حافظ محمد اقبال خان لنگاہ المعروف ابن کلیم احسن نظامی کا خطاطی کی دنیا میں بہت بڑا نام ہے ۔ خطاطی کا فن آپ کو ورثے میں ملا ۔ آپ کے والد محترم محمد حسن خان لنگاہ کلیم رقم بھی اپنے وقت کے بہت بڑے خطاط تھے ۔ مرحوم ابن کلیم کے بعد ان کے صاحبزادے بھی خطاطی کے فن سے وابستہ ہیں اور پاکستان کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک میں بھی ملک اور وسیب کا نام روشن کیا ۔ ’’ ملتان دی روایتی خطاطی ‘‘ محترم ابن کلیم کا تحقیقی مقالہ ہے جو ان کو بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کی طرف سے 2011ء میں ریسرچ ورک کے طور پر ملا ۔ ابن کلیم نے اس مقالے کو بڑی محنت کے ساتھ مکمل کیا پر یونیورسٹی نے اسے شائع نہ کیا حالانکہ اُس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی 3 کروڑ روپے کی کثیر رقم سرائیکی تحقیق اور سرائیکی کتابوں کی طباعت و اشاعت کیلئے دی تھی ۔ ابن کلیم مرحوم نے مجھے کہا کہ پہلے بھی آپ نے میری کتاب ’’ دلی یاترا‘‘ چھاپی ، یہ مقالہ بھی چھاپ دیں ، انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ہمیں جھوک سے محبت ہے اور ہم جھوک کے مالی حالات سے اچھی طرح واقف ہیں پر آپ جہاں دوسری قربانیاں دے رہے ہیں یہ کام بھی کریں ۔ میں نے ان کے ساتھ وعدہ کیا مگر ابن کلیم سے زندگی نے وفا نہ کی اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے ۔اب یہ کتاب شائع ہو گئی ہے تو مجھے خوشی ہے کہ مرحوم دوست کے ساتھ ہوا ایک وعدہ پورا ہوا ۔ فن خطاطی مسلمانوں کا عظیم ورثہ ہے ۔ ہمارے آئمہ کرام ، صوفیا کرام اور سلاطین وقت نے بھی اس فن کا حصول باعث توقیر جانا ۔ وسیب بھی فن خطاطی کا مرکز رہا ہے مگر ہمیشہ حملہ آوروں کی زد میں رہ گیا ، جس کی وجہ سے تاریخی نوادرات محفوظ نہیں رہ سکے ، پھر بھی میں ابن کلیم کو خراج پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے بچا کھچا بہت سارا ترکہ محفوظ کر دیا ۔ ابن کلیم نے مخطوطات کے ساتھ ساتھ خطاطی کی تاریخ بھی لکھی ۔ ان کو فن خطاطی سے جنون کی حد تک عشق تھا ۔ کوئی بھی بڑا کام عشق کے بغیر نہیں ہوتا۔ 1997ء میں تیسری انٹرنیشنل سرائیکی کانفرنس میں ہم اکٹھے تھے ، نئی دہلی میں دیکھا کہ وہ سرائیکی کے ساتھ ساتھ فن خطاطی کے ساتھ وابستہ اداروں کو بھی مل رہے ہیں اور خطاطی کی کتابیں ڈھونڈ رہے تھے ۔ اس سے پہلے 1980 اور 1982ء میں دہلی میں خطاطی کی نمائش میں شریک ہوئے اور تعریفی اسناد اور اعزازات حاصل کر چکے ہیں ۔ یاد ماضی عذاب ہے یا رب کے مصداق بھولی بسری یادوں کو دہرا رہا ہوں ۔ ابن کلیم کی کتاب میں ایک عنوان ’’ خانوادہ قادریہ دے خطاط ‘‘ کا ہے۔ جہاں بہت سے اور بھی معتبر نام ہیں ، ایک نام سئیں منظور احمد احقرؔ کا ہے۔ یہ وہ نام ہے جنہوں نے دھریجہ نگر کے لوگوں کو کاتب بنایا۔ تفصیل یہ ہے کہ حاجی محنظور احمد احقر کی بہن کی شادی ہمارے چچا جام اللہ ڈتہ دھریجہ کے ساتھ ہوئی ، حاجی صاحب سال میں ایک دو دفعہ دھریجہ نگر آتے ۔ سب سے پہلے دھریجہ نگر کے سئیں غلام یٰسین فخری حاجی منظور احمد احقر کے شاگرد بنے ۔ انہوں نے نہ صرف اردو اور سرائیکی خطاطی میں بہت بڑا نام کمایا بلکہ سندھ جا کے انہوں نے سندھی خطاطی کو بھی عروج بخشا۔ غلام یٰسین فخری بہت بڑے خطاط ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے ادیب ، لکھاری اور ملک کے نامور صحافی بھی تھے ۔ انہوں نے بڑے بڑے اخباروں میں کام کیا اور اپنا سرائیکی رسالہ ’’ سچار‘‘ کے نام سے شائع کرکے سرائیکی ماں بولی کی بہت بڑی خدمت کی ۔ میرے استاد مقبول احمد دھریجہ بھی سئیں منظور احمد احقر سے خطاطی کا کام سیکھا اور آگے اس فیض کو عام کیا۔ میں خود اتنا بڑا خطاط تو نہ بن سکا البتہ بہت سے نوجوانوں کو خطاطی کے میدان میں آنے کی ترغیب دی ۔ ان میں خانپور کے معروف نعت خواں قاری منظور احمد نقشبندی، جاوید قبال ، لطیف غوری اور پروفیسر رئیس نذیر احمد کی خطاطی پر مجھے فخر ہے۔ خانپور کے بہت بڑے صنعتکار چوہدری سلیم بھلر کی محبت کہ وہ مجھے استاد کہتے ہیں ، جب وہ بچے تھے تو لکھائی خوبصورت بنانے کیلئے میرے پاس جھوک خانپور کے دفتر آتے تھے ۔ عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ابن کلیم سئیں اگر یہ باتیں یاد نہ دلاتے تو مجھے دھریجہ نگر کی تاریخ یاد نہ ہوتی ۔ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ حاجی منظور احمد احقر پر ہمیں فخر ہے ۔ وہ صرف قادری یا دھریجہ خاندان کے نہیں سارے وسیب کے محسن ہیں ۔ ان کے بھائی نور احمد ہمراز اور فدا حسین قادری بھی وسیب کا فخر ہیں ۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ دھریجہ نگر کے لوگ بڑے امیر یا جاگیردار نہ تھے ، سارے اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی نہ تھے ، سرائیکیوں کو سرکاری نوکری تو ویسے بھی نہیں ملتی ، اکثر بے روزگار تھے ۔ خطاطی کے میدان میں آنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ بہت سے لوگ طباعت و اشاعت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے ۔ میں دھریجہ نگر کا پہلا آدمی تھا جس نے ملازمت کے بعد سب سے پہلے اپنا چھاپہ خانہ رحیم یارخان میں قائم کر کے دھریجہ نگر کے بہت سارے نوجوانوں اپنے ساتھ کام میں شامل کیا ۔ رحیم یارخان کے ساتھ ساتھ خانپور میں دھریجہ پرنٹرز ، لیاقت میں بھی چھاپہ خانے قائم کئے۔ آج دھریجہ نگر کی آدمی آبادی طباعت و اشاعت اور صحافت کے شعبے سے وابستہ ہے۔ اسکا ثواب یقینی طور پر احقرؔ سئیں کی روح کو مل رہا ہو گا۔ بات ابن کلیم کی کتاب ’ ملتان دی روائتی خطاطی ‘‘ سے شروع ہو کر کہاں سے کہاں چلی گئی۔ میں ابن کلیم کے سارے بیٹوں کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے اپنے والد کے ترکے کو سنبھال کر رکھا اور آج یہ کتاب اشاعت کے قابل ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ابن کلیم کے سارے بیٹوں کو مبارک ہو کہ وہ اپنے والد اور دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خطاطی کے فن کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔ یہ کتاب خطاطی کی تاریخ بھی ہے اور تاریخی حیثیت کی حامل بھی ۔ آنے والے مورخ جب بھی ملتان میں خاطی کی تاریخ لکھے گا تو یہ کتاب رہنمائی اور حوالے کا کام دے گی ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خطاطی کی کتاب مرتب کرنے کی نیکی اور قرآن مجید کے سرائیکی ترجمے کے اجر کے صدقے ابن کلیم کے درجات بلند فرمائے ۔ آمین