گذشتہ تیس برسوں میں کتب کی ورق گردانی اور کتب خانوں کی خاک چھاننے کے دوران لاتعداد کتابیں آنکھوں کو بھائیں، دل میں اتریں اور ذہن پر چھاگئیں۔ ہر کتاب نے اپنا ایک الگ تاثر دل و دماغ پر چھوڑا، لیکن کل سے ایک ایسی کتاب ہاتھ آئی ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے تقریباً دو دہائیوں سے مجھے اسی کی تلاش تھی۔ میں رات بھر جاگ کر اسے پڑھتا رہا اورصبح فجر کی سپیدی نمودار ہوتے وقت مجھے یوں لگا کہ ایسی ہی تحقیق کا تو قائد اعظم کو بھی شدت سے انتظار تھا۔اللہ جب کسی کو توفیق دینا چاہتا ہے تو اسے شروع دن ہی سے ایک ایسے راستے کا راہی بنا دیتا ہے جہاں سے منزل کا تعین آسان ہو جاتا ہے۔ محمد منیر احمد نے جب پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا تو ان کی پہلی نوکری ہی سٹیٹ بینک کے اس ریسرچ ڈیپارٹمنٹ میںبحیثیت ریسرچ آفیسر تھی، جس کے بارے میں بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا۔"I shall watch with keenness the work of your research organisation in evolving banking practices compatible with islamic ideals of social and economic life."(میں انتہائی اشتیاق کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیتا رہوں گا کہ آپ کا تحقیق کا شعبہ ایسی بینکاری کا طریق کار وضع کرے جو اسلام کی معاشرتی اور معاشی زندگی سے ہم آہنگ ہو۔)قائد اعظمؒ نے سٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر یہ ذمہ داری یکم جولائی 1948ء کواسی ’’ریسرچ ڈیپارٹمنٹ‘‘ کی لگائی تھی اور یہ ان کی آخری تقریر تھی۔ لیکن قائد اعظمؒ کے اس خواب کو تعبیر، سٹیٹ بینک کے تحقیق کے شعبہ کے ایک نابغہ روزگار شخص نے بہتر سال کے بعد کیا خوب بخشی ہے۔ محمد منیر احمد کی یہ کتاب"Madina Ecnomics:The First Ecomomic System Of Mankind"(’’معیشتِ مدینہ: انسانیت کا پہلا معاشی نظام‘‘)، دراصل اس خواب کی تعبیر ہے جو نہ صرف قائد اعظمؒ بلکہ تمام اُمت مسلمہ گذشتہ دو سو سال سے دیکھ رہی ہے۔ تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک ایسے قاری کی علمی پیاس بجھاتی ہے جو لاتعداد کتابوں کی ورق گردانی اس شوق میں کرتا ہے کہ ’’ جدید معاشی نظام کے مقابلے میں اسلام کونسا متبادل پیش کرتا ہے‘‘۔ مصنف کا سفر مغرب کے معاشی نظاموں کے وسیع مطالعے سے شروع ہوتا ہے، کیونکہ ان کی یونیورسٹی تعلیم ہی ’’جدید سودی مالیاتی نظام ‘‘سے متعلق تھی۔ وہ سٹیٹ بینک کے شعبہ تحقیق میں بھی اس وقت آئے جب پاکستان کی حکومتیںقائد اعظمؒ کے فرمان کو فراموش کر کے سودی نظام کی دلدل میں غرق ہو چکی تھیں۔حیرت اسی بات پر ہے کہ مصنف کو مغربی معیشت کی ناکامیوں نے ہی ’’اسلامی نظامِ معیشت‘‘ کے مطالعے کی طرف راغب کیا۔ مغربی معیشت کی ناکامی کا اعلان تو قائد اعظم اپنی اسی تقریر میں کر چکے تھے۔"The economic system of the west has created almost insoluble problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is now facing the world."(’’مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیئے ایسے لاینحل مسائل پیدا کر دیئے ہیں کہ ہم میں بہت سوں کے نزدیک دنیا کو کوئی معجزہ ہی اس تباہی سے بچا سکتا ہے جو اس نظام نے پیدا کی ہے‘‘۔) قائد اعظمؒ کے ان خیالات کی گونج جدید انسانی تاریخ میں بار بار سنائی دیتی ہے ۔ آخری دفعہ یہ اُس وقت سنائی دی ، جب موجودہ ’’عالمی سودی معاشی نظام‘‘ کی کشتی 2008ء میں ایسی غرق ہوئی کہ اور آج تک اس بھنورسے باہر نہیں نکل سکی ۔ مصنف اپنے مطالعے اور جستجو کے دوران ایک کتاب کا ذکر کرتا ہے جس نے اسے ریاستِ مدینہ کی معیشت کی طرف متوجہ کیا ۔ یہ 1883ء میں آسٹریا میں پیدا ہونے والے معیشت دان ’’جوزف شوم پیٹر‘‘ (Joseph Schom Peter)کی کئی جلدوں پر مشتمل کتاب"History Of Economic Analysis"تھی، جو اس کے مرنے کے بعد اس کی بیوی نے 1954ء میں شائع کی۔ اس انسائیکلوپیڈیا کی طرز کے بہت بڑے کام میں شوم پیٹر نے ایک تاریخی خامی کی طرف دنیا کو متوجہ کیا، جسے وہ "Great Gap" یعنی ’’بہت بڑا خلا‘‘ کہتا ہے۔ یہ خلا دراصل مغربی تاریخ دانوں اور فلسفیوں نے بددیانتی سے اپنی تحریروں میں چھوڑا ہے۔ شوم پیٹر کہتا ہے کہ ’’ ایسے محسوس کرایا گیا ہے کہ جیسے یونان کی قبل مسیح کی تہذیب کے بعد دنیا کا پہیہ رک گیا تھا اور پھر اچانک یورپ میںمعاشی نظام وجود میں آیاـ، درمیان کی سات صدیاں گویا اندھیری تھیں اور یہی صدیاں مسلمانوں کے عروج کی ہیںـ‘‘۔ اس کتاب کے بعد مغرب کے معیشت دانوں نے ڈھونڈنا شروع کیا کہ ان سات صدیوں والے خلا میں کیا ہوا، تو وہ ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کی معیشت تک جا پہنچے۔ تلاش کے اس کام کو ایک عظیم مسلمان معیشت دان ’’شیخ محمد غضنفر‘‘ نے پایہ تکمیل تک پہنچایا جو امریکہ کی ’’اڈہاو‘‘(IDAHO)یونیورسٹی میں معاشیات کے تاحیات پروفیسر ہیں اور شعبہ کے سربراہ بھی ہیں۔ برطانوی ہند میں1937ء میں پیدا ہونے والے اس مسلمان نے اس امت پر ایک احسان کیا کہ مسلمانوں کے عروج کی وہ صدیاں جنہیںمغرب ’’خلا‘‘ (GAP) تصور کرتا رہا، انہیںڈھونڈ نکالا اور دنیا پر واضح کیا کہ آج کی جدید معاشیات کا تو آغاز ہی ’’مدینہ منورہ‘‘ میں ہوا تھا۔ اس کی کتاب "History Of Economic Thought" کا موضوع ہی ایک تھا "Lost Arab-Islamic legacy and litrature gap" یعنی ’’عرب اسلامی گمشدہ روایت اور علمی تاریخ کا خلاــ‘‘ ۔ مصنف کے علم کا دوسرا پڑاؤ یہی شخص تھا، جس نے اسے ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کے معاشی اصولوں سے روشناس کروایا ۔اس کے بعد جو کتاب اسلامی معیشت پر روشنی ڈالتی ہے اور مصنف کی رہنمائی کرتی ہے وہ ’’مورس لمبارڈ‘‘ (Maurice Lambard) کی کتاب "The Golden Age Of Islam" ہے جس میں وہ لکھتاہے کہ چار سو سال تک مسلمانوں کا سکّہ’’دینار‘‘ دنیا بھر کی مارکیٹ میں ایک سٹینڈرڈ کے طور پر کام کرتا رہا اور یورپ کی مارکیٹوں کی تجارتی زبان بھی ’’عربی‘‘ تھی۔ یہ تمام کتابیں بنیادی علم فراہم کرتی تھیں، جن سے محمد منیر احمد نے سفر شروع کیا اورگیارہ سال کی محنت سے ایک ایسی کتاب تحریر کر دی جو بہت سے اذہان سے اس مایوسی کو ختم کردیتی ہے کہ جو اس طرح کے سوالوں سے پیدا ہوتی ہے کہ ’’اسلام کا معاشی نظام کیا ہے، کیسا ہے اور کیا آج بھی یہ نافذالعمل ہیـ‘‘۔ یہ کتاب ایسے تمام سوالوں کا جواب ہے اور تحقیق کرنے والوں کو نئے راستے دکھاتی ہے۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ مسلم امہ کی تاریخ میں 1905ء میں علامہ اقبالؒ نے ایک ایسی ہی کتاب تحریر کی تھی جس کا نام ’’علم الاقتصاد‘‘ تھا۔ وہ انگریزی میں لکھی گئی اور پھر علامہ اقبال نے اس کا اردو ترجمہ بھی خود ہی کیا۔ اس کتاب کے بعد اسلامی معیشت پر سب سے جامع کتاب یہ آئی ہے۔ یعنی تقریباً ایک سو پانچ سال بعد۔ اس دوران جتنی بھی کتب تحریر کی گئیں وہ زیادہ سے زیادہ سود سے نجات کے طریق کاریا بینکنگ سسٹم سے بحث کرتی رہیں، لیکن کسی نے اسلام کے معاشی و مالیاتی نظام پر ایک جامعیت سے گفتگو نہیں کی۔ کتاب کے دس ابواب ہیں، جن میں پانچ ابواب’’ معاشی و مالیاتی نظام‘‘ پر ہیں اور پانچ ’’جدید بینکنگ سسٹم‘‘ پر ۔کتاب پڑھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے آج کے جدید دور کے ہر معاشی مسٔلے کا جواب سیدالانبیاء ﷺ کی ’’ریاست مدینہ‘‘ کے’’ معاشی بازار‘‘ میں موجود ہے۔ کتاب کے نوے فیصد حوالے مغربی مصنفین کے ہیں اور اس بات پر مزید حیرت ہوتی ہے کہ سید الانبیاء ﷺ کے اس عظیم ’’اسلامی نظام‘‘ کو تمام مغربی معیشت دان معاشرے کی معاشی تباہیوں سے نجات کا واحد راستہ بتاتے ہیں جبکہ احساس کمتری کے مارے ہوئے، ہم مسلمان اس اعلیٰ معاشی نظام کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ محمدمنیر احمد بھی علامہ اقبالؒ کی روایت پر عمل کرتے ہوئے، اس کتاب کا اردو ترجمہ خود کر رہے ہیں۔ اس کتاب کو پڑھ کرمحسوس ہواکہ اس’’امت کی راکھ میں ابھی چنگاریاں باقی ہیں‘‘۔