بزرگ صحافی مجید نظامی نے ایک بار آصف زرداری کو ’’مرد حر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ان دنوں مرحوم نواز شریف سے کچھ ناراض تھے۔ اس خطاب میں کچھ رنگ اس رنجش کا بھی رہا ہو گا۔ مرد حر ہونے کا مظاہرہ تو زرداری صاحب نے کم ہی کیا‘ اکثر مواقع پر وہ ’’مرد پھُر‘‘ ضرور نظر آئے۔ یعنی ادھر ضرورت پڑی یا موقع آیا‘ ادھر صاحب پُھر سے اڑ گئے۔ نواز دور‘ پھر مشرف دور میں طویل قید کاٹی لیکن جیل خانے میں بھی ‘ کچھ ہسپتال میں‘ زیادہ باہر‘ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہسپتال سے نکلے تو پھُر سے دور دیشوں کو اُڑ گئے۔ ٭٭٭٭٭ حالیہ صدارتی انتخابات میں انہوں نے متحدہ اپوزیشن کا جھانسا دے کر مسلم لیگ کے ساتھ جو ہاتھ کی صفائی دکھائی، اس پر لوگوں کو زیادہ حیرت نہیں۔ ان کی فنی مہارت سنجرانی صاحب کے وقت ہی ظاہر ہو گئی تھی۔ مسلم لیگ اس خیال میں تھی کہ سینٹ میں اسے اکثریت ملنے والی ہے۔ وہ اس بات سے آخر تک بے خبر رہی کہ کیا ہو رہا ہے اور اس کے ’’معمار‘‘حضرت زرداری ہیں۔ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی اور اس غلط فہمی میں خود زرداری کے بیانات کا بھی دخل تھا جو انہوں نے پیش گوئیوں کے انداز میں دیے تھے کہ ’’ہم آ رہے ہیں‘‘ لیکن جیسا کہ بعد میں کھلا‘ ڈیم کا مقصد زرداری کی فصلوں کے لیے نہریں نکالنا نہیں تھا‘ نواز شریف کے علاقے کو جانے والا بہائو روکنا تھا۔ زرداری صاحب کو بس دو ہی چیزیں ملیں‘ ایک ان کے علاقے کی پوزیشن جوں کی توں رہنا‘ دوسرا ان پر مقدمات کو بدستور حالت معلقہ میں رکھنا، صدارتی انتخاب میں بھی انہوں نے جو ذمہ داری نبھائی‘ اس کی وجہ یہی معلق فائلیں ہیں۔ زرداری صاحب متحدہ اپوزیشن کا خواب پورا کر سکتے تھے اور شاید ان کا ارادہ بھی ہو لیکن ادھر مقدمات کی فائلوں کی جنبش ہوئی‘ ادھر جناب’’پُھر‘‘ کر کے کاتبان تقدیر کی بتائی ہوئی ڈالی پر جا بیٹھے۔ ٭٭٭٭٭ صدارتی انتخاب میں جیت تو اسی کی ہونی تھی جو گزشتہ روز جیتا۔ زرداری صاحب نے ’’پُھر‘‘سے جو الگ پرواز کی‘ اس کا مقصد اس جیت میں حصہ ڈالنا نہیں تھا بلکہ وہ مشن پورا کرنا تھا کہ اپوزیشن اکٹھی نہ ہونے پائے۔ برسبیل تذکرہ ‘ ماضی کا دور ایسا تھا کہ اس پر دو جماعتی نظام کی پھبتی کسی جاتی رہی۔ اب یہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی طور پر تو ملک سہ جماعتی لیکن اپوزیشن کی حد تک دو جماعتی ہو گیا ہے۔ جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ اپوزیشن کا امیدوار ایک ہوتا تو جیت سکتا تھا کہ دونوں امیدواروں کے ووٹوں کا ’’ٹوٹل‘‘ حکمران جماعت کے امیدوار کے ووٹوں کے برابر ہے۔ وہ غلط سمجھ رہے ہیں۔’’احتیاطی‘‘ تدابیر کا دائرہ طے تھا۔ پنجاب سے مسلم لیگ کے سترہ ووٹ مسترد ہوئے ، تین منتخب ہو جانے کے باوجود ابھی تک حلف نہیں اٹھا سکے (عالمی پارلیمانی تاریخ کا یکہ و تنہا واقعہ) اپوزیشن کا امیدوار ایک ہی ہوتا تو 17کے بجائے 27ووٹ مسترد ہو جاتے۔ پھر آپ کیا کر لیتے؟ ٭٭٭٭٭ اپوزیشن متحد نہیں ہوئی ہے تو یہ کوئی المیہ نہیں ہے۔ المیہ تو پہلے ہی ہو چکا ہے یعنی لوگوں نے دیکھا کہ شہباز شریف اپوزیشن کے قائد منتخب ہو گئے۔ حکمران جماعت کے لیے یہ طربیہ خود نواز شریف نے تیار کیا یعنی اپنی نااہلی کے بعد شہباز کو مسلم لیگ کی قیادت دے دی۔ وہ کسی اور کو‘ مثلاً جاوید لطیف کو قائد بنا سکتے تھے لیکن پھر تحریک انصاف کے پوبارہ کیسے ہوتے۔ پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز مسلم لیگ کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔ یعنی عثمان بزدار کے ساتھ ساتھ پرویز الٰہی کے بھی پوبارہ ہو گئے۔ ٭٭٭٭٭ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے سینٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ عام انتخابات میں وسیع پیمانے پر ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمشن بنایا جائے۔ یہ بیان شاید انہوں نے اس خیال سے دیا ہو گا کہ وزیر اعظم اس بارے میں ’’ہاں‘‘ کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا میں ایسا کمشن بنانے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن مذکورہ رہنما نے شاید غور نہیں فرمایا‘ یہ خاں صاحب کا ’’سیاسی‘‘ بیان تھا۔ اسی لیے تو وہ تب سے اب تک خاموش ہیں۔ ویسے جو کچھ ہوا ہے‘ پارلیمانی کمشن کے بس کی بات نہیں کہ اس کی تحقیقات کر سکے۔ تحقیقات دھاندلی کی ہو سکتی ہے‘ اس ’’عظیم ماجرے‘‘ کی کیا تحقیقات ہو گی جو چھ بجے کے بعد دروازے بند کر کے‘ پردے کھینچ کر کی گئی؟ جس کے لیے سارے سی سی ٹی وی کیمروں کے رخ عالم بالا کی طرف کر دیے گئے ۔ کیسا بھی کمشن بنا لیں‘ اس ماجرے کا رخ کرتے ہوئے اس کے پر جل جائیں گے۔ اب تو جو ہو گیا‘ اسے زمینی حقیقت مان کر چپ کی چادر تان لو اور ایسے بیانات سے پرہیز رکھو جن کی وجہ سے زرداری صاحب پر معلق فائلیں جنبش میں آ جائیں۔ یہ بتانے کی تو ایسی خاص ضرورت نہیں ہے کہ جس طرح زرداری صاحب سب پر بھاری ہیں‘ ویسے ہی ان پر قائم مقدمات بھی سب سے بھاری ہیں۔ اندر چاہے کچھ ہو‘ چاہے کچھ نہ ہو‘ وزن بہت ہے۔ ٭٭٭٭٭ نگران وزارت اعلیٰ سے سبکدوش ہونے والے حسن عسکری نے فرمایا ہے کہ انتخابات کو مکمل شفاف نہیں کہا جا سکتا۔ جناب کے بیان کا مطلب کچھ لوگوں نے غلط سمجھا‘ یعنی یہ کہ موصوف مسلم لیگ کے موقف کی جزوی تائید فرما رہے ہیں۔ موصوف نے مزید فرمایا‘ شام چھ بجے کے بعد جو کچھ ہوا‘ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ٭٭٭٭٭ بجلی دو روپے یونٹ مہنگی کر دی گئی ہے۔ جو دراصل تین روپے بنتے ہیں کیونکہ نیٹ بلنگ میں 50فیصد ٹیکس لگتا ہے۔ کل اضافہ پچاس فیصد رہے گا۔ یعنی جس کا بل 8ہزار روپے آتا ہے‘ اسے بارہ ہزار دینا ہوں گے۔ سولہ ہزار والوں کا بل 24اور 20ہزار والوں کا 30ہزار ہو جائے گا۔ جن کی آمدنی ہے ‘ وہ تو کڑوا گھونٹ بھر لیں گے جو پہلے ہی کھینچ تان کر گزارا کر رہے ہیں انہیں تو شاید مہاجر کیمپوں میں جانا ہو گا۔ لیکوڈ گیس سلنڈر والی کے نرخ فی کلو ساٹھ ستر روپے سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں‘ تقریباً 20فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ نواز حکومت سے ناراضگی کی سو کے لگ بھگ وجوہات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ ’’دبائو‘‘ کے باوجود کھاد کے نرخ نہیں بڑھا رہی تھی۔ خاں صاحب نے آتے ہی کئی سو روپے فی بوری(شاید آٹھ سو اضافے کی خبر چھپی تھی) بڑھا دی اور یوں فرمائش کنندگان کا رانجھا راضی کر دیا۔ کسانوں کے لیے اس میں اچھا پہلو یہ ہے کہ وہ اب اتنی ہی فصل کاشت کریں گے جتنی بہت ضروری ہے۔ اسراف سے بچنے کا موقع مل گیا اور اضافی محنت کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ سوئی گیس کے نرخ 180فیصد بڑھانے کی سمری منظوری کے لیے تیار ہے۔ یعنی لگ بھگ 2سو فیصد اضافہ ہو گا۔ جن کا بل 3ہزار روپے آتا تھا‘ اب 9ہزاردیں گے۔ بس چھ ہزار ہی کا تو فرق پڑے گا۔ آٹا اور چینی کے نرخ تو پہلے دن ہی بڑھ گئے تھے۔ ریلوے کے کرائے 20فیصد بڑھانے۔ نجی ٹرانسپورٹ کے کرایوں کا ابھی پتہ نہیں چلا۔ آج کے بیان میں وزیر اطلاعات فواد حسین نے فرمایا ہے کہ انصاف کی حکومت نے تو دنوںمیں اتنا کام کیا ہے جو ماضی کی حکومتوں نے نو برس میں بھی نہیں کیا۔ کہئے‘ تردید کی جرأت ہے؟