پتا نہیں یہ فقرہ کہاں پڑھا ہے۔ شاید مسعود مفتی کا ہے کہ ہمارا ملک جملہ مفاد پرستوں کی دولت مشترکہ ہے اور قوم ان کی یرغمال ہے۔ جوں جوں انتخابات قریب آتے جاتے ہیں، دل ہے کہ بے قرار ہوا جاتا ہے۔ کسی نے اپنے ادبی منشور کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ظل الٰہی‘ جرنیل اور ملاکی ازلی و ابدی مثلث کے دبے ہوئے انسانوں کے لیے لکھتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ عام طور پر ہر زمانے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ فوج، ملا اور سیاستدانوں کا اتحاد ہی اقتدار پر قابض رہنے کی ضمانت ہے۔ میں نے ایک بار تجزیہ کر کے یہ عرض کیا تھا کہ خلافت عباسیہ کی تباہی بھی ان تین گروہوں کے درمیان کشمکش کا نتیجہ تھی۔ ایک طرف خلافت تھی جو عرب اشرافیہ کی نمائندگی کرتی تھی، دوسری طرف عجمی بیوروکریسی تھی جو اقتدار پر فی الاصل تسلط رکھتی تھی اور تیسری طرف بغداد کے قرب و نواح میں خیمہ زن ترک فوج تھی جو کسی کے کنٹرول میں نہ تھی۔ اس ملک پر جو بھی حکمران آتا ہے ان تین گروہوں کی اہمیت کے لحاظ سے فیصلے کرتا ہے۔ ایوب خاں آئے تو ان کے پاس فوج کا ڈنڈا موجود تھا، مگر وہ جانتے تھے کہ یہ ڈنڈا بیورورکریسی کی طاقت کے بغیر خوف تو بیدار کرسکتا ہے حق حکمرانی نہیں دے سکتا۔ دوسری قوت سیاسی اشرافیہ کی تھی جن میں کچھ پر تو پابندی لگا دی گئی اور باقیوں کو رام کرنے کے لیے اپنی ایک جماعت بنا دی گئی۔ اس طرح اس مثلث کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ایوب کے بعد ہر آنے والے نے ان تینوں طبقات کی طاقت کا الگ الگ سے ادراک کیا۔ سیاستدان بھی وہ کامیاب رہا جس نے ایک طرف بیوروکریسی کو پکڑا تو دوسری طرف فوج کا دامن تھامے رکھا۔ کون ہے جس پر یہ الزام نہ لگا کہ وہ فوجی نرسری کی پیداوار ہے حتیٰ کہ شیخ رشید بھی دوسروں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر 4 کی پیداوار ہیں۔ عمران خان پر الزام لگا کہ وہ جس ایمپائر کی انگلی کے منتظر ہیں، وہ فوج ہی ہے۔ نوازشریف کے بارے میں بھی یہی کہا گیا۔ بھٹو صاحب کا تو ایوب خان کو ڈیڈی تسلیم کرنا ایک حقیقت ہے۔ بے نظیر کو جب پہلی بار اقتدار ملا تو اس سے پہلے انہوں نے آرمی چیف سے ملاقات کی اور پھر اپنی کابینہ میں جنرل صاحبزادہ یعقوب سمیت ایک آدھ منسٹر بھی بٹھا لیا۔ سب حقیقت پسند لوگ ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔ میں نے حقیقت پسند کہا ہے مفاد پسند نہیں۔ تاہم اس پوری کہانی کو اس فقرے کے پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستان آج بھی مفاد پرستوں کی دولت مشترک ہے جس نے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ جب اس مثلث کی ایک سمت اقتدار میں آتی ہے تو دوسری دو سمتوں کو نظر انداز نہیں کرتی۔ یہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ ضیاء الحق آئے تو بیوروکریسی ماضی کے تجربات کے زیر اثر فوراً ہی مل گئی۔ ویسے بھی بھٹو نے بیوروکریسی کے سر سے آئینی تحفظ کا سائبان اٹھا کر اس کا ڈنگ نکال دیا تھا تاہم ضیاء الحق نے ضروری سمجھا کہ سیاست دانوں کو آن بورڈ کیا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے پہلے ایک مجلس شوریٰ تشکیل دی۔ اس سے پہلے بی این اے کو اپنی کابینہ میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ یہ بی این اے بھی ایسی جھانسے میں آئی یا کچھ بھی کہہ لیجئے کہ فوجی حکومت کا حصہ بن گئی۔ اسے ملا ملٹری اتحاد کہا گیا۔ کسی نے اسے ملاملٹری اتحاد کا نام بھی دیاگیا۔ یہ گویا اس پیرا ڈائم کو ایک نئی جہت دینے کی کوشش تھی جو یورپ اور برطانیہ کی تاریخ سے اخذ کی گئی تھی۔ مطلب یہ کہ کلیسا (Clergy) اور مارکیٹ کی طاقت اقتدار کی جنگ میں ایک ہو جاتی ہیں اور انہیں فوج کی مدد حاصل رہتی ہے۔ مشرف کے سامنے بھی یہ چیلنج تھا۔ انہوں نے ملاملٹری اتحاد کے نعرے کی بدنامی کی وجہ سے ایک نیا تجربہ کرنے کی کوشش کی اور وہ یہ کہ انہوں نے براہ راست ’’ملا‘‘ سے اتحاد کرنے کے بجائے سول سوسائٹی سے اتحاد کیا۔ ان کی پہلی کابینہ میں چار این جی اوز کے وزیر تھے۔ زبیدہ جلال، نثار میمن، عمر اصغر خان، شاید ایک دو اور بھی تھے، نام یاد نہیں آ رہے۔ یہ دکھاوے کی ظاہری شکل تھی۔ ان کی اصل دشمنی سیاست دانوں سے تھی۔ بے نظیر اور نوازشریف کو ملک بدری پر مجبور کر کے وہ محسوس کرتے تھے، انہیں ان کی متبادل قوت تیار کرنا ہے۔ این جی او زکو غیر سیاسی تنظیمیں کہا جاتا۔ غیر سیاسی بھی غیر انقلابی بھی۔ اس طرح انہوں نے باقی ماندہ سیاست دانوں کو این جی او کی قوت سے ملا کر اصلی سیاستدانوں کا مقابلہ کرنا چاہا۔ یہ تجربہ بالآخر ناکام رہا۔ انہوں نے جلد ہی ملک میں ایک سیاسی حکومت کی داغ بیل ڈالی جو انتہائی بھونڈے انداز میں تشکیل دی گئی تھی۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ فوج کے ساتھ افسر شاہی اور سیاسی اشرافیہ کا اتحاد ضروری ہے۔ آج کل کیا ہورہا ہے۔ یہ سب قوتیں آپس میں ایک مثلث بنانے کی کوشش میں بکھری پڑی ہیں۔ اب کہا جارہا ہے عدلیہ بھی ایک قوت ہے۔ اس بحث کو فی الحال نہیں چھیڑتے۔ میں ڈرتا ہوں مجھے خلافت عباسیہ کا آخری دور یاد آ رہا ہے۔ لوگ کہتے تھے اس وقت ہم لایعنی بحث میں مبتلا تھے کہ سوئی کے ایک ناکہ میں سے کتنے فرشتے گزر سکتے ہیں۔ یہ سب بحثیں تب پیدا ہوتی ہیں جب معاشرہ انتشار کا شکار ہوتا ہے اور یہ انتشار اپنی خطرناک شکل میں اس وقت موجود ہوتا ہے جب کسی تکون کے تینوں اضلاع آپس میں الجھ جاتے ہیں۔ ہم مشرقی پاکستان کے سقوط سے پہلے تجزیہ کیا کرتے تھے کہ جب سیاستدان ہارتے ہیں تو بیوروکریسی آتی ہے اور جب بیوروکریسی ناکام ہوتی ہے تو فوج آتی ہے اور جب فوج ناکام ہو جاتی ہے تو دشمن کی فوج آ جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نورالامین کے عارضی حکومتی بندوبست کا یہ کہہ کر دفاع یوں کیا جاتا تھا کہ مشرقی پاکستان میں اقتدار فوج کے پاس مکمل طور پر چلا گیا ہے، اسے مجیب کی شکل میں ناکام نہیں ہونا چاہیے۔ نورالامین اور دوسرے محب وطن پاکستانیوں سے مل کر اقتدار کی تکون کو پھر سے بحال کیا جائے۔ حالات نارمل کئے جائیں۔ فوج کو جو حد سے زیادہ مداخلت کرنا پڑ رہی ہے، اس سے سلیقے سے اقتدار واپس لیا جائے تاکہ پاکستان بچ جائے۔ اور جب دشمن کی فوج آ گئی تو ہم نے دھیرے دھیرے یہ کہنا شروع کیا کہ ہم کہتے تھے کہ بغاوت کو رفع کر کے ایک سیاسی عمل شروع کیا جائے، چاہے اس میں قدرے مصنوعی پن ہی کیوں نہ ہو۔ افسوس ہماری نہ سنی گئی اور شاید ہماری تجویز بھی مصنوعی تھی اور مصنوعی طریق کار کامیاب نہیں ہوا کرتا۔ اس وقت جب سیاسی جماعتوں کے طرز عمل پر بھی غور کیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ یہ بھی تکون کا ایک کنارا نہیں۔ اس کے اندر بھی ایک پوری دنیا آباد ہے۔ مفاد پرست بڑھتے جا رہے ہیں اور اس کے ساتھ تشویش بھی۔ میں نے عرض کیا کہ ملک کو اصل خطرہ مفاد پرستوں کی دولت مشترکہ سے ہے۔ اس کا جس جس انداز میں چاہے بیان کرلو۔ یہ تو صرف بات کو سمجھنے کے لیے معاملے کا ایک رخ تھا۔ صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ یہ اتحاد اگرچہ عوام کو یرغمال بھی بنا لیتا ہے تاہم اس سے ملک بچ جاتا ہے۔ عوام کا کیا ہے۔ وہ تو پہلے ہی پستے آ رہے ہیں۔ پھر یہ بھی کب تک ۔عوام کی حکمرانی کا وقت ضرور آئے گا کہ یہی فطرت کا تقاضا ہے۔