مستنصر حسین تارڑ کا ناول ’’جولاہا اور ڈاکیا‘‘ چند ہفتے قبل پڑھا۔ بڑا صبر آزما ناول ہے۔ دراصل تارڑ صاحب ہر وقت ایک نیا تخلیقی تجربہ کرنے پر کمربستہ رہتے ہیں۔ ان کے لگ بھگ ہر ناول کا ڈھانچہ نئی تکنیک پر استوار ہوتا ہے۔ مثلاً کچھ ناول اس طرح شروع ہوتے ہیں کہ انجام کو شروع میں بیان کر کے پھر آغاز ہوتا ہے، بالکل ایسے جیسے فلیش بیک ہو۔ بعض ناول روایتی انداز سے شروع ہوتے ہیں۔ واقعات کو ابتدا سے آگے بڑھا کر انجام تک لایا جاتا ہے۔ جولاہا اور ڈاکیا ان دونوں طرح کی ہنرکاری سے الگ ہے۔ دونوں ہمارے معاشرے کے معروف کردار ہیں۔شاید شاہ حسین کے بعد تارڑ صاحب پہلے شخص ہیں جنہوں نے جولاہے کو ایک روحانی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔تانا پیٹا، کشتی، کھیس، سوت، ان کے معانی ہر پڑھنے والے پر اتنے کھلتے ہیں جتنا اسے روحانی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ پھر ڈاکیا ہے، جو کسی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ ملک الموت بھی تو ڈاکیا ہے۔ پھر وہ بھی تو ڈاکیا ہی ہے جوایک دل میں بسی ہوئی محبت دوسرے دل تک پہنچا دیتا ہے۔ ہم روایتی کہانی کی تلاش میں ان روحانی اورفلسفیانہ وادیوں میں کھو جاتے ہیں جہاں ایک آس کھڑی کہہ رہی ہے کہ آئو آگے بڑھو، راستے کو دیکھتے ہوئے ساری نشانیاں یاد رکھتے ہوئے آگے چلتے آئو اور پھر اچانک کسی موڑ سے کہانی اپنی بانہیں وا کردے۔ تارڑ صاحب کے ناول میں صرف کردار باتیں نہیں کرتے۔ منظر نگاری سے کردار والا کام بھی لیا جاتا ہے۔ ایک خانقاہ ہے جہاں کا ولی صفت بابا اپنی نواسی کو سفید داڑھی میں بیٹھے پرندے تلاش کرنے کو کہتا ہے۔ بچی کا تجسس ابھی معصوم ہے۔ وہ سفید بالوں میں جھانکتی رہتی ہے پرندے نہیں ملتے۔ سالہا سال کے بعد جب شعور کے پرندے اسے سکول، کالج، کتابوں اور ماحول سے ملتے ہیں تو ساتھ یہ فہم بھی مل جاتا ہے کہ پرندے بابا کی داڑھی میں نہیں ہوتے۔ یہ انسانی شعور کے ارتقا کا وہ مقام ہے جہاں وہ ہر اس چیز کی نفی کردیتا ہے جو اس کی گرفت میں نہیں آتی۔ بابا اپنی عزیزہ کو اس کیفیت میں لے جاتے ہیں جہاں پرندے ہی پرندے ہیں۔ اب شعور کی روحانی پرت کھلتی ہے کہ انکار اقرار میں بدل سکتا ہے۔ اگر جولاہا اچھا اور ہوشیار ہو تو کھیس کا ڈیزائن خراب نہیں ہوتا۔ ایک ایسی لڑکی جوخانقاہ سے تعلق رکھتی ہے، ایسا روسی لٹریچر شوق سے پڑھتی ہے جسے لوگ دہریوں کی کتابیں کہتے ہیں۔ پھر اسے ایک دانشور متاثر کرتا ہے۔ اپنی عمر سے بڑا۔ مصلحت، بزدلی اور سمجھداری دراصل وہ آڑ ہیں جن کی مدد سے انسان کم ہمتی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کہانی میں خطوط کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ خط ناول نگار کے قلم سے نہیں بلکہ کردار کے قلم سے ہی نکلے ہیں۔ ان خطوط کی زبان اور الفاظ کی نفسیات ہو بہو نتالیہ کے مزاج اور علم کے مطابق ہیں۔ ناول میں یہ توازن صرف ان خطوط کو پڑھتے ہوئے نہیں محسوس ہوتا بلکہ تارڑ صاحب نے جانے کیسے پیمانے بنا رکھے ہیں جہاں لفظوں کی تاثیر بھی اسی قدر رنگ پکڑتی ہے جس قدر رنگت کی ضرورت مصنف ضروری سمجھتے ہیں۔ خطوط میں پہلے تعارف ہوتا ہے۔ پھر احترام اور پسندیدگی۔ پھر محبت کا احساس اور اس کے بعد سب کچھ نچھاور کردینے کا عزم۔ سمجھداری یا بزدلی جوبھی تھی اس نے جدائی ڈال دی۔ نتالیہ کی شادی ہوئی۔ مغربی معاشرے میں جا بسی۔ اب وہ ایسے کردار میں ڈھل گئی جس کی جڑیں مشرقی زمین میں ہیں اور شاخیں مغربی آب و ہوا میں پھیل رہی ہیں۔ اولاد ہم جنس پرستی اور عہد حاضر کی مغربی اخلاقیات کا نمونہ، شوہر پیسہ بنانے کی مشین اور یہ، یہ عورت کینسر میں مبتلا۔ پھر دو اڑھائی عشروں کے بعد دانشور کو فون کیا۔ وہ بوڑھا شاید نہ پہچانتا مگر نتالیہ کا نام سن کر سب یادیں جل اٹھیں۔ نتالیہ اولاد اور شوہر کو چھوڑ کر وطن آ گئی۔ دانشور کے ساتھ مکالمہ ہوا۔ اس طرح کے ایک مکالمہ میں تارڑ صاحب نے عورت کی مرد کے لیے طلب کے ضمن میں جو لکھا وہ ایک طویل غور و فکر کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے ایسا نروان پانے کے لیے ہمارے تارڑ صاحب کو صدیوں تک انگ بھبھوت رمانی پڑی ہو۔ نتالیہ جانتی ہے وہ زندہ نہیں رہے گی۔ وہ چند ہفتے بوڑھے دانشور کے ساتھ رہتی ہے۔ دونوں بابا کے مزار پر جاتے ہیں جہاں نتالیہ کا کمیونسٹ بھائی اب ایک روحانی پیر بن کر بیٹھا ہے۔ وہ آگے بڑھتی ہے۔ پھر بھائی کے سامنے جا بیٹھتی ہے۔ وہ پہچاننے کا کوئی اشارہ تک نہیں دیتا۔ بالکل ویسی حالت جیسی مرزا ہادی رسوا کی امرائو جان ادا کی اپنے گھر، بھائی اور والدہ کو دیکھ کر ہوئی تھی۔ یہ تارڑ صاحب کا کمال ہے کہ ان کی برپا کی گئی کیفیات پڑھنے والے کے دل میں وہی گداز پیدا کردیتی ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ نتالیہ مر جاتی ہے۔ بوڑھا دانشور اسے اپنے ہاتھوں سے دفناتا ہے۔ یہاں ایک ربط ابتدائی حصے سے جڑتا ہے جب ایک مر چکی شاعرہ کو قبر میں اتارا جا رہا ہے۔ اس کو دفنانے کے لیے کچھ لوگ موجود ہیں۔ قبر میں اتارتے ہوئے اس کا ہاتھ ایک دانشور کو چھو جاتا ہے۔ وہ ہاتھ جس نے قلم پکڑ کر کتنے ہی لافانی شعر لکھے۔ ڈاکیا اور جولاہا صرف نتالیہ اور رودین کی کہانی نہیں۔ یہ ناول مصنف کے ہنر کا کمال ظاہر کرتا ہے۔ ایک ناول کے اندر کیا کچھ پیش کرنا ہے اور یہ مواد کس طرح قاری کو متاثر کرے گا، یہ حساب رکھنا بہت مشکل کام ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ تارڑ صاحب کا متنوع قسم کا مشاہدہ، دنیا کے مختلف ممالک کی سیر اور مختلف روایات سے واقفیت ان کے ہر ناول میں تقابل، موازنہ اور معلومات کا خزانہ بھر دیتے ہیں۔ ان خوبیوں کے باعث ناول حقیقت معلوم ہونے لگتا ہے۔ لگتا ہے کہ ناول کے کرداروں سے ہم واقف ہیں۔ مجھے تو ڈاکیا اور جولاہا کا مطالعہ کرتے ہوئے یہی محسوس ہوا۔