یونیورسٹی کے زمانے سے ہمارے دوست طارق پیرزادہ نے سٹوڈنٹس یونین کی بحالی سے متعلق بڑے انگریزی روزنامے کا تراشہ اور بعض دوسری دستاویزات ارسال کی تھیں، آج اپنے تجربات کی روشنی میں اس موضو ع پر لکھنے کا ارادہ تھا مگر وزیراعظم کے دورۂ چین کے تناظر میں بروقت لکھنا بھی ضروری تھا، اس لیے سٹوڈنٹس یونین کے مسئلے کو آئندہ کالم تک اٹھائے رکھتے ہیں۔ 1987ء میں چیئرمین سینیٹ غلام اسحق کی قیادت میں سینیٹ کا ایک وفد چین کے دس روزہ دورے پر ’’بیجنگ ‘‘ پہنچا تو ہماری آمد ورفت کے لیے شاندار کاروں کا پورا فلیٹ، ایک طیارہ اور میزبانی کے لیے ایک نائب صدر ہمہ وقت دستیاب تھے۔ ہمیں چینی بادشاہوں کے عظیم الشان محل میں ٹھہرایا گیا جس کے گرد بانسوں کا جنگل تھا، جب ہم چین کی شاہراہوں پر نکلتے تو ان کاروں کے سوا جن پر ہم سوار ہوتے کوئی کار حتی کہ موٹرسائیکل تک نظر نہیں آتی تھی، سڑکوں پر ان گنت سائیکل سواروں کی قطاریں ، تیز رفتار اور نظم وضبط کے ساتھ رواں دواں ، ہر سائیکل کے پیچھے ’’کیرئیر ‘‘پر ایک ہی طرح کے پتوں کی سبزی رکھی نظر آتی، یہی سبزی ، تھوڑی سی مچھلی اور گرم پانی سب کی غذا تھی، ایک سا لباس ، ایک سے قدوقامت، ایک سی شکل وصورت حتی کہ عورت اور مرد کی پہچان کرنا بھی ہمارے لیے مشکل تھا۔ پورے بیجنگ میں شاید ایک ہی فائیو سٹار ہوٹل تھا جس میں کسی چینی باشندے کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی، غیر ملکیوں کے لیے خریداری کی خاطر ایک کپڑے کی دکان جو مال روڈ لاہور پر بشیر سنز کی دکان سے زیادہ بڑی نہیں تھی، عورتوں کے لیے کچھ خاص نظر نہیںآیا، ریشم کا کپڑا وہ بھی کچھ ایسا زیادہ نہیں تھا کہ ہم خرید سکتے۔ پاکستان کے شاپنگ سنٹرز کے مقابلے میں قطعی بے رونق اور خالی مگر اس دکان پر کوئی چینی خریداری کے لیے قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ وقت کی پابندی ، نظم وضبط ، لباس اور کھانے کی سادگی، چستی ،صحت وتندرستی دیکھ کر ان کے شاندار مستقبل کا ہر کوئی اندازہ لگاسکتا تھا۔ یہ سائیکل سوار قوم گرم پانی پیتی ، پتوں کی سبزی کھاتی ، پیدل یا سائیکل پر میلوں سفر کرتی۔ کوئی بھی اپنے کام اور تعلیم کے مرکز تک دیر سے نہیں پہنچتا تھا۔ ان کے ہسپتال خالی اورکام کاج کے مراکز ، چست اور صحت مند کارکنوں سے بھرے ہوئے تھے۔ نائب صدر جو ہمارے ہمرکاب تھے دوست بن چکے تھے، اپنے اندر اور باہر کی باتیں کھل کر کہنے لگے تھے، ان کی اپنی تنخواہ اسی (80) یوآن تھی، ایک مزدور کی تنخواہ کے برابر، سب سے زیادہ کمائی ٹیکسی ڈرائیور کی تھی، ایمبیسی میں کام کرنے والے چینی ملازمین کو تنخواہ ڈالروں میں ملتی لیکن یہ تنخواہ چینی حکومت وصول کرتی تھی اور ان ملازمین کو بھی اس کے بدلے اسی (80) یوآن ہی دیئے جاتے۔ چینی یعنی شوگر کا استعمال تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا، ناشتہ علی الصبح چھ بجے ، دوپہر کا کھانا بارہ بجے اور رات کا ڈنر چھ بجے کھایاجاتا۔ ہم مہمانوں کو چھتیس سے چالیس کورس کا ڈنرپیش کیا جاتا ، درجنوں مہمانوں کو دو یا تین ویٹر کھانا کھلانے پر مامور ہوتے۔ لیکن ان کی مہارت ، چستی اور ہرمہمان تک بروقت پہنچنا حیرت انگیز تھا۔ ہر کورس بس ایک آدھ چمچ کے برابر ہوتا تھا جو پلیٹ کے ایک کونے میں سما جائے۔ سارے چالیس کھانوں کو اگر ایک ساتھ پلیٹ میں رکھیں تو مشکل سے آدھی پلیٹ بھری جاسکتی ، کھانا ایسا نہیں تھا جیسا ہم کھانے کے عادی ہیں۔وہاں پر وہ چینی کھانا کہیں نظر سے گزرا نہ کھانے کو ملا، جو ہم اپنے ہاں پاکستان یا یورپ میں چینی کھانے کے نام پر کھایا کرتے ۔ ہمارے ہمراہ سرگودھا کے بزرگ سینیٹر خداداد لک بھی تھے، وہ اس کھانے میں سے کچھ بھی نہ کھاسکتے ، دس دنوں کے دورے میں کم از کم بیس پاؤنڈ وزن گنوا بیٹھے، وہ مرکزی میز پر بیٹھنے سے گریز کرتے کہ چینی صدر یا وزیراعظم اور دوسرے معززین کے سامنے کچھ نہ کچھ کھانا پڑے گا۔ اور انہیں خطرہ رہتا ، وہ کچھ بھی نگلنے سے پہلے قے کردیںگے۔ ان کے کھانے کا ذائقہ ہمارے لیے بالکل اجنبی تھا، مرچ ، نمک اور چینی سے پاک۔ سادہ اور زود ہضم۔ چین کے صدر ، وزیر اعظم اور دوسرے میزبان غلام اسحاق سے پہلا سوال کرپشن کے بارے میں کیا کرتے کہ چین میں کرپشن بہت زیادہ ہے ، اس پر کس طرح قابو پایا جائے، پھر فوراً ہی بات بھارت کی طرف مڑ جاتی، چینی صدر کہنے لگے ، بھارت کا طرز عمل بڑا عجیب ہے، وہ کہتے ہیں ’’Mine is mine and your is negotiable‘‘ اس پر غلام اسحاق نے کہا ، نہیں، اس سے بھی کچھ زیادہ ۔ وہ کہتے ہیں کہ: "Mine is mine and your is also mine" پاکستان چین کی دوستی پوری دنیا کے ہر ملک کے لیے ایک منفرد مثال ہے، سات دہائیاں گزرنے پر بھی اس کی تازگی اور گرمجوشی میں کوئی فرق نہیں آیا، کیا حسنِ اتفاق ہے کہ ہمارے دوست اور دشمن بھی بڑی حد تک مشترک ہیں، جو مشترک نہیں تھے وقت کے ساتھ وہ بھی اس مضبوط بندھن کے تسلسل سے متاثر ہوکر قریب آنے لگے۔ برے ،بھلے وقتوں میں ساتھ نبھایا اور خوب نبھایا۔ میاں محمد بخش نے کہا : یاری دا انگ پالن اوکھاجوں سوتر تند کچی اِک کھچے، اِک چھڈی جاوے تاں کوئی سائیت بچی بین الاقوامی امور اور تنازعات میں ہمارے درمیان مکمل ہم آہنگی رہی ہے۔ چین تو خیر بہت وسیع وعریض ملک اور دنیا کی سب سے زیادہ اور گنجان آبادی کی سرزمین ہے جو ہزار زمانوں اور انقلابات سے گزر کر مستحکم ہوچکی ہے۔ مگر اس کے دشمن بھی بہت بڑے اور طاقت، دولت ، ثروت ، قوت اور اثر ورسوخ میں بے مثال ، چین کو گھیرے رکھنے اور پنپنے نہ دینے پر مصر۔ دنیا دو بلاکوں میں تقسیم تھی، کمیونسٹ روس ، سرمایہ دار امریکا۔ کوئی ملک ، کوئی قوم ان سے جدا ہوکر اپنی الگ بستی بسانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی، وہ دونوں چین کو حرفِ غلط کی طرح مٹانے پر تلے ہوئے تھے، ایسے میں کوئی قوم چین کے قریب پھٹکنے کو تیار نہیں تھی، دنیا کی سب سے بڑی آبادی اور قدیم ترین تہذیبوں کے مرکز چین کو اقوام متحدہ کا ممبر تک نہیں بنایا گیا تھا، تائیوان نامی ایک چھوٹا سا جزیرہ چین کے بجائے اقوام متحدہ کا ’’پراکسی‘‘ممبر ہوا کرتا تھا۔ تمام قومیں امریکا اور یورپ کے شہ پر اس کی ناز برداری کیا کرتیں ۔ پاکستان نوزائیدہ مملکت جس کے پاس کوئی معیشت تھی نہ دفاع کے وسائل ۔ وہ مغرب کا محتاج تھا ، اسے زندہ رہنے کے لیے امریکا جیسے مضبوط سہارے کی ضرورت تھی، اپنی کمزوری اور احتیاج کے باوجود پاکستان نے چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا، تائیوان کو اسرائیل کی طرح کبھی تسلیم نہیں کیا۔