شیخ الاسلام حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے780واں عرس مبارک کے موقع پرزائرین کو سہولیات فراہم نہیں کی گئیں، ان کیلئے رہائش ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ، محکمہ اوقاف کی طرف سے دربار پر زائرین کی رہائش کیلئے ایک بھی کمرہ نہیں اور نہ ہی کوئی باتھ ہے جس کے باعث مرد تو کیا سندھ اور دوسرے علاقوں سے آئی ہوئی خواتین مستورات کوجو مشکل پیش آتی ہے وہ بیان سے باہر ہے ۔ تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ عرس کے موقع پرکئی دن کیلئے تعلیمی ادارے بند کرا کر وہاں زائرین کو رہائش دی جاتی ہے اس سے بچوں اور بچیوں کا سخت تعلیمی نقصان ہوتا ہے ۔قدیم قلعہ ملتان جہاں حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی اور دوسرے بزرگان کے مزارات ہیں ، وہاں تجاوزات کی بھرمار ہے ، دمدمے کے ساتھ ایس ٹی این کو جگہ دی گئی ، ٹیلیفون کا کھمبا نصب کرایا گیا ، سٹیڈیم اور پولیس اسٹیشن بنوایا گیا ،مگر زائرین کیلئے اقامت گاہوں ، واش روم ، لائبریری ، میوزیم ، کانفرنس ہال ، سہولتوں کا فقدان ہے، زائرین کو سہولتوں کے حوالے سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حضرت بہاؤ الدین زکریا ؒ کا سب سے بڑا حوالہ علم دوستی ہے ۔ یہ خبر پڑھ کر بہت افسوس ہوا ہے کہ زائرین کیلئے محکمہ تعلیم کے ادارے، جن میں سکول و کالج شامل ہیں ، خالی کرا لئے گئے ۔ تعلیم کے حوالے سے ایک ایک پل قیمتی ہے۔ آج اگر یورپ پوری دنیا پر راج کر رہا ہے تو اپنے تعلیمی اداروں کی وجہ سے ۔ اگر یورپ میں ایک ہزار سال پہلے قدیم یونیورسٹیوں کے حوالے ملتے ہیں تو سرائیکی وسیب بھی اس سے پیچھے نہ تھا مگر وہ سب کچھ ہو چکا ہے۔ جب تک وسیب کی عظمت رفتہ بحال نہیں ہوگی ، ہم اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔ آج وسیب کے لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ وسیب کا ورثہ ہے ۔ حضرت بہاؤ الدین زکریا سئیں کو علم سے کتنی محبت تھی ؟کہ ملتان کو علم کا مرکز بنا دیا ۔ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کی اقامتی یونیورسٹی مدرسہ بہائیہ ملتان میں بنگال ، آسام ، انڈونیشیا ، تاجکستان ، غزنی ، فارس ، روم ، برما ، ترکی اور عرب سے طلبہ پڑھنے کیلئے آتے تھے۔ کشمیر کے حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدان سری نگر نے حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ کے مدرسے سے فیض حاصل کیا۔اسی طرح آپؒ کے رفقاء حضرت بابا فرید الدین ؒگنج شکر، حضرت سید جلال بخاریؒ ‘ حضرت شہباز قلندر ‘ ؒحضرت شاہ جلال سلہٹیؒ بنگلہ دیش ‘ حضرت امیر خسروؒ، حضرت نظام الدین اولیاء ؒبھارت، حضرت شیخ سعدی، حضرت فخر الدین عراقی ؒ ایران و دیگر نے پوری دنیا میں علم کا نور پھیلایا ۔مدرسہ بہائیہ کی بہت بڑی لائبریری تھی ، جن میں سے بہت سی کتابیں آبِ زر سے لکھی گئی تھیں ، آج صورتحال یہ ہے کہ دربار کے ساتھ نہ تو مدرسہ ہے اور نہ ہی لائبریری ، آج ایک بار پھر لائبریری قائم کرنے اور ملتان کو علمی مرکز بنانے کی ضرورت ہے ۔ تاریخی ‘ ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے ملتان اتنا بڑا ہے کہ اس کی تاریخی قدامت میں پاکستان ہندوستان تو کیا پورا جہان سما سکتا ہے۔ بلاشبہ یہ ایسا خطہ تھا جس پر بغداد اور دمشق والے بھی رشک کرتے تھے مگر آج معاشی معاشرتی اور تعلیمی لحاظ سے اس خطے کی یہ حالت بنا دی گئی ہے کہ یہاں کے لوگ دوسرے شہروں کے ’’ محتاج محض ‘‘ بن کر رہ گئے اور وہ ملتان جس کے بارے میں حضرت داتا گنج بخش نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں خود لکھا ’’ لاہور یکے از مضافات ملتان است ‘‘ آج اسی ملتان کو لاہور کا مضافات بنا دیا گیا ہے، تقسیم سے پہلے ملتان پہلے نمبر پر تھا، پھر شہروں کی فہرست میں دوسرے تیسرے اور گذشتہ مردم شماری میں پانچویں نمبر اور موجودہ مرم شماری میں سات نمبر پر پہنچا دیا گیا، اسی طرح ملتان ڈویژن سے پہلے لائل پور ٹوبہ جھنگ اور اوکاڑہ لئے گئے ، اب ساہیوال پاکپتن بھی لے لیا گیا۔آج ملتان محض دو تحصیلوں کا ایک ضلع ہے۔ سوال یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کی سیاست میں بڑے بڑے نام آج کی سیاست میں موجود ہیں ‘ وہ نسل در نسل اقتدار کا حصہ بھی بنتے آ رہے ہیں ‘ کیا ان کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ملتان کی عظمت رفتہ کو بحال کرائیں ۔ آج حکومت کرتار پور راہداری کھولنے کیلئے بے چین ہے ، اسے قدیم ملتان دہلی روڈ بحال کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا کہ یہ راہداری سو فیصد پاکستانیوں کے مفاد میں ہے کہ اسے حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی اور حضرت نظام الدین اولیاء کے زائرین کا راستہ قرار دیا جاتا ہے ،جبکہ کرتار پور راہداری صرف اور صرف سکھوں کے فائدے کیلئے ہے ۔درگاہ عالیہ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی کے پاس وزارت خارجہ کا اہم منصب ہے ، کو ہندوستان سے مذاکرات کر کے ملتان دہلی روڈ اور امروکا بٹھنڈہ بارڈر جو کہ خواجہ نور محمد مہارویؒ اور حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ کے زائرین کا راستہ ہے، کھلوانا چاہئے ۔ یہ راستے مسلمانوں اور پاکستانیوں کے فائدے کیلئے ہیں۔ جب عرس شروع ہوتا تھا تو ہم مطالبات کرتے تھے کہ زائرین کو سہولتیں دی جائیں مزارات کے مسئلے حل کئے جائیں ۔ وسیب کو اس کے حقوق ، اس کی پہچان اور اس کا صوبہ دیا جائے ، آج جب دربار عالیہ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی بر سر اقتدار ہیں ۔ وزارت عظمیٰ اور پنجاب کے ساتھ خیبرپختونخواہ کی وزارت اعلیٰ تحریک انصاف کے پاس ہے،یہ اقتدار ان کو ملا بھی سرائیکی ووٹوں سے ہے ۔اگر آج بھی کچھ نہیں ہوا تو ذمہ دار کون ہے؟ آج مرکز میں نواز شریف نہیں اور صوبے میں شہباز شریف نہیں ،نواز شریف اور شہباز شریف نے ان کا ہاتھ بھی نہیں پکڑا ہوا کہ آپ سرائیکی وسیب کے کام نہ کریں ، زائرین کو سہولتیں نہ دیں ۔ سوال یہ ہے کہ کس سے فریاد کریں اور کس کو دہائی دیں ۔ خدارا مخدوم شاہ محمود قریشی اور دوسرے اکابرین اس طرف توجہ کریں ورنہ وسیب کو ملنے والے طعنوںکے’’ تحائف ‘‘میں ایک اور طعنے کا اضافہ ہوجائے گاکہ بر سر اقتدار آنے کے باوجود وسیب کے سیاستدان کام نہیں کراتے تو کسی اور کو دوش کیوں؟