ایک زمانہ تھا کہ برِ صغیر کے صاحب اور صاحب مزاج لوگوں کے چھٹیاں منانے، گرمیاں گزارنے اور شملے کو اونچا رکھنے کے لیے سب سے مثالی جگہ کوہِ ہمالیہ کے چرنوں میں واقع، بھارت کی شمالی ریاست ہماچل پردیش کا سب سے بڑا شہرشملہ ہوا کرتا تھا، جو ایک زمانے تک ملکی مسائل پہ غور اور وسائل پہ کچھ اور کرنے کے لیے مناسب ترین جگہ سمجھی جاتی تھی۔ 1864ء میں اسے برطانوی حکومت کا گرمیوں کا دارالحکومت بھی قرار دیا گیا تاکہ وہ ہندوستان کے مستقبل سے متعلق ٹھنڈے دل سے تفکر و تدبر کر سکیں۔ 1903ء میں اسے ہریانہ کے قصبے کالکا سے ریلوے لائن بھی فراہم کر دی گئی۔ آزادی کے بعد اسے پنجاب اور بعد ازاں ہماچل پردیش کا کیپیٹل قرار دے دیا گیا۔ ملک تقسیم ہوا تو شملہ بھارت کے حصے میں آ گیا، ہمارے لیے صرف شملہ پہاڑی بچی، اس پہاڑی پہ برف تو جمائی نہیں جا سکتی تھی، صرف قبضہ یا رعب جمایا جا سکتا تھا، سو لاہور کی صحافت نے اس معاملے میں پورے اعتماد اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ اس کا نام شملہ پہاڑی شاید اس لیے ہے کہ یہاں کسی نہ کسی اونچے شملے والے کو بلا کے ڈونیشن والے راگ پہاڑی کی مشق کروائی جاتی ہے۔بڑے لوگوں کو چونکہ ہر زمانے میں تفریح اور مزاج کی تشریح کے لیے ’تھوڑی سی فضا اور‘ درکار ہوتی ہے۔ اس لیے تقسیمِ ملک کے بعد کُرہ راول پنڈی کی گلیات کے آس پاس پیر پنجال کے پہاڑوں میں واقع ملکہ کوہسار مری کے نام پڑا، جہاں چوتھے مغل بادشاہ جہانگیر نے اپنے روز نامچے ’’ تُزکِ جہانگیری‘‘ میں ’’ہما‘‘ جیسے نایاب پرندے کی موجودگی کی نشان دہی کی تھی۔ پھر ہوا یوں کہ تخت طلب خواص اپنے اپنے ہما کی تلاش اور بخت طلب عوام اپنی اپنی ہما کی معیت میں ہنی مون کی خاطر اندھیرے اجالے کی پروا کیے بغیر وہاں جانے لگے۔ ایک عرصے تک موسم کی سردی، جذبات کی گرمی سے جمع تفریق ہوتی رہی۔ لوگ سطحِ سمندر سے دس ہزار فٹ بلندی کے تصور ہی سے اپنے اپنے مقام و مرتبے کا تعین کرتے نظر آئے۔ پھر وہی ہوا جو ہمارے ہاں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے ۔ مری کا طواف زندہ لوگوں کے فیشن اور پیشن کی حدود میں چپکے سے داخل ہو گیا۔ خدا نہ کرے ہمارے ہاں کوئی چیز فیشن میں شامل ہو جائے۔ یہاں تو فیشن کی آڑ میں ہزار روپے کی ثبوتی پتلون چھوڑ کے دس ہزار میں گھٹنوں سے پھٹی جینز خریدنے کو خوش قسمتی قرار دیا جاتا ہے۔ ہنی مون تو دُور کی بات، اس لائی لگ قوم نے اپنے شریکے کو نئے طریقے سکھانے اور آس پڑوس کو اپنی ثروت مندی کا ثبوت دینے،نیز سالگرہ کو مالگرہ دکھانے کے لیے گرمی سردی اس بے چارے دو فرلانگ کے مال روڈ کو رَوندنے کی قسمیں کھانا شروع کر دیں۔ لالہ بسمل تو یہاں تک کہتا ہے کہ پاکستانی آبادی کے اضافے میں جو کردار اس چھوٹے سے قصبے نے ادا کیا ہے، بڑی بڑی کسبیاں نہیں کر سکتی تھیں۔ پھر اس بھیڑ چال میں یہ بھی ہوا کہ میدانی علاقوں کے جھلسے، اور ٹھنڈ کو ترسے ہوئے ، جمع جتھا کر کے برف کا شرف حاصل کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ غریب غربا بھی تھوڑا بہت جوڑ جگاڑ یا ادھار شدھار کر کے جیون میں ایک بار ہی سہی، اس سنگ دل جاڑے کی یاترا سے مستفید ہونے میں جُت گئے۔ ہمیں یاد ہے گاؤں میں جب بھی کوئی مری جانے کاذکر کرتا تو کوئی بزرگ کہہ اٹھتا : ’جیہڑی پہلے ای مری اے، اوہنوں ہور کیہ آکھسو؟