کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو تحفظ دینے والی شق 370اور 35اے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کے دو سال بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت نواز کشمیری سیاستدانوں سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات کو اے پی سی کا نام دیا گیا اور اس میں مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ‘ عمر عبداللہ‘ غلام نبی آزاد اور محبوبہ مفتی شامل تھے۔ اس اے پی سی کو اس لحاظ سے ناکام قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس میں بھارت سے آزادی کا مطالبہ کرنے والی حریت کانفرنس کے کسی رہنما کو مدعو نہیں کیا گیا۔ ناکامی کی دوسری دلیل 5اگست 2019ء کے اقدامات پر بھارت نواز کشمیری سیاستدانوں کے تحفظات دور نہ ہونا ہے۔ اس اے پی سی کو اس لحاظ سے ایک مذاق قرار دیا جا سکتا ہے کہ کشمیری باشندے دو برس سے بھارتی سکیورٹی فورسز کے محاصرے میں ہیں۔ محاصرے کی وجہ سے وہ گوناگوں مشکلات کا شکار ہیں لیکن نریندر مودی اور ان کے وزیر داخلہ امیت شاہ نئی حلقہ بندیوں کے سوا کسی معاملے پر بات کرنے کو آمادہ نظر نہ آئے۔ آزادی کے ساتھ ہی کشمیر کو غلام بنانے سے لے کر اب تک ایک طویل جابرانہ تاریخ ہے جو بھارت نے لکھی ہے۔ یہ بھارت ہی تھا جس نے شیخ عبداللہ اور مہاراجہ کشمیر کو وطن کی بنیاد پر قومیت کے جال میں پھنسایا اور باور کرایا کہ وطن سے قوم بنتی ہے‘ قوم سے وطن نہیں بنتا۔ یہ فلسفہ پیش کر کے کانگرسی قیادت دراصل برصغیر کے مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کی نفی کر رہی تھی۔ اس وقت کئی مسلمان سیاستدان کانگرس کے حامی تھے۔ ان سیاستدانوں نے ہندو اور مسلم کی تمیز کے بنا برصغیر کے تمام باشندوں کو ہندوستانی قوم کے طور پر شناخت دینے پر اصرار کیا‘ شیخ عبداللہ اور مہاراجہ کشمیر کو ورغلا کر بھارت سے الحاق پر آمادہ کیا گیا۔ دونوں نے کشمیر کے عوام کی رائے کے برعکس کانگرس کا ساتھ دیا۔ شیخ عبداللہ اور مہاراجہ کشمیر نے کشمیریوں کی خود مختاری کے حوالے سے جو مطالبات پنڈت نہرو کے روبرو رکھے انہیں بھارتی آئین کی شق 35اے اور 370کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا۔ پاکستان نے کبھی الحاق کی اس کارروائی کو تسلیم نہیں کیا اس لئے اس کے لئے یہ آئینی شقیں کبھی اہم نہیں رہیں۔ بھارت کی انتہا پسند مودی حکومت نے جب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کر کے علاقے کی نئی تنظیم سازی کی تو اس کے نتیجے میں جموں و کشمیر الگ ریاست کی بجائے مرکز کے زیر انتظام ریاست یا یونین ٹیریٹری کہلائے گا۔ اس علاقے کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہو گی اور وہاں مرکزی حکومت کا مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنر تعینات ہو گا۔ لداخ کو مرکز کے زیر انتظام ایسا علاقہ قرار دیا گیا ہے جس کی اپنی کوئی اسمبلی نہیں ہو گی۔ بھارت کا منصوبہ یہ ہے کہ لداخ میں ہندو باشندوں کو ملک کے دوسرے علاقوں سے لا کر بسایا جائے۔ نریندر مودی اور امیت شاہ نے اے پی سی میں جس واحد معاملے پر بات کی وہ مقبوضہ کشمیر میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق مشاورت ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ حلقہ بندیاں اس طریقے سے کی جائیں کہ مخصوص علاقوں میں ہندو ووٹر اکثریت میں ہوں۔ بھارت حلقہ بندیوں کے معاملے پر الگ جبر کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ بھارتی آئین کے تحت 2026ء سے پہلے نئی حلقہ بندیاں نہیں ہو سکتیں۔ مودی حکومت نے گزشتہ برس آسام میں جب مرضی کی حلقہ بندیوں کی کوشش کی تو اسے مقامی سطح پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب مودی اسی آئینی خلاف ورزی کو مقبوضہ کشمیر میں متعارف کرانے کی کوشش میں ہے تاکہ کشمیر کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے بین الاقوامی برادری کو دھوکہ دیا جا سکے۔ بھارت اس طرح کے منصوبے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کئے گئے استصواب رائے کے وعدے کے متبادل کے طو پر بروئے کار لانے کا خواہاں ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کشمیر کے متعلق بھارت کے عزائم کسی لحاظ سے خیر پر مبنی نہیں۔اہل کشمیر اور پاکستان کو 370کی نسبت شق 35اے کے خاتمہ پر تحفظات ہیں۔35اے میں یہ ضمانت دی گئی کہ کسی غیر ریاستی باشندے کو کشمیر کی شہریت نہیں دی جا سکتی‘ اسی لئے غیر مقامی افراد کو کشمیری ڈومیسائل جاری کرنے پر پابندی رہی‘ اس شق کے تحت کوئی غیر مقامی فرد کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا۔کسی غیر مقامی کو کشمیر میں ووٹ کا حق نہیں دیا جا سکتا۔مودی حکومت نے آئین کی شق 35اے کو ختم کر کے کشمیر کی تسلیم شدہ متنازع حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ دو سال کے دوران سینکڑوں افراد کو بھارت کے مختلف علاقوں سے لاکر کشمیر میں آباد کیا گیا ہے۔ کشمیریوں کے خلاف مسلسل آپریشن ہوئے ہیں۔ نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے‘ کشمیریوں کی املاک کو نذر آتش کیا جا رہا ہے‘ باغات کو کاٹا جا رہا ہے اور دکانوں کو منہدم کرنے کی پالیسی اختیار کر کے روزگار تباہ کئے جا رہے ہیں۔ دنیا میں بھارتی جبر اور کشمیریوں کے استحصال کے خلاف رائے عامہ بیدار ہو رہی ہے‘ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل ‘ ہیومن رائٹس کمشن‘ یورپی یونین کا کمیشن برائے انسانی حقوق‘جینو سائیڈ واچ‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور او آئی سی بھارتی افواج کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق متعدد رپورٹس جاری کر چکی ہیں۔ افغانستان کی بدلتی صورت حال اور امریکی رویے میں تبدیلی نے مودی حکومت کو مجبور کیا ہے کہ وہ پاکستان سے کشمیر پر مذاکرات کا سلسلہ بحال کرے۔ مودی مذاکرات سے قبل کشمیر کا معاملہ اس حد تک الجھا دینا چاہتے ہیں کہ مذاکرات میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی بجائے مودی حکومت کے اقدامات زیر بحث رہیں۔ مودی کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کی منصوبہ بندی کے لئے اے پی سی جیسے اقدامات کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