وہ 27 دسمبر کی سرد شام تھی۔ اس وقت لاڑکانہ کے چھوٹے سے گاؤں گڑھی خدابخش میں بینظیر بھٹو کی 13 ویں برسی تھی۔ بڑے اسٹیج پر پیپلز پارٹی کے ساتھ پی ڈی ایم کی قیادت بیٹھی ہوئی تھی۔ اس قیادت کو اور شیڈو کیا ہوا تھا اس مریم نواز نے جو زندگی میں پہلی بار لاڑکانہ آئی تھی۔ لاڑکانہ کا نام تو اس نے بہت سنا تھا۔ آج لاڑکانہ دیکھنے کی ان کی حسرت پوری ہو رہی تھی۔ اس دن مریم نواز کی آمدکے لیے لاڑکانہ کے میڈیا والے بہت پریشان تھے۔ حالانکہ اہلیان لاڑکانہ کو بھی معلوم تھا کہ میاں نواز شریف کی بیٹی اور ان کی سیاسی وارث مریم نواز بھٹوز کے شہر میں بلاول کی مہمان بن کر آ رہی ہے مگر شہر والوں کو ان کی جھلک دیکھنے کے لیے کوئی خاص بے چینی نہیں تھی۔ اس دن کے لیے سندھ حکومت نے لاڑکانہ کو سجانے کی بڑی کوشش کی تھی۔ تیرہ برس کی بے دھیانی کا مداوا دو تین دن میں کیسے ہو سکتا ہے؟ مگر پھر بھی اس راستے کو صاف ستھرا بنانے کی بڑی کوشش کی گئی۔ لاڑکانہ کی تباہی کے جو مناظر مریم کی نظروں سے چھپانا ضروری تھے ان کے آگے لمبی قناتیں لگائی گئیں۔ بلاول اور سندھ حکومت کے لیے وہ دن بہت اہم تھا۔ کیوں کی اس دن لاہور کی بیٹی لاڑکا نہ آ رہی تھی۔ شریف فیملی اس پر فخر کرتی ہے کہ اس نے لاہور کو کس قدر سجایا ہے۔ اس دن شریف فیملی کی بیٹی اس لاڑکانہ کو دیکھنے آئی تھی جو اربوں روپے کے پیکیج کے باوجود اجڑا اجڑا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی لاڑکانہ کی تباہی کا الزام کس پر عائد کرسکتی تھی؟ یہ ان کے اپنے کارنامے تھے جس کو چھپانا ضروری ہو گیا تھا۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ مریم نواز آدھی رات کو ڈیڑھ بجے نوڈیرو پہنچی۔ خود مریم نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اس رات مریم کا استقبال کرنے کے لیے بلاول،آصفہ اور فریال دروازے پر کھڑے تھے۔ مریم نے یہ بھی بتایا کہ سندھ والوں کے دل اور دسترخوان بڑے ہیں۔ کاش! مریم کو معلوم ہوتا کہ جس شہر میں اس کے آگے شاہی دستر خوان بچھایا گیا تھااس شہر کے غریب لوگوں کو دو وقت کی سوکھی روٹی بھی میسر نہیں۔ مگر وہ دعوت غریبوں کی نہیں تھی۔ وہ دعوت امیروں کی تھی۔ ان امیروں کی جن کی امیری کا سبب عوام کی غریبی ہے۔وہ مریم ہو یا بلاول وہ امیر اس لیے ہیں کیوں کہ پاکستان کے عوام غریب ہیں۔ عوام کی لوٹی ہوئی دولت سے امیر بننے والے دو خاندان طویل سیاسی دشمنی کے بعد دوستی کے دائرے میں داخل ہوئے تھے۔ اس دوستی کے لیے اس عوام سے پوچھا تک نہیں گیا جس عوام کو برسوں تک میاں نواز شریف کے خلاف نعرے لگوائے گئے تھے۔ یہ وہ تاریخی اسٹیج تھی جس اسٹیج پر پیپلز پارٹی والوں نے ہر جلسے میں میاں نواز شریف کے خلاف جذباتی تقاریر کی تھیں۔ مگر اب مفادات کے باعث دشمنی دوستی میں تبدیل ہوگئی تھی۔ جب مریم نوا ز برسی کے موقعے پر سجے ہوئے اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئیں تب انہوں نے سندھی اسٹائل میں دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر پنڈال میں ان غریب لوگوں کو سیاسی سلام کیا جن لوگوں کو سندھ کے شہروں اور دیہاتوں سے گاڑیوں میں بھر کر لایا گیا تھا۔ وہ لوگ اپنی مرضی سے نہیںآئے تھے۔ وہ پیپلز پارٹی کے وڈیروں کے معرفت لائے گئے تھے۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ انہیں جھنڈے لہرانے ہیں اور سیاسی نغموں پر رقص پیش کرنا ہے۔ حالانکہ وہ برسی کا دن تھا مگر پھر بھی لوگ ’’دلاں تیر بجاں‘‘ پر ناچتے رہے ۔ کیا یہ عام آزاد انسان تھے؟ نہیں ۔ وہ سب پیپلز پارٹی کے وڈیروں کے سیاسی کسان تھے۔وہ سب لوگ جو مریم نواز کو متاثر کرنے کے لیے ناچ رہے تھے۔کاش! اس وقت کوئی چینل یہ گانہ بھی چلا دیتا کہ: ’’ناچ میری بلبل/کہ پیسہ ملے گا کہاں قدر داں/تجھے ایسا ملے گا؟‘‘ یہ سب پیسے کا تماشہ تھا۔ وہ پیسہ جو عوام سے لوٹا گیا تھا۔ بینظیر بھٹو کی 13 ویں برسی کے موقع پر مریم نواز مخصوص تقریر کی تیاری کرکے آئی تھی۔ اس نے اپنی تقریر میں بینظیر بھٹو اور اپنے والد کی ’’عظیم دوستی‘‘ کا بھرپور اظہار کیا۔ اس نے اس شام تیرہ برس قبل بینظیر بھٹو کی شہادت کا تذکرہ کم اور اس شہادت پر اپنے خاندان کے سوگ کا ذکر زیادہ کیا۔ اس شام مریم نواز نے سندھ کے اہلیان سندھ کے دل میں اپنے والد کے لیے نرم گوشہ بنانے کے لیے گرم تقریر کی۔ وہ تقریر جس کا ایک ایک حرف پریس ریلیز جیسا تھا۔ اس تقریر میں مریم نواز نے پنڈال میں بیٹھے ہوئے غریب اور ان پڑھ لوگوں کے سامنے ایسی باتیں کی جن کو سمجھنے سے وہ لوگ قاصر تھے۔ پنڈال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے یہ سب ’’سیاست‘‘ تھی۔ وہ سیاست جو ان کی سمجھ سے باہر تھی۔ اس تقریر کو سندھ کے سمجھدار لوگوں نے میڈیا اور سوشل میڈیا کے معرفت سنا۔ بڑے غور سے سنا۔ مگر وہ متاثر نہیں ہوئے۔ کاش! مریم نواز بینظیر بھٹو کے حوالے سے کی جانے والی باتوں میں دو چار الفاظ اس حوالے سے بھی ادا کرتیں کہ ان کے خاندان نے اقتداری مفادات کے لیے کس طرح ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ بیگم نصرت بھٹو اور ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کی ذاتی کردار کشی کرنے کے لیے وہ باتصویر پمفلٹ ہوائی جہازسے گرائے تھے۔ کاش! مریم نواز میں وہ اخلاقی جراٗت ہوتی اور وہ کہتی کہ ہمارے طرف سے بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی کردار کشی کے لیے جو اوچھے ہتھکنڈے ماضی میں استعمال ہوئے ان پر وہ اپنے خاندان سمیت شرمندہ ہے۔ اگر مریم نواز کچھ ندامت کا اظہار بھی کرتی تو ان کی تقریر یادگار ہو جاتی۔اس سیاسی جلسے کے بعد شہیدوں کے مزار پر رسم دعا اور پھول نچھاور کرنے اور دعا مانگنے کا سیاسی ڈرامہ بھی ہوا۔ اس سیاسی ڈرامے کو دیکھ کر لوگ خوش ہونے کے بجائے بہت غمزدہ ہوئے۔اس دن پاکستان کے دو بڑے خاندانوں کو برسوں کے اختلافات بھلا کراحتساب سے بچنے اور اقتدار کو حاصل کرنے کے لیے اس دوستی کا ڈرامہ پیش کرنا تھا جس ڈرامے کو تلخ دل سے دیکھنے والے لوگوں نے بہت تکلیف سے برداشت کیا۔