وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک کی معاشی صورت حال استحکام کی جانب گامزن ہے اور اب ان کی توجہ عام آدمی کو آسانی فراہم کرنے پر مرکوز ہے۔ معاشی ٹیم کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کاروباری برادری کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ان کی ترجیح ہے۔ دوسری طرف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو قابو میں رکھنا ممکن ہو سکے گا۔ پاکستان سیاسی عدم استحکام سے دوچار رہنے کے سبب معاشی طور پر خطے کے دیگر ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے۔ کہنے کو خطے میں سب سے بڑا حریف ملک بھارت پچھلے ایک سال کے دوران اپنی شرح نمو میں پچاس فیصد کمی کا شکار ہو چکا ہے مگر اس کی جی ڈی پی اب بھی پاکستان سے زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش جیسا ملک جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے تیز رفتار ترقی کر رہا ہے۔ سری لنکا،مالدیپ تک پاکستان کی نسبت بہتر معاشی حالت میں ہیں۔ اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ پاکستان کے ساتھ ایسا کیا روگ ہے جس نے اس کی ترقی اور معاشی بڑھوتری کو روک رکھا ہے تو معلوم ہو گا سابق حکومتوں نے ملک کے وسائل کو دانشمندی کے ساتھ استعمال کرنے کی کوئی طویل المدت اور مؤثر پالیسی نہیں بنائی۔ پاکستان تحریک انصاف بائیس برس تک احتساب اور انصاف کو اپنے منشور کے ترجیحی نکات بتاتی رہی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف نے اپنا معاشی پروگرام نافذ کرنا چاہا تو قرضوں پر استوار معیشت نے اس عوام دوست منشور کا بوجھ اٹھانے سے انکارکر دیا۔ 50لاکھ گھروں کی تعمیر، ایک کروڑ نوکریوں کی فراہمی، نوجوانوں کو کاروبار کے لیے آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی اور تنخواہوں میں اضافے کی باتیں خواب دکھائی دینے لگیں۔ حالت یہ ہوئی کہ 95ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی ناممکن معلوم ہونے لگی۔ رواں برس 10ارب ڈالر صرف قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہو گئے۔ سیاسی مخالفین نے پہلے مسائل پیدا کیے پھر ان کو حل کرنے کی ہر کوشش میں رکاوٹ ڈالی۔ وزیر اعظم عمران خان آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کو معاشی خود کشی کے مترادف قرار دیتے رہے ہیں مگر آخرکار انہیں اسی عالمی ساہوکار ادارے کے پاس جانا پڑا۔ گزشتہ ایک برس کے دوران پاکستان نے سعودی عرب سے تین سال تک 9ارب ڈالر کا تیل ادھار لینے کا معاہدہ کیا۔ چین سے سی پیک منصوبوں کے حوالے سے نئی ترجیحات پر بات کی۔ متحدہ عرب امارات سے مدد لی۔ یہی نہیں گزشتہ حکومتوں نے اپنی نالائقیوں کے باعث بعض بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے ملک کو جو نقصان پہنچایا اس کا ازالہ کرنے کی قابل قدر کوششیں دکھائی دیتی ہیں۔ وزیر اعظم کی خصوصی دلچسپی کے باعث ترک صدر جناب رجب طیب اردوان نے تعاون کیا اور رینٹل بجلی کمپنی ’’کارکے‘‘ سوا ارب ڈالر جرمانے کی رقم پاکستان کو معاف کرنے پر تیار ہوئی، ریکوڈک منصوبے پر تقریباً6ارب ڈالر جرمانے کو ختم کرانے کے لیے حکومتی کوششیں جاری ہیں۔ ایران سے معاہدہ کیا گیا ہے کہ وہ گیس پائپ لائن کی تنصیب میں تاخیر پر ہرجانے کے لیے عالمی عدالت سے رجوع نہیں کرے گا۔ ان کوششوں کا نتیجہ مثبت برآمد ہوا مگر حکومت کی جانب سے شروع کی گئی نئی ٹیکس اصلاحات اور کرپشن کے خلاف اداروں کی مہم نے ان مثبت اقدامات کے ثمرات نظروں سے اوجھل رکھے۔ تاجروں نے ہڑتالیں کیں، کئی دوسرے طبقات بھی سڑکوں پر آ گئے۔ جے یو آئی نے کئی روز سے اسلام آباد میں دھرنا دے رکھا ہے۔ اس کے باوجود حکومتی کاوشوں کی اثر پذیری ظاہر ہونے لگی ہے۔ مشکل صورت حال اور مزاحمت کے باوجود سٹاک مارکیٹ میں بہتری آ رہی ہے۔ جاری کھاتوں کا توازن پاکستان کے حق میں ہو رہا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھنے لگی ہے۔ کسی ملک کی مالیاتی اور معاشی پالیسیوں میں استحکام اسی وقت آتا ہے جب سیاسی استحکام موجود ہو۔ بے یقینی کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی رپورٹس پاکستانی معیشت کو درست سمت بڑھتا دکھا رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ معاشی اصلاحات کا ایک سال بعد فائدہ عام آدمی کو منتقل ہونا شروع ہو جائے گا۔ پاکستان کے عوام نے عشروں تک سابق حکومتوں کی غیر سنجیدگی کے نتائج بھگتے ہیں۔ ایک ایسا ملک جس کے پاس ترقی کے تمام وسائل موجود ہوں مگر وہ قرض پر اپنی معیشت کو استوار کرے تو اسے پالیسی سازوں کی نا اہلی کے سوا کیا کہا جائے۔ وزیر اعظم کی جانب سے بارہا عام پاکستانی کی مشکلات پر فکر مندی ظاہر کی گئی۔ اب جبکہ ملک کی معاشی حالت بہتر ہونے لگی ہے تو بے آسرا اور لاوارث تصور کیے جانے والے عام شہریوں کی مشکلات کم کرنے کا نظام بلا تاخیر ترتیب دیا جانا چاہئے۔ بلاشبہ گزشتہ ایک سال میں مختلف وجوہات کے باعث اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ بعض اشیاء کی قیمتوں میں بلاوجہ اضافہ کر دیا گیا۔ طلب و رسد کا نظام بہتر بنا کر یا اس نظام کو حکومتی نگرانی میں رکھ کر قیمتوں میں کمی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کے عوام وطن کی سلامتی کے لیے ہر قربانی دیتے آئے ہیں۔ جنگ ہو یا امن عوام نے وطن سے غیر مشروط محبت کا ثبوت دیا ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے قیمتوں کو کنٹرول رکھنے کے لیے سیل کے قیام کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ عام پاکستانی کے لئے ہر وہ عمل قابل قدر ہو گا جو اس کی زندگی سے مشکلات کے کانٹے نکال کر سکھ دے۔