فرید بھائی نے ڈاکٹر حسن صہیب مراد کی ناگہانی موت کی خبر دی تو شدید دلی صدمہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی فرید صاحب نے بتایا کہ ایک دو روز میں ان کی Dead Body درہ خنجراب سے لاہور لائی جائے گی۔ دل سے ایک ہوک اٹھی کہ موت کے پہلے ہی وار سے انسان کا نام و القاب جاتا رہتا ہے اور وہ Nobody ہو جاتا ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران تین اموات ہوئیں جن کے میرے لیے حوالے مختلف تھے مگر ان میں ایک حقیقت مشترک تھی کہ جسے قرآن پاک نے بڑے موثر پیرائے میں یوں بیان کیا ہے کہ وما تدری نفس بِأیِّ ارضٍ تموت ’’کوئی نفس نہیں جانتا کہ کس سرزمین پر اسے موت آئے گی‘‘ برادرم حسن صہیب کا اب برسوں سے اول و آخر حوالہ لاہور تھا مگر موت کے فرشتے نے ان کی روح قبض کرنے کے لیے حکم خداوندی کے تحت درہ خنجراب کا انتخاب کیا۔ میرے محسن و مربی اور بزرگ دوست ڈاکٹر حافظ عبدالحق صاحب تقریباً پچاس پچپن برس سے حجاز مقدس میں مقیم تھے۔ پہلے طائف میں کوئی تیس برس اور پھر تقریباً 25 برس سے مکۃ المکرمہ میں رہائش پذیر، ان کے کچھ بچے امریکہ میں آباد ہیں اور کچھ کراچی میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی پہلی بیگم فوت ہو چکی ہیں اور دوسری بیگم سعودی ہیں اور مکۃ المکرمہ میں بستر علالت پر ہیں مگر ڈاکٹر صاحب اپنی ایک بیٹی کے پاس حیدرآباد تشریف لے گئے اور وہیں فرشتہ اجل ان کی موت کا پروانہ لے کر آ گیا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ڈاکٹر حافظ صاحب حیدر آباد میں فوت ہوں گے اور وہیں ان کی تدفیق ہوگی۔ تیسری موت بیگم کلثوم نواز کی ہے وہ جم پل تو لاہور کی تھیں مگر وہ لندن میں فوت ہوئیں۔ ہم انسانوں کے لیے یہ بات باعث حیرت ہوتی ہے مگر زندگی اور موت دینے والے کے لیے یہ عین روٹین کی بات ہے۔ پاکستان کی سابق خاتون اول بیگم کلثوم نواز کی زندگی میں جو بڑی خوبی مجھے نظر آئی وہ ان کی عاجزی، انکساری اور بردباری تھی۔ وہ اسلامی شعائر کی پابندی اور مشرقی روایات کی پاسداری کرتی تھیں۔ انہوں نے ایک مثالی ہائوس وائف بن کر دکھایا مگر جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں شریف خاندان پر افتاد پڑی تو بیگم کلثوم نواز نے ایک جرأت مند اور باہمت خاتون کی حیثیت سے تن تنہا بھرپور سیاسی کردار ادا کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف زبردست تحریک مزاحمت شروع کی۔ تاہم یہ بھی پاکستانی سیاست کا ایک دلچسپ باب ہے کہ جس وقت بیگم کلثوم نوازتحریک مزاحمت کو وسعت دینے اور جمہوریت کی واپسی کے لیے اپوزیشن کا متحدہ الائنس اے آر ڈی کے نام سے تشکیل دے رہی تھیں عین اس وقت شریف فیملی جنرل پرویز مشرف کے ساتھ پس پردہ ’’جلاوطنی‘‘ کے لیے مذاکرات کر رہی تھی۔ اے آر ڈی کی تشکیل کے صرف ایک ہفتہ بعد ہی شریف فیملی دس دسمبر 2000ء کو دس سالہ جلاوطنی کے معاہدے پر دستخط کرکے سعودی عرب روانہ ہو گئی۔ بیگم کلثوم نواز کی میت جمعرات کے روز لندن سے لاہور لائی جائے گی۔ دکھ کی اس گھڑی میں حکومت نے اسلامی رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے اور پاکستان کی معاشرتی روایات کا پاس لحاظ کرتے ہوئے میاں نوازشریف اور مریم نواز کو پیرول پر رہا کردیا۔ اللہ بیگم کلثوم نواز کی مغفرت کرے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے آمین۔ برادرم حسن صہیب مراد ایک بڑے باپ کے بڑے بیٹے تھے۔ خرم جاہ مراد مرحوم جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر تھے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ انجینئر تھے۔ اپنے والد کی طرح حسن صہیب نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے واشنگٹن امریکہ سے ایم بی اے اور پھر انگلستان سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ حسن صہیب نے پاکستان میں تعلیم کو ایک نیا وژن دیا۔ انہوں نے پہلے لاہور میں انسٹیٹیوٹ آف لیڈر شپ قائم کیا اور پھر یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی قائم کی، اب وہ اس یونیورسٹی کی شاخیں ایشیاء کے کئی دوسرے ممالک میں قائم کرنے کے مشن پر کمربستہ تھے۔ حسن صہیب مراد دھیمے انداز میں مدلل گفتگو کرتے تھے ہر وقت ان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی رہتی تھی۔ اگرچہ ان کے پاس جماعت اسلامی کی کوئی باقاعدہ ذمہ داری نہ تھی مگر وہ دل و جان سے اس طرز سیاست کے حامی تھے جس کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور جس کے علمبردار ان کے والد گرامی خرم جاہ مراد تھے۔ خرم جاہ مراد جماعت اسلامی کا فکری و عملی سرمایہ تھے۔ جماعت اسلامی کی بظاہر خشک تحریکیت میں وہ تقویٰ، روحانیت اور ذکر و اذکار کا ایک دلکش گل دستہ تھے۔ جب وہ مکۃ المکرمہ میں حرم مکی کے بعض منصوبوں کی تکمیل میں مصروف تھے، ان دنوں وہ طائف بھی تشریف لایا کرتے تھے۔ ایک دو بار مجھے اپنی گاڑی میں مکۃ المکرمہ انہیں پہنچانے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ دوران سفر جماعت اسلامی، عالمی تحریک اسلامی، تزکیہ باطن اور ورلڈ ویو جیسے موضوعات پر وہ بڑی فکر انگیز گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ اسی باپ کے حسن صہیب تربیت یافتہ تھے۔ بعض احادیث کے مطابق حادثاتی موت کو شہادت کی موت کہا گیا ہے۔ اللہ انہیں اس اعزاز سے نوازے اور ان کی دنیاوی مسکراہٹ کو دائمی مسکراہٹ میں بدل دے، آمین۔ میں جب 1970ء کی دہائی میں سعودی عرب کی وزارت تعلیم میں تدریسی فرائض کی بجا آوری کے لیے ارض مقدس گیا تو میں طائف کے ڈاکٹر حافظ عبدالحق کے حسن اخلاق، ان کے علم اور حلم سے بہت متاثر ہوا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے عرب اور دوسرے غیر ملکی مریضوں میں بہت مقبول و محبوب تھے۔ میرے ساتھ تو ان کا رویہ ایک شفیق و خلیق بزرگ کا سا تھا۔ وہ والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کے دوستوں میں سے تھے۔ اس لیے نوجوان اجنبی کے لیے انہوں نے در دل ہمیشہ کشادہ رکھا۔ سعودی عرب میں بیس برس سے زائد قیام کے دوران میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ابھی تین چار ماہ پہلے تک مکۃ المکرمہ میں بھی ان سے ٹیلیفون پر رابطہ قائم تھا۔ ڈاکٹر حافظ صاحب سے سفر و حضر میں آیات و احادیث پر مبنی حکیمانہ نکات، فقہ کو آسان بنانے کے ’’نسخے‘‘ اورزندگی کو فرحاں و شاداں بنانے کے چھوٹے چھوٹے ٹوٹکے سیکھنے اور سمجھنے کے وافر مواقع حاصل ہوتے رہے۔ اس زمانے میں ابھی موبائل فون، وٹس ایپ اور سوشل میڈیا جیسی بہاریں یا بلائیں نازل نہیں ہوئی تھیں۔ خطوط ہی رابطے کا بڑا ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ میری بیگم ابھی پاکستان میں ہی تھیں اور ان کے ویزے کے مراحل ابھی طے نہ ہوئے تھے، اس لیے کبھی کبھی قیامت کے نامے بھی آیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر حافظ صاحب سے رہنمائی چاہی تو انہوں نے فرمایا کسی خط پر فوری ردعمل ظاہر نہ کیا کریں۔ کم از کم تین روز اور سوچ بچار کے بعد بڑے ٹھنڈے اور خوشگوار موڈ میں جواب لکھا کریں۔ سعودی وزارت تعلیم میں میری پہلی پوسٹنگ دارالحکومت ریاض میں ہوئی۔ میں طائف کے خوشگوار موسم اور مکۃ المکرمہ سے قربت کی بنا پر یہاں آنا چاہتا تھا۔ ڈاکٹر حافظ صاحب سے درخواست کی تو انہوں نے ریاض ہائی کورٹ کے ایک قاضی کے نام خط دیا۔ جب میں نے سعودی قاضی کو ڈاکٹر صاحب کا خط دیا تو اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ قاضی نے کھڑے ہو کر بڑی دیر تک میرا ہاتھ تھامے رکھا اور ڈاکٹر حافظ صاحب کی تادیر خیریت و عافیت کے بارے میں دریافت کرتا رہا۔ قاضی نے اسی وقت وزارت تعلیم کے ڈائریکٹر کے پاس مجھے بھیجا۔ سعودی ڈائریکٹر نے بھی بڑی عزت و افزائی کی اور فی الفور میرا تبادلہ طائف کردیا۔ میں نے بعد میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ قاضی نے آپ کا بہت احترام کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بار شفا، طائف کے ایک بدو نے قاضی کو غصے میں آ کر زخمی کردیا۔ سب سے پہلے قاضی میرے پاس ہسپتال میں آیا۔ تب سے اب تک قاضی صاحب طبیب اور مریض کے پہلے رشتے کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر حافظ صاحب زندگی کے ہلکے پھلکے واقعات سے بہت محظوظ ہوئے۔ ایک بار بتانے لگے میرے بیٹے نے جو کراچی میں زیر تعلیم تھا، گاڑی کا مطالبہ کیا۔ میں نے کہا بیٹا میں تو میڈیکل کالج سائیکل پر جاتا تھا۔ فرمانے لگے بیٹے نے ادب سے جواب دیا، آپ کے باپ کے پاس تو سائیکل بھی نہیں تھی جبکہ میرے والد کے پاس تو شیورلٹ گاڑی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مسکراتے ہوئے فرمانے لگے میرا بیٹا کہتا تو ٹھیک ہے۔ حافظ صاحب کی شگفتہ اور شائستہ مجلس نے ہمارے قیام طائف کو بہت ہی خوشگوار بنا دیا تھا۔ اللہ ڈاکٹر حافظ عبدالحق کی حسنات کو قبول فرمائے اور ان کی قبر کو نور سے منور کرے۔ آمین۔ اگرچہ ڈاکٹر حسن صہیب مراد، محترمہ کلثوم نواز اور ڈاکٹر حافظ عبدالحق کی اموات کے حوالے الگ الگ ہیں مگر ان میں ایک بات مشترک ہے کہ ’’کوئی نفس نہیں جانتا کہ کس سرزمین پر اسے موت آئے گی‘‘