خبر ہے کہ دینی مدارس کے طلباء کی سیاسی جلسوں میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی ہے اور جناب شیخ رشید کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ آئندہ ماہ پی ڈی ایم کے مارچ میں دینی مدارس کے طلباء کو شرکت سے روکیں۔سوال یہ ہے اس پابندی کا اطلاق صرف دینی مدارس پر کیوں؟کیوں نہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قائم طلباء تنظیموں پر بھی پابندی عائد کر دی جائے جہاں طلباء کا مختلف عنوانات سے استحصاال کر کے انہیں سیاسی جماعتوں کے مفادات کے چولہے میں ایندھن کے طور پر ڈالا جاتا ہے؟ دینی مدارس کے طلباء کو پی ڈی ایم کی سیاست کا ایندھن بننے سے روکنا بلاشبہ ایک اچھا قدم ہے لیکن سوال یہ ہے انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کو تحریک انصاف کی سیاست کا ایندھن بننے سے کون روکے گا اور کب روکے گا؟ اصول اور قاعدہ جب کسی ویژن اور فلسفہ حیات کے تحت مرتب ہوتا ہے تو وہ سماجی ارتقاء کا ضامن ہوتا ہے ، جب یہ اصول اور قاعدے خالص وقتی مفادات کے حصول کے لیے وضع کیے جاتے ہیں تو معاشرہ غلطی ہائے مضامین بن جاتا ہے۔ کیا حکومت کو کچھ خبر ہے اس کی ترجیح کیا ہے؟ جناب وزیر اعظم نے اپنے وزیر داخلہ کو فون کر کے کہا دینی مدارس کے طلباء کو سیاست کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔سوال یہ ہے کیا وہ ایسا ہی فون وزیر تعلیم کو بھی کریں گے اور انہیں بھی ایسا ہی ایک حکم دیں گے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء کو بھی سیاست کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے ؟ عمران خان کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ نے جو حسن سلوک کیا وہ بتاتا ہے ہمارے تعلیمی ادارے کس طرح یرغمال بن چکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے یہاں اپنے اپنے جتھے بنا رکھے ہیں اور طلباء کی شکل میں انہیں بیگار میسر آ جاتی ہے۔تعلیمی ادارے ان جتھوں کے مقبوضہ جات بن چکے اور ہر جتھہ زبان حال سے اعلان کرتا پایا جاتا ہے یہاں آنا ہے تو ہمارے ’’ بڑوں‘‘ سے ویزہ لے کر آئیں۔ عمران خان چونکہ’’ منصورے یا اچھرے کے سفارت خانے ‘‘سے ویزہ لیے بغیر پنجاب یونیورسٹی تشریف لے گئے اس لیے یہ خطرہ لاحق ہوا کہ جوانوں میں مقبول عمران خان کہیں ہماری اجارہ داری کے لیے نقصان دہ ثابت نہ ہو۔ان کے ساتھ جو سلوک ہوا ، وہ افسوسناک ضرور تھا لیکن نیا نہیں تھا۔خود میں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں جب حمید گل مرحوم کو مدعو کیا تو ایک جتھے نے سو سو رنگ سے مضامین باندھے جن کا حاصل ایک ہی تھا کہ ہماری اجازت کے بغیر یہ گستاخی کیسے کر لی گئی۔طلباء کے کندھے پر رکھ کر جب کیمپس میں ’’ پاور پالیٹیکس‘‘ کی جاتی ہے تو یہی ہوتا ہے۔ عمران خان کو چاہیے تھا اس واقعے سے سبق حاصل کرتے اور تعلیمی اداروں کو طلباء سیاست سے پاک کر دیتے۔ یہاں ہمیں کسی نیلے پیلے نارنجی گلابی یا جامنی انقلاب کی نہیں صرف علم اور تحقیق کے انقلاب کی ضرورت ہے۔لیکن ہوا کیا؟ جناب عمران خان کو جماعت اسلامی سے تشریف لائے اعجاز چودھری صاحب نے وہی راستہ دکھایا کہ تم بھی اپنے حصے کی ایک طلباء تنظیم بنا لو چنانچہ انصاف سٹوڈنٹس فیڈ ریشن وجود میں آگئی۔سوال اب یہ ہے مدارس کے طلباء کو سیاست کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کا حکم جاری کرنے والے وزیر اعظم کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء کو سیاست کے لیے کس منطق اور کس اصول کے تحت استعمال کرتے آئے ؟ اس ملک کا المیہ ہی یہی ہے یہاں کوئی موقف کسی اصول کی بنیاد پر کم ہی اختیار کیا جاتا ہے۔یہاں موقف کی شان نزول صرف مفاد ہوتا ہے۔ مسئلہ اب یہ نہیں ہے کہ دینی مدارس کے طلباء سیاست میں استعمال نہ ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ فضل الرحمن صاحب کی سیاست میں استعمال نہ ہوں۔ یہ طلباء ڈی چوک کے دھرنے میں آئے ہوتے تو انہیں خوش آمدید کہا گیا ہوتا اور ابرار الحق اور ڈی جے بٹ نے مل کر ان کے سہرے کہے ہوتے۔خالص مفادات کے دائرے میں رہ کر طے ہونے والے اصول معاشرے کو کسی منزل مقصودتک نہیں لے جاتے ، دائروں میں چکر دلواتے رہتے ہیں۔ جناب وزیر اعظم کو اپنی ترجیحات ذاتی یا گروہی مفاد کی روشنی میں طے کرنے کی بجائے قومی مفاد کی روشنی میں طے کرنی چاہییں۔دینی مدارس کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ طلباء سیاست کا ایندھن نہ بننے پائیں۔ دینی مدارس کے اور بہت سارے مسائل ہیں۔ آج تک کسی حکومت نے نہیں پوچھا کہ یہاں کے بچوں کے معاشی اور تعلیمی مسائل کیا ہیں اور وہ کن مشکل حالات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سیاسی حریف کے مارچ میں شرکت کے خطرے سے حکومت کو اگر دینی مدارس یاد آ ہی گئے ہیں تو اسے وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہری برابر ہیں۔ اگر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام پر تحریک انصاف کے جلسوں میں، ایم ایس ایف کے نام پر مسلم لیگ کے جلسوں اور پی ایس ایف کے نام سے پیپلز پارٹی کے جلسوں میں شرکت کر سکتے ہیں تو مدارس کے طلباء پر جے یو آئی کے جلسوں میں شرکت پر کامل پابندی کیسے عائد کی جا سکتی ہے؟اصول کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو جب تک اس کا اطلاق جزوی طور پر صرف حریف پر کیا جاتا رہے گا ، اس سے کوئی خیر بر آمد نہیں ہو گا۔ ہماری سیاست تضادات سے بھری پڑی ہے۔ اشرافیہ کے تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست کی اجازت نہیں ہے۔لیکن جہاں غریب اور متوسط طبقے کے بچے پڑھتے ہیں وہاں طلبہ سیاست کی سرپرستی کی جاتی ہے ۔کیونکہ یہاں سے بے گار میں کارکن ملتا ہے۔اب پی ڈی ایم کا مارچ آیا ہے تو یاد آگیا ہے کہ مدارس کے طلباء کو تو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ طلباء سیاست اگر بری ہے تو ہر تعلیمی ادارے میں اس پر پابندی عائد کیجیے۔ یہ کیسا اصول ہے کہ انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن تو تحریک انصاف کے مارچ میں شرکت کرنے ڈی چوک پر آ سکتی تھی البتہ دینی مدارس کے طلباء پی ڈی ایم سیاست کا حصہ نہیں بن سکتے؟ دو نہیں ، ایک پاکستان؟ یا ایک نہیں دو پاکستان؟