مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب مَیں شیخوپورہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے پڑھ لکھ کے باؤ بننے کے عزائم کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں آ داخل ہوا۔ ایک ہفتے بعد گاؤں واپس جا کر جب اپنی دادی جان کو یہ ’روح ترسا‘ قسم کی خبر سنائی کہ ایم اے اُردو کی کلاس میں ہم دس نہتے دیہاتی لڑکوں کے شانہ بشانہ پچاس عدد شہری قسم کی غیر نہتی لڑکیاں بھی پڑھتی ہیں تو میری پیاری دادی جان نے مصلّے پہ بیٹھے بیٹھے کانوں کو باقاعدہ ہاتھ لگا کے فرمایا تھا: ’’توبہ توبہ! قیامت دیاں نشانیاں نیں‘‘ اس پر میرے ایک بے تکلف دوست نے برجستہ کہا: کتنی بھولی ہیں تمھاری دادی! جو سچ مُچ کی جیتی جاگتی، لمبے لمبے سانس لیتی قیامتوں کو ’قیامت کی نشانیاں‘ کہہ کے انڈر ایسٹیمیٹ کر رہی ہیں… ممتاز مفتی سے قلمی دوستی جب بے تکلفی کی حدود میں داخل ہوئی تو ایک خط کے آغاز میں ’’وِرک‘‘ لکھ کے، آگے بریکٹ میں لکھا: (کیا بے ہودہ ساؤنڈ ایفیکٹ ہے!) دوستو! آپ کو کس منھ سے بتاؤں کہ اب اسی دنیائے فانی میں قیامت کی ایک اور نشانی کے طور پر، جَٹ، مزاح اورپولیس ، جیسے تین معکوس المزاج زاویوں کی صورت ایک ایسی اَوکھی اور انوکھی مثلث وجود میں آ چکی ہے کہ آج اگر بابائے جیومیٹری دنیا کے کسی کونے میں بھی موجود ہوتا تو غصے، حیرت یا ہنسی ہنسی میں جانے کیا کر بیٹھتا؟ موجودہ خطرناک صورتِ حال میں تو ہم تصور ہی کر سکتے ہیں کہ آسمانوں پہ بیٹھے اُس عجیب الفکر بُڈھے کا دھیان جب بھی اس غریب الاضلاع تکون کی جانب مبذول ہوتا ہوگا، اسے دیکھ کے: ہنستا تو ہوگا آپ بھی کبھی کبھی اس میں کوئی شک نہیں کہ اسی تثلیثِ لطیف کے دو سِروں پر مَیں بھی ایک عرصے سے براجمان چلا آ رہا ہوں لیکن بچت اس لیے ہو گئی کہ مجھے صرف دو خوراکوں (جٹ اور مزاح) ہی سے آرام آ گیا۔ تیسرے زاویے کی بابت مَیں نے کسی جگہ لکھا تھا کہ تھانے کچہری کے معاملات سے اس قدر الرجک ہوں کہ کسی کے نکاح میں بھی وکیل نہیں بنتا۔ اتنی احتیاط کے باوجود اپنے تارڑ صاحب میری کسی نہ کسی کھرولی تحریر پر چُپکے سے تبصرہ فرما دیتے ہیں: ’’ جٹ دا ہاسا تے بھَنّے گا پاسا…‘‘ مَیں نے گزشتہ دنوں بھی اپنے ایک دوست پولیس افسر کے مزاح لکھنے پر کہا تھا کہ اگر ہمارے اس ذمہ دار محکمے کی بے احتیاطی کا یہی عالم رہا تو ایک دن آئے گا جب تھانوں سے آہ کی بجائے واہ کی صدائیں اُٹھا کریں گی اور معاشرے میں ’بدلہ سنجی‘ کی جگہ بذلہ سنجی رواج پانے لگے گی۔ پھر جب سے جناب ذوالفقار چیمہ کہ جو پہلے ہی بطور ایک دیانت دار پولیس افسر کے اپنی دھاک بٹھا چکے ہیں، کے ’’پسِ پردہ‘‘ حقائق کی ہنساؤنی آئی تھی، ہم سوچ رہے تھے کہ موصوف نے ایک ذمہ دار افسر ہونے کے ناتے زیادہ سے زیادہ اپنے محکمے سے متعلق بیانِ صفائی مرتب کیا ہوگا۔ جب بھی ہمارے ہاتھ لگے گا، جس طرح احمد بشیر نے ’شہاب نامہ‘ کو ایک ہی جملے ’’رپورٹ پٹواری مفصل ہے‘ کے ساتھ نمٹا دیا تھا، اسی طرح ہم بھی کوئی یک سطری تبصرہ تراش رکھیں گے لیکن جس دن سے اکیس چلبلی تحریروں پر مشتمل ظرافت کی یہ پوٹلی ہاتھ لگی ہے، اس نے تو ہمارے تنقیدی ارمانوں پہ اچھا خاصا پانی بلکہ حیرانی پھیر دی ہے۔ کتاب پڑھ کے اندازہ ہوا کہ واقعہ نگاری اور کردار تراشی میں چیمہ صاحب کو خاص دسترس حاصل ہے، جس کے بیچوں بیچ وہ لفظی و شعری تحریف، انوکھی تراکیب، نرالے تبصروں اور اچھوتی تشبیہات کے چھڑکاؤ سے واقعات کی گھمبیرتا کو شگفتانے کا عمل مسلسل جاری رکھتے ہیں۔ پولیس کے ’پیش پا اُفتادہ‘ اسلوب میں لفظ ’’ جُناب‘‘ کی ادائی اور استعمال سے کوئی گھر کا بھیدی ہی لطف لے سکتا ہے۔ اسی ضمن میں حتی المفاد، مجلسِ ترقیِ قمار بازی، اپریشن رَدالفواد، اوصافِ کبیدہ، آمیانہ ذوق، اپریشن ضربِ غَضب،شر فروشی، جیسی نرالی اختراعات بھی ان کے شریر ذہن کی پیداوار ہیں۔ پھر شعری تحریف میں ’اِک یہی بات ہے اچھی تیری بھرجائی کی‘ اور ’لیا جائے گا مجھ سے کام دنیا کی حجامت کا‘ بھی خوب ہے۔ اسی طرح تشبیہ کا یہ انداز بھی ملاحظہ ہو: ’’ان کی آنکھوں میں خجالت، ندامت اور اہانت کے جذبات کسی سیاسی اتحاد کی طرح اکٹھے نظر آئے۔‘‘ ان کے کرداروںمیں چاہے وہ دھرنے والا دولھا ہو،مونچھ بردار تھانے دار ہو، پیر کوہستانی کے روپ میں رشوت خور حوالدار ہو، نذیر پہلوان ہو کہ جسے تیل کی بوتل بھی پینو کے لَک جیسی چاہیے، نیم خواندہ ممبرانِ اسمبلی ہوں یا دو نیم خواندہ مشیران، شباب کھڑکانوی، مہتاب چکھنوی، چودھری انکسار ہوں یا مانگے تانگے کے سامعین، اور بالخصوص ایم پی اے رانا کا پی اے غلام علی ساغر، جس نے بی اے نہ کر سکنے کی کمی، غلام علی کو جی اے بنا کے پوری کر رکھی ہے اور ہلکے خاندانی پس منظر کو چرب زبانی سے ڈھانپ رکھا ہے۔ چیمہ صاحب کے مزاح کی ایک اضافی خوبی یہ ہے کہ ان کے ہاں ہمارے بعض ’معروف‘ مصنفین والی کاسہ لیسی اور دریوزہ گری دکھائی نہیں دیتی، جو ان کے خاندانی ہونے پہ دال ہے۔ وہ اونچے سنگھاسن سے بات کرتے ہیں، سیاست کا ذکر چھیڑتے بھی ہیں تو اپنی وابستگی عیاں نہیں ہونے دیتے۔ اس لیے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کا مزاح سیاست کی ڈگڈگی پہ ناچنے والے بہت سے ’نزاع نگاروں‘ سے سو درجے اچھا ہے۔ وگرنہ تو ہمارے بڑے بڑے لکھاریوں کی سطور سے دانشور کم اور ’بوٹا کوڑھا‘ زیادہ جھانکتا دکھائی دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حقیقت، افسانے سے زیادہ دلچسپ اور سچ جھوٹ سے گھنا کرارا ہوتا ہے۔ ’’پسِ پردہ‘‘ کے سارے قہقہے انھوں نے اپنے ہی محکمے کے بے ڈھنگے حقائق پر لگائے ہیں، یعنی پولیس، پولیس ہی کے ہاتھوں مزاح کی زَد میں ہے۔ مزے کی بات یہ کہ انھوں نے کہیں بھی اپنے محکمے کو چار چاند لگانے کے لیے لفظوں کی چاند ماری نہیں کی۔ ان دو سو صفحات میں وہ کہیں وعدہ معاف گواہ کے رُوپ میں بھی نظر نہیں آئے بلکہ قدم قدم یوں محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے پولیس کلچر کا، دو نمبری، دکھاوے، کرپشن، مُک مُکا اور جعل سازیوں کے مواد سے پھُولا ہواپیٹ ننگا بلکہ چاک کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ پھر کمال یہ کہ وہ کہیں بھی پسِ پردہ حقائق پہ شرمندہ دکھائی نہیں دیتے بلکہ پورے طمطراق سے اپنے شعبے کی سیاہ کاریوں کا بھانڈا پھوڑ تے ہیں… تحریر کی اصل خوبی یہ ہے کہ ہمارے یہ جٹ مزاح نگار کسی ماہر سرجن کی مانند پہلے کسی معاشرتی ناسور پہ نشتر لگاتے ہیں اور پھر کسی ذہین فن کار کی طرح اس پہ شگفتگی اور ظرافت کا مرہم لگانا بھی نہیں بھولتے۔ ہمارا خیال ہے کہ کسی مرض یا محکمے کے علاج یا اصلاح کا بہتر طریقۂ کار یہی ہوتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں خوش ادائی، خوش نوائی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتی ہے اور خوش سلیقگی، خوش بیانی کے ہم رکاب ہو گئی ہے۔ پطرس کے شاگردِ عزیز اور پرانے راوین کنہیا لعل کپور کہا کرتے تھے کہ دوسروں پہ ہنسنے کے لیے صرف ایک بتیسی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اپنے آپ پر ہنسنے کے لیے بہت بڑا حوصلہ اور ظرف درکار ہوتا ہے۔ چیمہ صاحب کی تحریروں میں یہی ظرف ان کا شرف بنتا دکھائی دیتا ہے۔