شدھی تحریک بھارت میں رہنے بسنے والی اقلیتوں سے تمام وابستگان بالخصوص بھارت میں رہ رہے مسلمانوں کوہندو بنانے اور انہیںہندو مت میں داخل کرانے کی تحریک ہے۔ اس شرمناک تحریک کو آج ’’ گھر واپسی تحریک کہا جاتا ہے‘‘ شدھی سے مراد کہ ہندوستان میں جن لوگوں کے باپ دادا نے کلمہ شہادت پڑھ اسلام قبول کرلیاتھااورمسلمان ہو گئے تھے انہیں دوبارہ شدھی یعنی پاک کر کے ہندو بنایا جائے۔بھارتی مسلمانوں کو ویدک دھرم قبول کرنے کی دعوت دینا اور ہندئووں میں خودی اور خود اعتمادی کی روح پھونکنا اس تحریک کی بنیادی غرض وغایت ہے۔شدھی تحریک متعصب ہندو سوامی دیانندا سرسوتی اور اس کے شاگرد سوامی شردانند کی جانب سے 1920 میں شروع کی گئی تھی۔ اس تحریک کے تحت غیر ہندو بالخصوص مسلمانوں کو جبری طور پر اپنا مذہب تبدیل کرکے ہندو مت میں داخل کرانا تھا۔ انڈیا میں شدھی تحریک کے بانی سوامی شردھانند کو ایک ہیرو کی حیثیت دی جاتی ہے اور انڈین گورنمنٹ نے ان کے ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہندئووں کا اسلام کی طرف مائل ہونا اور پھرمشرف بااسلام ہونا ایک عام رجحان بن گیا تھا، اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے شدھی تحریک نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ پھرسوامی شردھانند نے 1923 میں بھارتیہ ہندو شدھی مہاسبھا کی بنیاد ڈالی۔ اس کا بنیادی ایجنڈا ان لوگوں کا جنھوں نے اسلام قبول کیا تھا اپنے آبائی مذہب یعنی ہندوازم کی طرف واپس لانا تھا۔ وہ یہ بھی سمجھتے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے موروثی مذہب سے بھٹکے ہوئے ہندو ہیں۔ لہذا ان کو کسی بھی قیمت پر اپنے موروثی مذہب کو قبول کروانا ہے۔ 1928 میںشدھی تحریک کے بانی شردھا نند نے کھلے طور پراسلام کے عقائد اور اس کی تعلیمات پر ہتک آمیز اوربے جا اعتراضات والزامات چسپاں کیے۔ اور اس کے علاوہ اسلام کے عالم گیر پیغام اور احکامات کو دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کا ایک بڑا ذریعہ قرار دیا اوراسلام کو امن وامان کے لیے خطرہ ٹھہرایا گیا ۔ شدھی تحریک کا دوسرارخ سنگٹھن تحریک ہے۔ جس کا بنیادی مقصد ہندئووں کو ایسی تعلیم و تربیت سے روشناس کرانا کہ وہ اپنی حفاظت ،تعلیم و تربیت، نظم و نسق کرنے کے ساتھ ساتھ مخالفین کا اچھی طرح سے مقابلہ کر سکیں۔سنگٹھن تحریک کا بانی انتہا پسند پنڈت مدہن مالویہ تھا جس کا مقصد ہندوستان کو مکمل طورپر ہندوبناناہے۔اس حوالے سے پہلے مسلمانوں کو ہندو ’’شدھی ‘‘بنانااگر وہ نہ مانیں توا نہیں سنگٹھن یعنی قتل کر نا تھا۔سنگٹھن تحریک کا مقصد ہندئووں کو منظم اور ایک جنگجو فورس تیار کرکے مسلمانوں سے جنگ کرنا تھا۔ شدھی اور سنگٹھن تحاریک کی ترغیب پر مہاسبھا بھی سیاست میں ملوث ہو گئی جس نے مسلم دشمنی میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ سنگٹھن پارٹی مسلم دشمنی میں اس حد تک آگے بڑھی کہ اس نے اعلان کر دیا کہ مسلمان ہندوستان میں غیر ملکی ہیں اگر واپس جانا چاہیں تو بہتر اور اگر ہندوستان میں رہنا چاہیں تو انہیں ہندومت قبول کرنا ہوگا۔بھارت کے طول وعرض کے شہروں اور دیہاتوں میں سنگٹھن تنظیم کے مراکز بنائے گئے جہاں انتہا پسند ہندو نوجوانوں کو مسلمانوں کے خلاف منظم کرنے کے لیے ورزشوں، لاٹھی، خنجر، تلوار اور بندوق استعمال کرنے کی تربیت دی جانے لگی ۔شدھی اورسنگٹھن کے عزائم خبیثہ بھانپ کراوراسکے خوفناک چہرے ،مہرے کودیکھ کرہی برصغیرکے مسلمانوں کے فہم وبصیرت کے حامل لیڈر قائداعظم محمد علی جناح ؒنے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن پاکستان کے قیام کااعلان کردیااوررب العالمین نے ان کی مددفرمائی اوراس طرح پاکستان کاقیام عمل میں آیا۔ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد شدھی اورسنگٹھن کااحیاہوا،اور2014سے تواترکے ساتھ یہ بات کہی جارہی ہے کہ’’ ہندوستان میں رہناہوئے جے شری رام کہناہوگا‘‘ مودی کے اقتدارپربراجمان ہونے کے بعدبڑے زور و شور سے بھارتی مسلمانوں کے خلاف حصار بندی کی مضبوطی شروع ہوئی اوران کاقافیہ حیات مذید تنگ کردیاگیا۔صدیوں سے بھارت میں رہ رہے بھارتی مسلمانوںکوگائے ذبیحہ کے شک پر قتل کیاجاتارہا۔ان سے ان کی شہریت سے متعلق دستاویزی ثبوت مانگاجانے لگا۔ان سے صاف صاف کہاجانے لگا کہ تم درانداز ہویہاں سے دفع ہوجائو۔ مسلمانوں کو سماجی بائیکاٹ کی طرف دھکیلاگیاہے۔جس سے اس بات میںکوئی ابہام باقی نہ رہ سکاکہ مودی کی سرپرستی میں ایک بارپھر شدھی اورسنگٹھن تحریکیں زندہ ہوگئیںاوراس طرح بھارتی مسلمانوں کے خلاف ارتداد کی ایک زورداراورخوفناک لہرچل پڑی ہے۔ ’’لوجہاد‘‘ کی بے ہودہ اصطلاح گڑی گئی اورکہاجارہاہے کہ مسلمانوں نے بھارت میں ایک نئے قسم کاجہاد شروع کر رکھاہے، جس کے ذریعہ وہ پورے بھارت کو اسی طرح ہڑپ کر لینا چاہتے ہیں، جس طرح مغل سلاطین نے اس ملک کی ہندو اکثریت کو دبوچ لیاتھا۔ایک طرف بھارت کے مسلمانوں کی یہ المناک اورکربناک صورتحال ہے بے ہودہ باتوں کی آڑ میں ان پرظلم کاشکنجہ کساجارہاہے تودوسری طرف المیہ یہ ہے کہ ان بے بس مسلمانوں کی کوئی ایسی قیادت دستیاب ہی نہ ہوسکی جوانہیں سراٹھاکر بھارت میں جینے کے لئے حوصلہ دے سکے ۔قیادت کے نام پرجودستیاب مال ہے ،ان میں بانت بانت کی بولیاں ہیں وہ ایک دوسرے پراعتماد کرنے کے لئے تیار ہی نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف زبان طعن دراز کئے ہوئے ہیں۔اس دستیاب مال میں سے کوئی بھی جاندار آواز کے ساتھ مسلمانان بھارت کے خلاف شدھی اورسنگٹھن تحریکوں کے احیاکے خلاف بات تک نہیں کرتا۔