وزیراعظم عمران خان نے پنجاب کے ترقیاتی پیکیج پر عملدرآمد سے متعلق ویڈیو لنک اجلاس سے خطاب میں ترقیاتی منصوبوں کی مسلسل نگرانی کا نظام تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم نے تمام ضلعی و متعلقہ محکموں کے افسروں کو منصوبوں کی بروقت تکمیل کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کے لیے صحت مند تفریحی مواقع پیدا کرنے کے لئے کھیل کے میدان بنانے کا کہا۔ وزیراعظم کے خطاب میں ماحولیاتی تحفظ کو اولین ترجیحات میں شامل بتایا گیا۔ تعمیر و ترقی کے منصوبوں کی تیاری اور ان پر عملدرآمد کی پوری تاریخ ہے ۔وزیر خزانہ ملک غلام محمد نے سوویت یونین کے پنج سالہ منصوبے سے متاثر ہوکر پاکستان کا پہلا پنج سالہ منصوبہ اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو 1948ء میں پیش کیا تھا۔ان کی منظوری کے بعد 1950-55 کا پہلا ترقیاتی پروگرام شروع کیا گیا۔اس کا مقصد صنعتی عمل کو تیزکرنا اور بینکاری اور مالیاتی سروسزکو وسعت دینا تھا۔۔سوویت یونین میں سارے ترقیاتی کام مرکزی منصوبہ بندی کے تحت ہوتے تھے،اسی روح اور خلوص کے ساتھ بانیان پاکستان نے منصوبہ بندی کی جو جلد ہی مفادات کے کھیل میں تبدیل ہو گئی۔ ٭پہلا پنج سالہ منصوبہ 1955-60 ئ۔یہ پروگرام منصوبہ بند ترقی کا سیلانی آغاز کہلاتا ہے۔ ٭دوسرا ترقیاتی منصوبہ-65 1960ء اسے ’فنکشنل عدم مساوات‘ میں تجربہ کرنا کہتے ہیں۔ ٭تیسرا پنج سالہ منصوبہ 1965-70 ئ، غیر معمولی واقعات کا اسیر۔ ٭چوتھا پنج سالہ منصوبہ1970-75 ئ: شروع سے ہی نان اسٹارٹر۔ ٭پانچواں پنج سالہ منصوبہ۔1978-83 ء : درمیانی مدت کی منصوبہ بندی کی طرف واپسی۔ ٭چھٹا پنج سالہ منصوبہ۔ 1983-88 ء : عوام کی ترقی، عوام کی طرف سے، عوام کے لی۔ ٭ساتواں پنج سالہ منصوبہ: 1988-93 ء :طویل المیعاد وڑن کا نقیب۔ ٭آٹھواں پنج سالہ منصوبہ: 1993-98ء کے نام سے تیار کیا گیا۔ 2004میں قومی منصوبہ بندی کمیشن نے پانچ سالہ منصوبہ بندی کو وسط مدتی ترقیاتی فریم ورک کا نام دیا۔ اس مجموعی صورتحال کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میںملک میں جامع طویل المدتی منصوبوں کا نہ ہونا یا ان پر موثر انداز میں عمل درآمد نہ ہونے کو ایک المیہ قرار دیا ہے۔ تحریک انصاف نے اقتدار کے پہلے تین برسوں کی نسبت رواں سال کے لیے ترقیاتی منصوبوں کے لیے خطیر رقم مختص کی ہے۔ محرومی اور پسماندگی کے شکار بلوچستان میں 131 ایسے منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں جو صحت‘ تعلیم‘ آبپاشی‘ صاف پانی کی فراہمی‘ شاہراہوں کی تعمیر اور روزگار کی فراہمی سے متعلق ہیں۔ وفاقی حکومت نے پبلک سیکٹر‘ ڈویلپمنٹ پروگرام میں سی پیک کے تحت منصوبوں کے لیے 87 ارب روپے مختص کئے ہیں‘ سی پیک کے مغربی روٹ کے لیے 42 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ دھابیجی‘ رشکئی‘ فیصل آباد اور بوستان سپیشل اکنامک زون کے قیام کے لیے 7 ارب روپے فراہم کئے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے چشمہ رائٹ بینک لفٹ کنال‘ سخاکوٹ گیس منصوبے‘ اورکزئی سیاحتی مرکز‘ پشاور کے تاریخی مقامات کی مرمت‘ دل کے سٹنٹ اور وینٹی لیٹر کی تیاری‘ پولیس اصلاحات‘ مقدمات کے ریکارڈ کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال سمیت متعدد منصوبے شروع کئے‘ ریپڈ بس جیسے کچھ منصوبے تاخیر سے مکمل ہوئے۔ سندھ‘ کے پی کے اور بلوچستان میں متعدد منصوبوں پر کام جاری ہے جن میں نئے ڈیموں کی تعمیر‘ ایٹمی بجلی گھر کی تنصیب اور شجرکاری کے منصوبے شامل ہیں۔وزیراعظم جس اجلاس سے خطاب فرما رہے تھے اس میں وزیراعلیٰ پنجاب اور پنجاب میں معاشی بحالی و تعمیروترقی کے لیے تعینات ماہرین موجود تھے۔ رواں سال بجٹ میں کئی سو ارب روپے ترقیاتی کاموں کے لیے رکھے گئے ہیں۔ منصوبوں کی نوعیت سے وزیراعظم آگاہ ہیں لیکن مسئلہ شفافیت اور گڈگورننس کا ہے۔ پھر یہ جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ جو منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں کیا وہ ماضی کی حکومتوں کی نمائشی پالیسی کے مطابق ہیں یا حقیقت میں عام شہری کی زندگی پر ان کے اثرات خوشگوار ہو سکتے ہیں۔سابق ادوار خصوصاً مسلم لیگ ن کے عہد میں ترقیاتی منصوبوں کو چند بڑے شہروں تک محدود کردیا گیا۔ بڑے شہروں میں تعلیمی سہولیات فراہم کی گئیں‘ صحت کے مراکز بنائے گئے‘ سڑکیں‘ پل‘ انڈر پاس‘ جدید ٹرانسپورٹ اور صنعتیں قائم کی گئیں۔ سٹیڈیم او رگرائونڈ بنائے گئے۔ خرابی یہ ہوئی کہ ان منصوبوں کی تیاری کے دوران قانونی ضابطوں کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ منصوبوں کی تعمیر کے دوران ماحولیات کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ نہ لگایا گیا‘ اخراجات اور بجٹ میں غیر شفافیت رہی۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً تمام اہم سیاستدانوں کے خلاف ترقیاتی منصوبوں میں بدعنوانی کے مقدمات چل رہے ہیں۔پی ٹی آئی حکومت نے چونکہ شفافیت پر زیادہ توجہ دی ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ منصوبوں کے لیے رقوم اس قدر احتیاطسے جاری کی جاتی ہیں کہ اس سے تعمیراتی کام سست روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ پہلے عدم شفافیت کا مسئلہ ہوتا تھا اب سست روی دکھائی دینے لگی۔ حالیہ بجٹ میں لاہر شہر میں ایک انڈرپاس‘ دو فلائی اوور اور ایک بڑے ہسپتال کی تعمیر ہورہی ہے۔ تحریک انصاف صاف چلی شفاف چلی کا نعرہ لگاتی رہی ہے‘ امید کی جاتی ہے کہ عوامی خزانہ خرچ کرتے ہوئے متعلقہ حکام دیانتداری کے تقاضے ملحوظ خاطر رکھیں گے۔ رہی منصوبوں کی نگرانی کا نظام تشکیل دینے کی بات تو کیا یہ کم المیہ ہے کہ 73 برس گزرنے کے بعد ہم نگرانی کا قابل بھروسہ نظام ترتیب دینے کی بات کر رہے ہیں۔ ایسا نظام جلد بننا چاہیے اور اس طرح وضع کیا جانا چاہیے کہ مستقبل کے منصوبوں کی نگرانی میں دقت پیش نہ آئے۔