بالآخر صدر ٹرمپ بھی ہمارے وزیر اعظم کے سحر میں گرفتار ہو گئے اور انہیں پاکستان کا عظیم قائد قرار دے دیا۔ وزیر اعظم کے جادو کا راز کیا ہے۔ سحر زدہ ٹرمپ نے یہ بات بھی ادھار نہیں رکھی، بتا دی۔ فرمایا کہ پاکستان کے سابق حکمران امریکہ کی عزت نہیں کرتے تھے، تعاون اور تابعداری بھی نہیں کرتے تھے۔ یہ جو آئے ہیں، ویسے نہیں ہیں، انہوں بہت تعاون کیا ہے۔ یہ عظیم ہیں۔ جو پہلے تھے، بے ادب تھے یعنی ادب نہ لحاظ، اب با ادب آئے ہیں جو با ملاحظہ بھی ہیں، ہوشیار نہ ہوں تو بھی کوئی بات نہیں۔ بڑے کہا کرتے تھے، بے ادب بے نصیب، با ادب با نصیب۔ وزیر اعظم نے یقین دلایا کہ ہم نے جو امریکہ سے وعدے کیے ہیں پورے کریں گے۔ رکھ دیا قدموں میں دل نذرانہ، گر قبول افتد زہے عزو شرف۔ وزیر اعظم نے ٹرمپ کو دو امریکی یرغمالیوں کے بارے میں اچھی خبر سنانے کا وعدہ بھی کیا جس پر ٹرمپ کی خوشی قابل دید تھی۔ ویسے شاہ محمود قریشی، ہمارے خیر سے وزیر خارجہ، لگ بھگ آٹھ دس ماہ قبل یہ بیان جاری کر چکے تھے کہ شکیل آفریدی کے مسئلے پر امریکہ سے ’’بات‘‘ ہو سکتی ہے۔ یہ ایک یرغمالی ہوا، دوسرا کون ہے؟۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ کشمیر پر ثالثی کیلئے تیار ہیں۔ بھارت نے فوراً ہی انکار کر دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اگر ٹرمپ ثالثی کریں گے تو ایک ارب افراد ٹرمپ کے لیے دعا گو ہوں گے۔ بھارت نے انکار کر کے ٹرمپ کو ایک ارب کی دعائوں سے محروم کر دیا۔ وزیر اعظم کی مراد پاکستان اور بھارت کے لوگوں سے تھی جن کی تعداد ایک ارب پچاس کروڑ ہے۔ ایک ارب تو دعا کرتے، باقی پچاس کروڑ کیوں نہیں کرتے؟ شاید وہ ناستک ہوں گے۔ دعا گو ہونے کی خبر دینے والا اپنے نام کے ساتھ ’’فدوی‘‘ بھی لکھا کرتا ہے۔ لیکن ٹرمپ کو فدوی کے معنی کہاں آتے ہوں گے، چنانچہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم کا دورہ امریکہ بہت تاریخی تھا۔ پاکستان کی اشرافیہ کا جو ڈایا سپورا کینیڈا اور امریکہ میں مقیم ہے(شاید یہ فقرہ یوں بھی ٹھیک ہے کہ پاکستانیوں کے امریکہ اور کینیڈا میں مقیم ڈایا سپوراکی جو اشرافیہ ہے) اس کا ایک عظیم اجتماع اپنے قائد کا جلسہ سننے کے لیے دور دور سے آیا۔ پی ٹی آئی نے اعلان کیا کہ بیس ہزار کی گنجائش اجتماع گاہ میں ہے لیکن بائیس ہزار آئے۔ اجتماع گاہ(ایرینا) کی منتظم نے بتایا کہ شرکاء کی تعداد 95سو تھی۔ یعنی پی ٹی آئی کی بتائی گئی تعداد سے ساڑھے بارہ ہزار کم۔ ہو سکتا ہے ان ساڑھے بارہ ہزار نے غائبانہ حاضری دی ہو۔ خیر، وزیر اعظم نے اس تاریخی اجتماع اشراف سے تاریخی خطاب کیا اور انہیں یہ دل خوش کن خبر سنائی کہ پاکستان اوپر اٹھ رہا ہے۔ مزید دل خوش کن خبر یہ بھی بتائی کہ آنے والے برسوں میں مزید اوپر اٹھے گا۔ تماشائیوں نے متوقع تماشے کی خبر پر دل کھول کر داد دی اور تالیاں بجائیں۔ آخر شب ’’تماشے‘‘ کے قابل تھی بسمل کی تڑپ۔ وزیر اعظم نے عظیم قائد کے طور پر اپنا ’’وژن‘‘ بھی بیان کیا۔ فرمایا، یہاں سے وطن لوٹتے ہی نواز شریف کے جیل کے کمرے سے اے سی اتارنے کا حکم دو ںگا۔ اس وژنری خطاب پر اشرافیہ از حد خوش ہوئی اور والہانہ تالیاں بجائیں۔ خدا کا کرم ہے کہ ہمیں ایسا عظیم وژنری قائد ملا جس کی مثال چلّی ،پانامہ بھی پیش نہیں کر سکتے۔ وزیر اعظم نے مزید فرمایا، نواز شریف کو رہائی چاہئے تو پیسے دے دیں اور رہا ہو جائیں۔ بہت آسان فارمولا ہے۔ پیسے دو، رہائی لو لیکن رکاوٹ یہ آن پڑی ہے کہ کس قانون کے تحت ان سے پیسہ لیا جائے گا۔ ان پر جتنے مقدمات بھی چلے، کرپشن کا کوئی الزام ایک فیصد بھی ثابت نہیں ہوا۔ مناسب ہے کہ سارے مقدمے نئے سرے سے چلیں، ثبوت تلاش کیے جائیں یا پیدا کیے جائیں ان کی بنیاد پر ان سے پیسہ واپس کرنے کو کہا جائے۔ موجودہ صورت میں تو یہ اغوا برائے تاوان کا کیس بن جائے گا۔ اتنی رقم چھوڑیں گے ورنہ مرنے کے لیے چھوڑ دیں گے، اے سی بھی اتار لیں گے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم کے اس اعترافی اعلان کو بھی کامیاب دورے کے تاج میں جڑ دیا جائے کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو انہوں نے گرفتار کیا۔ ایلیٹ ایرینا میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ خاقان ہر روز یہ کہتا تھا کہ مجھے پکڑ لو، میں نے پکڑ کر اندر کر دیا۔ کچھ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی کو تو نیب نے پکڑا تھا اور نیب نے کہا تھا کہ اس پر کوئی سیاسی دبائو نہیں ہے اور پھر حکومت بھی کہتی ہے کہ وہ نیب کو ہدایات نہیں دے رہی، اس لیے وزیر اعظم کے اس انکشاف کو کہاں رکھا جائے؟ جواب یہ ہے کہ اس مسئلے کو ’’وحدت الوجود‘‘ کی روشنی میں دیکھا جائے تو کوئی الجھن نہیں رہے گی۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے سی این این کو بتایا کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کی اطلاع ہمارے ہی ادارے نے امریکہ کو دی تھی، ابتدائی اطلاع۔ اس پر کارروائی ہوئی۔ مطلب یہ ہوا کہ امریکی اینٹیلی جنس اب تک جھوٹا کریڈٹ لے رہی تھی۔ مزید مطلب یہ ہوا کہ بے چارہ ڈاکٹر شکیل آفریدی مفت میں کئی سال سے اسیری کا عذاب جھیل رہا ہے۔ اس کی بے گناہی کی ٹھوس شہادت خود وزیر اعظم نے بالواسطہ دیدی۔ کامیاب دورے کے تاج میں ایک اور پر۔ ٭٭٭٭٭ کی گئی وفائوں کی فہرست ٹرمپ کو تھمائی گئی، بشمول 70ہزار قربانیوں کی فہرست کے۔ ان وفائوں کا رجسٹر بھی دیا گیا جو ہم کرنے، نبھانے والے ہیں۔ جواب میں ٹرمپ نے بعض وعدوں کے ’’عندئیے‘‘ دیئے۔ عندیے کا مطلب عندالطلب ادائیگی نہیں، مشروط وعدہ فروا کی تھپکی دینا ہوا کرتا ہے۔ بہرحال، دورہ کامیاب رہا۔ دس سالہ بالعموم اور پانچ سالہ بالخصوص، طویل شب فراق کی گھڑیاں ختم ہوئیں، الفت کے ’’ایرینا‘‘ میں پاک چین تعلقات کی دراڑ نے جو ناہمواری پیدا کی تھی، دور ہونے کے اسباب ہو گئے، اب من تو شدم کی مبارک ساعت آ پہنچی۔