بلاول کی قیادت میں ہونے والے لانگ مارچ کے بعد اب پیپلز پارٹی کا تھنک ٹینک بہت خوش اور مطمئن ہے کہ بلاول کواس مارچ کے بعد جو پذیرائی حاصل ہوئی، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ملی۔ اس مارچ سے پیپلز پارٹی نے بہت سارے فوائد حاصل کیے۔ پیپلز پارٹی کو اس بات کا خوف تھا کہ پارٹی میںموجود لوگ بے عملی کی وجہ سے بد دل ہورہے ہیں اور وہ بددلی ان کو پارٹی کے اندر سازش کرنے پر اکسا رہی ہے۔ ظاہر ہے لوگ تولوگ ہیں۔ کچھ نہ کچھ تو کریں گے۔ اگر باہر نہیں کریں گے تواندرکریں گے۔اس طرح وہ پارٹی کے اندر ایک دوسری کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہو گئے تھے۔ پارٹی قیادت کوہر روزبہت ساری شکایات موصول ہو رہی تھیں کہ فلاں نے یہ کیا اور فلاں نے وہ کیا۔ اس طرح سے پارٹی قیادت بہت تنگ آ چکی تھی۔ اس حقیقت سے اہلیان سندھ اچھی طرح سے آگاہ ہیں کہ جتنی گروہ بندی اور اندورنی کشمکش پیپلز پارٹی کے اندر ہے ،اتنی اور کسی پارٹی میں نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نظریات اور خیالات کی وجہ سے ہر پارٹی میں الگ الگ سوچ کے لوگ الگ الگ طرح سے سوچتے ہیں مگر پیپلز پارٹی میں خیالات کی وجہ سے نہیں بلکہ مفادات کی وجہ سے ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچتے ہیں اور اس پر پارٹی قیادت کی پریشانی ایک فطری عمل ہے۔ اس لیے پہلے سے یہ تجویز موجود تھی کہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اسلام آباد تک ایک مارچ منظم کیا جائے مگر یہ بھی خوف تھا کہ اگر وہ مارچ کامیاب نہ ہوپایا تو کیا ہوگا؟ بلاول بھٹو زرداری کے قریب رہنے والے چند افراد نے جب لانگ مارچ کاپوراپلان پیش کیا اور یہ بھی بتایا کہ کتنے دنوں میں یہ مارچ مکمل ہوگا اور اس کے اخراجات کہاں سے آئیں گے؟ تو بلاول راضی ہوگئے۔ کیوں کہ اس مارچ میں پارٹی قیادت کاکوئی خرچہ نہیں تھا اور مارچ کی وجہ سے پارٹی قیادت کو صرف شہرت ہی نہیں بلکہ دولت بھی مل رہی تھی اور پیپلز پارٹی کی قانونی ٹیم کا بھی یہی خیال تھا کہ اس مارچ کی وجہ سے قیادت موجودہ مقدمات پر اچھا اثر پڑے گا۔ جب ساری باتیں فائدے میں تھیں توپھر پی پی قیادت نے کہا کہ دیر کس بات کی؟ اس وجہ سے مجموعی طور پر پانچ کمیٹیاں بنائی گئیں۔ ایک کمیٹی کے سپرد یہ کام کیا گیا کہ وہ مارچ کو مقبول کرنے کے لیے اشتہار بازی کرائے۔ دوسری کمیٹی مارچ کے لیے مختلف اضلاع سے لوگوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے قائم کی گئی۔ تیسری کمیٹی اس لیے بنائی گئی کہ وہ مارچ کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے بندوبست کرے ۔ چوتھی کمیٹی میڈیا کو سنبھالنے کے لیے تھی۔ جب کہ پانچویں کمیٹی سب سے اہم تھی اور وہ کمیٹی تھی کہ لانگ مارچ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟ یہ کمیٹی سب سے اہم تھی اور اس کمیٹی میں شامل ہونے کے لیے بہت سارے جیالوں کی ضد بھی تھی۔ کیوں کہ اس کمیٹی کے پاس نہ صرف سندھ حکومت بلکہ سندھ کے سارے اضلاع اور سندھ کے وڈیرے اور سندھ کے ذرائع تھے اور اس کمیٹی نے دل کھول کر خرچ بھی کیا ۔ اس وجہ سے اب پارٹی کے اندر یہ اختلافات پیدا ہوگئے ہیں کس نے کتنا کمایا اور کس نے کتنا کام کیا؟ سندھ میں اب احتجاج کرناکوئی مشکل کام نہیں رہا۔ کیوں کہ بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے ہر ایم این اے ، ایم پی اے اور سینیٹر کو اپنے حلقے میں آسانی کے ساتھ ایک ہزار دہاڑی والے بیروزگار مل جاتے ہیں جن کے ہاتھوں میں جھنڈے دیکر ان سے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ پہلے ان سے غلطیاں بھی ہوجاتی تھیں مگراب تو ان کی اچھی خاصی پریکٹس ہوگئی ہے اور وہ آسانی سے سیاسی کارکنان کی طرح سے نظر آتے ہیں اور عام لوگوں کو شک بھی نہیں ہوتا۔ کیوں کہ یہ کوئی مشکل کام تو ہے نہیں۔صرف نعرہ ہی تو لگانا ہوتا ہے۔ بلاول کا نعرہ لگانا اور ڈھول کی تھاپ پر دوہاتھ اٹھا کر جسم کو حرکت دیناکون سی بڑی بات ہے مگر میڈیا پر توسب کچھ والہانہ رقص کے طور پر نظرآتا ہے۔ اس طرح سندھ سے تیار ہونے والا قافلہ چلا اور سرائیکی بیلٹ سے کچھ نہ کچھ شمولیت کروائی گئی۔ اس سلسلے میں یہ بھی حقیقت ہے کہ سارے کے سارے کرائے کے لوگ نہیںتھے۔ پیپلزپارٹی ایک پارٹی ہے اور اس میں کارکنان بھی ہیں مگر وہ کارکنان آٹے میں نمک کے برابر ہیں مگر نمک بھلے کم ہو مگر اس کے اہم کردار کوتو کوئی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مارچ کی معرفت پیپلز پارٹی کے مایوس کارکنان کو نہ صرف اچھا خاصہ خرچہ حاصل ہوا بلکہ ان سے ملازمتیں دینے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ مگر مذکورہ مارچ میںاکثریت پھر بھی ان غریب لوگوںکی تھی جن کو معلوم نہ تھا کہ وہ آخر کیوں غریب ہیں؟ اگر ان کو معلوم ہوتاکہ وہ اس لیے غریب ہیں کہ ان کے وسائل کو وہ حکمران لوٹ رہے ہیں جن کی خاطر وہ راستوں پر چلتے ہوئے نعرے لگاتے ہیں۔ ان کے مسائل کو حل نہیں کیا جاتا۔کیوں کہ ان کے مسائل کی اصل وجہ بھی تھی وہ لوگ ہیں جو ان پر نسل در نسل حکمرانی کرتے آئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور سندھی قومپرستوںکے درمیان بہت سارے اختلافات ہیں مگر وہ دونوں اس بات پر آپس میں اتفاق کرتے ہیں کہ سندھ کے ساتھ پنجاب کا رویہ ظالمانہ ہے۔ پاکستان میں صوبائی نا برابری ایک بہت پرانا اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اگر اس بات سے کوئی انکار کرتا ہے تو پھروہ کبھی بھی حقائق کوجان نہیں پائے گا۔ سندھ کی مظلومیت ایک ایسی سچائی ہے جس کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ مگر سندھ کے ساتھ ظلم کرنے میں یہاں کے حکمرانوں کا سب سے اہم اور بنیادی کردار رہتا آیا ہے۔ آج وہ کردار پیپلز پارٹی آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں ادا کر رہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لانگ مارچ کی شکل میں سندھ کی غربت اور افلاس کا مذاق نہ اڑایا جاتا۔سندھ کے وڈیرے اور ان کے ایجنٹ گزشتہ چودہ برسوں سے سندھ کے عوام کی امانت میں خیانت کرتے ہوئے ارب پتی بن گئے ہیں ،وہ لوگ سندھ کے غریب عوام کے ایک حصے کو دس روز تک گھروں سے دور لے جاکر اور مارچ کرواکر جوکچھ دیتے ہیں وہ اتنا کم ہے کہ اگر اس کا پتہ عالمی اداروںکو لگ جائے تو پاکستان کے حوالے سے بہت بڑی سیاسی کرپشن کی کہانی میڈیا کی زینت بن جائے۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ ایک شخص کو اپنے گھر والوں سے دور رکھنے اور پورا دن نعرے لگوانے کا معاوضہ صرف اورصرف ایک ہزار روپیہ یومیہ دیا جائے؟یہ اجرت بہت کم ہے۔ خاص طور پراس صورت میں جب اس اجرت کی قیمت پیپلز پارٹی کی قیادت نہ صرف شہرت اور دولت بلکہ اقتدار کی صورت میں بھی حاصل کر رہی ہو۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو مذکورہ مارچ کے بعد سندھ میںگورنر راج نہ لگنے کی یقین دہانی بھی مل گئی اور اس نے اپنی پارٹی کو متحرک بھی کیا اس کوملکی سطح پر شہرت بھی حاصل ہوئی مگر سوال یہ ہے کہ جس مارچ کا بوجھ ہر طرح سے سندھ نے اپنے کندھوں پر اٹھایا تھا،اس مارچ سے سندھ کے عام لوگوںکو کیا ملا؟ وہ لوگ جو اسلام آباد تک سفر کرکے لوٹ آئے،ان کو کیا حاصل ہوا؟ ایک ہزار یومیہ کی وہ دہاڑی جو کسی طور پر انصاف بھری نہ تھی۔ سندھ کے لوگوں کا وہ سفر کس طرح سے تاریخ کے تبصرے میں آئے گا؟ وہ سفر جس کی کوئی سمت نہیں ۔ وہ سفر جس کی کوئی منزل نہیں۔ وہ سفر جس کا کل حاصل ایک ہزار روپیہ یومیہ تھا۔