‘دوسری جانب ہمارے کارپردازن اور اربابِ بست و کشاد تھے، جنھوں نے ہمیشہ اس خطۂ ارضی کو خچر فروشی اور ضمیر خروشی کا اڈہ بنائے رکھا۔ حکیم جی فرماتے ہیں: پاکستانی سیاست میں نظریۂ ضرورت کے جتنے جوڑ، تروڑ، مروڑ، کروڑ، نچوڑ مری کے بھور بن میں وجود میں آئے ہیں، اتنے تو کسی خرادیے یا ویلڈنگ کی دکان پہ بھی دیکھنے میں نہیں آئے ہوں گے۔ یہاں تک کہ ماضی قریب میں اسی علاقے کے ایک سیاست دان کو مذکورہ نظریے ہی کی بھٹی میں ڈھال کر وزیرِ اعظم تک کی کرسی دیکھنا نصیب ہو گئی لیکن اس پردھان منتری سمیت کسی بزرجمہر کو اس علاقے کے سدھار، نکھار، ابھار، وقار کا رتی بھر خیال نہ آیا۔ ایک زمانے میں تو یہ بھی سننے میں آیا کہ حسینۂ کوہسار کی سندرتا میں غازے کا روپ بھرنے والی چیئر لفٹیں بھی ایک غازی سیاست دان نے محض جذبات کی رَو میں بہہ کر اپنی کسی الھڑ محبوبہ کو اَونے پونے ٹھیکوں پہ اٹھا دیں۔اس زمانے میں ہمیں حافظ شیرازی بہت یاد آئے، جنھوں نے اپنے تُرک محبوب کے کالے تِل کے عوض سمرقند و بخارا جیسے دو شہر اُسے دان کرنے کا عندیہ دیا اور باقاعدہ طور پر امیر تیمور کی سرزنش سے مستفیض ہوئے۔ افسوس! ہمارے ہاں کوئی امیر تیمور بھی نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر دور میں ذاتی اغراض میں لِتھڑے ہمارے یہ سیاست دان اگر اس ملکۂ سیاحت اور وسیلۂ راحت حسینہ کی مانگ میں تھوڑا تھوڑا سیندور بھی بھرتے جاتے۔ اس کی حدود کو وسعت اور وابستگان کو سیاحت کی اخلاقیات سے ہم کنار کر دیتے تو نہ صرف یہ خطہ رشکِ فردوس قرار پاتابلکہ حکومت کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوتا۔ یہاں کی مقامی چیئر لفٹوں کی آمدنی سے مری سے راول پنڈی تک چیئر لفٹ، کیئر لفٹ، شیئر لفٹ، فیئر لفٹ، ہیئر لفٹ، دیئر لفٹ کے خوب سے خوب تر سلسلے پھیلائے جا سکتے تھے۔ بھور بن جیسے ایک برہمن ہوٹل کی مدد سے اتنے مزید اور جدید ہوٹل تیار ہو سکتے تھے کہ اگر اتفاق سے فردوسِ سماوی میں مقیم شاعرِ مشرق کی اس فردوسِ ارضی پر ایک بھی نظر پڑ جاتی تو وہ بے ساختہ پکار اٹھتے: مزے مزے کی کاوشوں سے بن گیا ہے طُور بَن اُودے اُودے نیلے نیلے پیلے پیلے بھوربن اسی مثالی شہر کے حالیہ سانحے میں قیمتی جانوں کے اس حادثاتی زیاں پر تو یقینا ہر اہلِ شعور کی چشم نم ہے۔ وطنِ عزیز کا بچہ بچہ افسردہ ہے۔ اس میں کسی حد تک قصو ہماری اخلاقیات اور ٹریفک سینس سے عاری عوام کا بھی ہے لیکن سب سے زیادہ دکھ اپنے سیاست دانوں کی موقع پرستی پر ہوا کہ وہ اس اندوہ ناک المیے اور سابقہ نا کارکردگیوں پر آنسو بہانے (مگر مچھ ہی کے سہی) کی بجائے، یہاں بھی سیاست کرنے سے باز نہیں آئے۔ انھیں عوام کے کمزور حافظے پر اس قدر اعتماد اور ہوسِ اقتدار کا ایسا ہَوکا ہے کہ وہ ماضی و حال کی ہر خطا، زمینی و زمانی ہر ادا کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو قرار دیے جا رہے ہیں۔ وہ شاید نہیں جانتے کہ ابھی تواس علاقے کے عوام کے ذہنوں سے سابقہ حکومت کی پنڈی، اسلام آباد اور مری کی تعمیرات کے حوالے سے کہا گیا ہمارے واہ کینٹ کے شاعر دوست محمد عارف کا یہ شعر بھی محو نہیں ہوا: جی ٹی روڈ کو مال بنانے آئے تھے جی ٹی روڈ سے مال بنا کر چلے گئے