوں کے ساتھ ملک کے کئی پہاڑی علاقوں میں ونڈ انرجی کے چھوٹے یونت لگائے جا سکتے ہیں۔گلگت بلتستان‘ کشمیر اور کے پی کے میں ایسے بہت سے چشمے ہیں جن پر چند لاکھ روپے خرچ کر کے ایک میگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان گنت چشموں اور پہاڑی ندیوں سے ہزاروں میگاواٹ کی یہ بجلی انتہائی سستی ہو گی۔ اس سے تیل کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات کم ہوں گے۔ بجلی سے محروم علاقوں کا بڑا حصہ بلوچستان میں ہے۔چند سو گھرانوں کی آبادی بسا اوقات نزدیک ترین گائوں سے دو سو کلو میٹر دور ہوتی ہے۔ان دو چھوٹی چھوٹی بستیوں کو ٹرانسمیشن لائنوں کے ذریعے ملانا ناممکن ہو جاتا ہے۔اربوں روپے کا خرچ ہوتا ہے۔ ایسے علاقوں کو بجلی سے محروم رہنے دیا جائے تو وہاں کمپیوٹر آ سکے گا نہ بلب روشن ہو پائے گا۔سستی بجلی کے وافر ذرائع کی موجودگی اور طلب کے باوجود لوگوں کو ان کم خرچ ذرائع سے محروم رکھنا کسی طور قابل فہم نہیں۔حکومت اور نجی شعبے کے لئے سستی بجلی کی وسیع مارکیٹ موجود ہے۔صرف اپنی ترجیحات میں تبدیلی، پالیسیوں میں اصلاح اور مستقبل کی ضروریات کو ذہن میں رکھ کر فیصلے کئے جائیں تو 18گھنٹے تک رہنے والی لوڈشیڈنگ ہی ختم نہ ہو گی زرمبادلہ پر پڑا بوجھ بھی ہٹ جائے گا۔