مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے غریب پہلے ہی فاقوں کے خوف سے خودکشی پر مجبور تھا رہی سہی کسر رمضان المبارک مین تاجروں کی من مانیوں اور حکومت کی بے حسی نے پوری کر دی۔ رمضان سے پہلے 160 روپے میں فروخت ہونے والا پیاز 300روپے میں بھی میسر نہ تھا اور 80روپے فی کلو میں بکنے والے ٹماٹر 200روپے سے تجاوز کر گئے پھل تو پہلے ہی غریب کے لئے شجرہ ممنوعہ تھے۔ جب غریب کو روٹی کے لالے پڑے ہوں تو بچوںکے لئے عید پر نئے کپڑوں کی صورت میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں خریدنا کیونکر ممکن ہو سکتاہے۔ گزشتہ برسوں کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ماضی میں عیدالفطر کے موقع پر 34 ارب روپے سے40ارب تک کا کاروبار ہوا کرتا تھا۔ جو امسال 13 ارب سے بھی کم رہا۔ تاجر نمائندوں کے مطابق رواں برس پچھلے سال کے مقابلے میں 50 فیصد سیل ہوئی ہے۔ اس عید پر 40 فیصد لوگوں نے عید کی خریداری کی ہے۔ ان میں سے بھی 70 سے 80فیصد خریداری بچوں کیلئے کپڑے خریدنے کی تھی۔ یہی وجہ ہے ماضی میںرمضان کے آخری عشرے میں اہم بازاروں میں جتنا رش ہوا کرتا تھا اتنا چاند رات کو بھی نہ تھا۔ اکثرتاجروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 75 سالہ تاریخ میں عید پر کاروبار کے لحاظ سے ایسا بد ترین سال نہیں دیکھا۔ مہنگائی کی وجہ سے امسال غریب کیمیٹھی عید کی خوشیاں پھیکی رہیں۔ کاروبار تباہ ہو گئے۔ لوگوں کیلئے کھانا پینا مشکل ترین ہوگیا ۔ بہتر ہو گا حکومت مہنگائی میں کمی کے دعوئوں کے بجائے عملی اقدامات اور روزگار کے مواقع پیدا کرے تاکہ غریب بھی اپنے بچوں کے لئے چھوٹی چھوٹی خوشیاں خرید سکے۔