مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے مہنگائی اور معاشی بحران سے عاجز قوم کو نوید سنائی ہے کہ وطن عزیز بحرانی کیفیت سے نکل کر معاشی استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے معاشی بہتری کے لئے حکومتی اقدامات کو تسلی بخش قرار دیا اور بتایا کہ بیرونی قرضوں سے بچنے کے لئے حکومت زیادہ ٹیکس جمع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مشیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں نیشنل بنک اور سٹیٹ لائف انشورنس جیسے اداروں کی نجکاری کے لئے حکومتی اقدامات سے آگاہ کیا۔ مشیر خزانہ نے 30کمپنیوں کی ری سٹرکچرنگ اور کاروباردوست احتسابی عمل کے متعلق بھی آرزو مندی کا اظہار کیا۔ وزارت خزانہ کی دستاویزات کے مطابق ن لیگ کی حکومت نے اپنے گزشتہ پانچ برسوں میں آئی ایم ایف سے 5ارب 82کروڑ ڈالر جبکہ غیر ملکی کمرشل بنکوں سے 9ارب 93کروڑ ڈالرسے زائد قرض لیا تھا اس کے علاوہ کثیر الجہتی ذرائع سے 15ارب ڈالر جبکہ دو طرفہ بنیاد پر سات ارب 17کروڑ کا قرضہ لیا۔ سابق حکومت نے اپنی شاہ خرچیوں اور اللوں تللوں کے لئے بانڈ فروخت کر کے ملک کو سات ارب ڈالر کا مقروض کر دیا۔ غیر ملکی قرضوں کے علاوہ ترقی کے دعویدار حکمرانوں نے مقامی طور پر 6517ارب روپے قرض لیا اس طرح مسلم لیگ ن کے جادوگر وزیر خزانہ نے اکتوبر 2013ء سے جون 2018ء تک کل ملا کر ملک کو 44ہزار ملین کامقروض کر دیا ۔مسلم لیگی حکمرانوں کے ملک سے معاشی کھلواڑ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے قرض نہایت قلیل المدتی حاصل کیا تھا اور پاکستان کو نومبر 2018ء تک 19799ملین ڈالر بیرونی قرضہ واپس کرنا پڑا۔ یہ سابق حکمرانوں کے بے دریغ قرض لینے کی پالیسی ہی کا نتیجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد نگران حکومت کے دور میں ہی ملک شدید معاشی مشکلات کا شکار ہونا شروع ہو گیا تھا ۔نگران دور میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گرنا شروع ہو گئے تھے اور معاشی ماہرین نے نئی حکومت کی معاشی مشکلات کا ذکر اور مالیاتی دیوالیہ ہونے کا اندیشہ ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا اور ایسا ہوا بھی۔ تحریک انصاف کو اقتدار کے ساتھ ورثہ میں معاشی بحران ملا ۔نئی حکومت سے عوام نے بے پناہ تو قعات اور امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں لیکن اقتدار میں آتے ہی وزیر خزانہ کے لئے پہلا چیلنج ضمنی بجٹ کی تیاری اور معیشت کی بحالی تھا۔ یہ بدترین معاشی بحران کا ہی نتیجہ تھا کہ تحریک انصاف جو ماضی میں غیر ملکی قرضوں کی شدید مخالف رہی اور عمران خان آئی ایم ایف سے قرض لینے کو خود مختاری گروی رکھنے سے تعبیر کرتے رہے تھے ‘ان کو اقتدار میں آنے کے بعد غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے چیلنج کا سامنا تھا۔ بلا شبہ تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کے بجائے دوست ممالک سے مدد کے حصول کا راستہ اختیار کیا اور کسی حد تک اس مقصد میں کامیاب بھی رہی مگردوست ممالک کی امداد بھی غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے ناکافی تھی۔ حکومت کو نہ صرف آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج کی طرف جانا پڑا بلکہ معیشت بحال کرنے کے لئے سخت فیصلے بھی لینے پڑے۔ حکومت نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی معاشی ٹیم کی قربانی دی اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے معاشی اصلاحات کے لئے نئی ٹیم سامنے لائی۔ مشیر خزانہ ‘گورنر سٹیٹ بنک کے ساتھ چیئرمین ایف بی آر ایسے اہم عہدوں پر با صلاحیت ‘ تجربہ کار اور نیک نام افراد تعینات کئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے نئی معاشی ٹیم کے لئے اہداف بھی مقرر کئے ۔ان میں ملکی تاریخ میں پہلی بار 55ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کے ساتھ ایف بی آر میں عوام دوست اصلاحات متعارف کروانا بھی شامل تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے لئے سب سے اہم اور بڑا چیلنج ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہے۔حکومت کے سامنے جہاں عوام کی معاشی حالت امیدوں اور توقعات پر پورا اترنے کا مشکل ہدف ہے ۔وہاں سابق حکومت کے قرضوں کی ادائیگی کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ سٹیٹ بنک کے ریکارڈ کے مطابق حکومت کو پانچ برس میں 31اب ڈالر قرض جبکہ 6ارب 60کروڑ سود ادا کرنا ہو گا۔ صرف رواں سال میں 7ارب ڈالر کی خطیر رقم واپس کرنا ہے جس میں 48ارب روپے صرف سود کی ادائیگی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وزیر خزانہ کا یہ کہنا درست محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی اقدامات کے باعث معیشت میں بہتری آئی ہے ۔وزیر خزانہ نے جہاں ملکی تجارتی خسارے میں کمی کی نوید سنائی ہے وہاں ملک میں 6لاکھ نئے ٹیکس فائلرز کا بھی ذکر کیا ہے۔ پاکستان کی معیشت سیاسی عدم استحکام‘ بدعنوانی‘ ناقص پالیسیوں‘ ٹیکس چوری‘ کالے دھن سے سٹاک مارکیٹ اور رئیل اسٹیٹ کے شعبوں میں سرمایہ کاری سے تباہ ہوئی۔ سابق حکمران جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ اگر پہلے کالے دھن سے ملک میں کاروبار چل رہے تھے تو تحریک انصاف بھی ایسا کر کے لوگوں کی معاشی مشکلات کم کر سکتی تھی مگر یہ جماعتیں جانے کیوں ایف اے ٹی ایف کے فیصلوں کو نظر انداز کر رہی ہیں۔ ان حالات میں ممکن ہے فنڈز کی کمی کے لئے حکومت اداروں کی نجکاری کرنا چاہتی ہو۔ حالات کا تقاضا ہے کہ نجکاری منصوبوں کی مخالفت نہ کی جائے تاہم اس سلسلے میں پہلے ان اداروں کا فیصلہ کیا جانا چاہیے جو عوامی خزانے پر مسلسل بوجھ بنے ہوئے ہیں۔