ہم سمجھتے ہیں کہ اس دنیا میں احکاماتِ خداوندی، آسمانی کتب اور فرموداتِ پیغمبری کے علاوہ ہر انسانی بات اور عمل میں اختلاف کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کبھی گول، کبھی چورس، کبھی بیضوی، کبھی ساکت، کبھی متحرک ہوتی رہی۔ ماں کے دودھ کو بچے کی صحت کے لیے کبھی مفید کہا گیا ، کبھی مضر۔ دینی احکامات میں جہاں جہاں ناقص انسانی مشاہدے اور مضبوط ہٹ دھرمی کا چلن عام ہوا، اختلافی فروعات پھیلتی چلی گئیں۔ اسی طرح اگر دنیا کے ہر بزرگ کی بات کو حرفِ آخر سمجھنا ضروری ہوتا تو قرآنِ پاک میں باپ دادا کے راستے پہ آنکھیں بند کر کے چلنے والوں کو کبھی اتنی سخت وعیدیں نہ سنائی جاتیں۔ ہمیں تو بہ طور مسلم ہر بات میں تحقیق اور ہر کام میں چھان بین کرنے کا حکم ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ تباہ ہو گیا وہ شخص، جس کا آج گزرے ہوئے کل سے بہتر نہیں۔ یہی وجہ ہے دوستو کہ مجھے بہت سے بزرگوں کے بہت سے اقوال لفظوں کے گورکھ دھندے اور سیدھے سادے لوگوں کی توجہ کھینچنے کے ایسے حربے دکھائی دیتے ہیں، جو ہجوم سے فوری داد لینے کی خاطر انوکھی بات اور غیر متوقع حرکات اختیار کر کے کیے جاتے ہیں۔ وہ شاعر، ادیب، صحافی بھی کبھی دل میں نہیں اُترے جو حکمرانوں سے وظیفہ کھرا کرنے کی خاطر میڈیا پہ دانش وری بگھارتے ہیں یا سادہ لوح قارئین و ناظرین کو الفاظ و خیالات کے گورکھ دھندے اور چوک چوراہے میں بیٹھے ’پہنچے ہوئے بابوں‘ وغیرہ کے دھیانے لگا کے خود بڑی بڑی سرکاری کرسیوں اور عہدوں سے مستفید و مستفیض ہوتے رہے۔ لوگوں کو آبادی سے دُور ویران کٹیا میں فطرت کے مزے لُوٹنے کے درس دے کے خود شہر کے پوش بنگلوں میں مقیم رہے۔ انھوں نے مرتے دم تک ٹی وی کی سکرین اور ریڈیو کے مائیک کو شہرت کی آکسیجن کے طور پر استعمال کیا۔ ایسے کئی بزرگوںسے یہ قول سن کے مجھے ہمیشہ بڑی حیرت ہوتی رہی کہ: ’’اس ملک کو اتنا نقصان جاہلوں نے نہیں پہنچایا، جتنا پڑھے لکھوں نے پہنچایا ہے۔‘‘ کیسی علم دشمن اور جہالت افروز بات ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ یہ قول ہمارے سیاست دانوں، عیار وڈیروں اور ہوشیار سرمایہ داروں کی تعلیم دشمن پالیسیوں کی کس قدر معاونت کرتا ہے۔ کسی زمانے میں، کسی روایتی باتونی نے محض ایک کلیپ لینے کے لیے پورے علمی سلسلے کو مشکوک قرار دے دیا۔ آج اس جملے کا موجد سامنے ہو تو کوئی ان حضرت سے پوچھتا کہ اب تو دنیا بھر کے وسیع و عریض تعلیمی سلسلوں میں ہم جہالت کی کلاس کے مانیٹر ہیں، یعنی تعلیم کی ترتیب و ترکیب و تہذیب میں ہمارا تقریباً آخری نمبر ہے۔ پھر بطور قوم معاشی، اخلاقی، اطلاقی محاذوں پہ ہم دھتکار، پھٹکار،انکار کی سیڑھیوں پہ کیوں بیٹھے ہیں؟ حالانکہ سیدھی بات صرف اتنی سی ہے کہ اَن پڑھ اور جاہل طبقہ ہر سوسائٹی کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔ ہمارے دین نے تو دو ٹوک الفاظ میں ان کے لیے ’’قالو سلاما‘‘ کی ہدایت جاری کی ہے۔ ان سے کس معاملے پر بحث و تکرار سے بھی منع فرمایا ہے۔ کسی دانا کا مشہور قول بھی ہے کہ نیم حکیم خطرۂ جان، نیم مُلا خطرۂ ایمان۔ بعینہٖ ناخواندہ و نیم خواندہ طبقہ بھی زندگی کے دیگر ہر شعبے کی مانند ملک کے لیے بھی ہمیشہ خطرہ ہوتا ہے، کیونکہ ان کی اپنی کوئی سوچ، اپروچ نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ کہ پوری دنیا میںایسے طبقات کو اُن کے کام سے کام رکھنے دیا جاتا ہے، اہم امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جاتی۔ زندگی کے ہر شعبے کو، اس شعبے کے نبض آشناؤں کے سپرد کیا جاتا ہے۔ ہمارا المیہ پڑھے لکھوں کی افراط نہیں ، دانش اور سُوجھ بُوجھ کی تفریط ہے۔ سیاست سے لے کے صحت اور تعلیم تک ہمارے ملک کا ہر ادارہ ایسے ہی خطرناک نیم بلکہ دو نیم خواندوں کے سپرد ہے۔ ایسے لوگ اپنی علمی استعداد اور ہنرمندی کی کمی کو خوشامد، رشوت، کاسہ لیسی، ذہنی غلامی اور دیگر خدماتِ خواہ مخواہ سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے۔‘‘ اور ’’گئی گزری جمہوریت، بھلی چنگی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔‘‘ ایسے ہی سیاسی ڈھکوسلے ہیں۔ آپ ذرا سروے کر کے دیکھ لیجیے، ان جملوں کا جتنا فائدہ جمہوریت کا ڈھونگ رچائے چلے جانے والے نام نہاد سیاسی، جمہوری خاندانوں نے اٹھایا ہے، وہ شاید کسی اور نے نہیں اٹھایا بلکہ انھوں نے عوامی جہالت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے، اِس’ گئی گزری‘ کو مزید گئی گزری بنائے رکھنے پہ پورا زور صرف کیے رکھا۔پہلی بات تو یہ کہ یہ ’مغزِ دو صد خر‘ والی مغربی جمہوریت ، ہماری دینی روایات اورزمینی حقائق ہی سے متصادم ہے۔ یہ کون سی جمہوریت ہے، جو باپ کے بعد بیٹے بیٹیوں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں میں نہایت خاموشی اور ’دیانتداری‘ سے منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ کون سی جمہوریت ہے، جس میں تعلیمی ڈگری کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ۔ یہ کون سی جمہوریت ہے، جس میں پارٹی تک میں الیکشن نہیں کروائے جاتے۔یہ کون سی جمہوریت ہے، جس میں مسماۃ اعلیٰ کا رشتہ خاندان سے باہر حتیٰ کہ تمام عمر پارٹی کا پانی بھرنے اور تلیاں چسنے والے کسی ذہنی غلام سے کرنے سے بھی سیاسی دھرم بھرشٹ ہو جاتا ہے۔ سید ضمیر جعفری نے ہمارے اسی منافقانہ و موروثی ’جمہوری‘ نظام کی اس انداز سے بھَد اڑائی تھی کہ: کچھ بھتیجے ہیں ، چند سالے ہیں عہدے تقسیم ہونے والے ہیں ایک اور شاعر نے بھی اس مکروہ خاندانی بندر بانٹ پر اس طرح تبصرہ کیا تھا: دفتر میں ان کے سیٹ جو خالی تھی بھر گئی کل تک تھے چچا ، آج چچا زاد آ گیا اس بد قماش جمہوریت کا سب سے لالچی اور سازشی چہرہ موجودہ حالات میں سامنے آیا ، جب ذاتی و مفاداتی واورولے میں ایک سچ مچ کی جمہوریت کو چلتا کرنے کے لیے، ماضی میں ایک دوسرے کو گھسیٹنے، لٹکانے، پیٹ پھاڑنے کرنے کے دعوے کرنے والے ملک بھر کے شاطر اپنی ’جمہوری ترین‘ اولادوں سمیت محض ایک بیرونی اشارے پہ راتوں رات اکٹھے ہو گئے۔ اندرونی تعاون سے قومی خزانے کے مجرم اور ملکی عدالتوں کو پل پل درکار مشتری، پلک جھپکنے میں ، خزانے کے محافظ اور اداروں کے مِیت بن بیٹھے۔ ہتھیلی پہ سرسوں کی طرح کابینہ جم گئی۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ اگر عدالت ان کی آج ضمانتیں کینسل کر دے تو کابینہ کا اگلا اجلاس اڈیالہ جیل میں ہوگا۔ وہ کیسا سین ہوگا جب عدالت کا ہرکارہ نہایت رعونت سے آواز لگائے گا کہ: ’’وزیرِ اعلیٰ ولد وزیرِ اعظم حاضر ہوووووو!!!‘‘ اس طوفانی اکھاڑ پچھاڑ میں بھی یہ سیاسی طالع آزما اپنی نسلی فوقیت کو نہیں بھولے۔ آج سے دو دہائیاں قبل، مشرف دور میں ایسی ہی کسی سیاسی بدتمیزی برپا ہونے پر ہم نے کہا تھا: اس کی سمجھو پانچوں گھی میں جو بھی نون سے قاف ہوا ہے سیاسی قلابازیوں کے اس موجودہ طوفانِ بدتمیزی میں تو یہ شعر بھی الٹا ہو گیا ہے: گم راہی کی بھِیڑ میں اب کے کیسا عجب جنون ہوا ہے اس کی قیمت دگنی ہو گئی، جو بھی قاف سے نون ہوا ہے