بھارتی کسان25 نومبر2020ء سے مودی سرکار کی طرف سے نافذ کردہ زرعی قوانین کو کالعدم قراردینے کا مطالبہ لیکر برسر احتجاج تھے ۔بھارتی کسانوں کی اس ایجی ٹیشن میں ابتک 700کسانوں کی موت واقع ہوئی ہے۔جمعہ 19 نومبر2021ء کو سکھوں کے گرو نانک دیو کے 552 ویں جنم دن کے موقع پر ایک سال سے احتجاج کرنے والے کسانوں کے سامنے مودی نے گھٹنے ٹیک دیئے مگر700کسانوں کی موت کے بعد ۔مودی نے زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا اور احتجاج کرنے والے کسانوں سے گھر واپس جانے کی اپیل کی۔اس موقع پرکسان لیڈر راکیش ٹکیت کاکہنا تھا کہ تب تک کسانوں کی تحریک ختم نہیں ہو سکتی جب تک نہ مودی پارلیمانی کارروائی کے ذریعے اس اعلان کو عملی جامہ نہیں پہناتے ۔کسان لیڈر راکیش ٹکیت کاکہنا تھا کہ پارلیمنٹ سے ظالمانہ زرعی قوانین کی منسوخی سے ہی پتاچل جائے گاکہ مودی کے قول اورفعل میں کوئی تضاد تو نہیں پایاجاتا ۔کسان لیڈرراکیش ٹکیت کاکہنا ہے کہ قانون پارلیمنٹ سے منسوخ ہونے کے بعد ہی وہ احتجاج کی کال واپس لیں گے ۔کسان لیڈر راکیش ٹکیت کے اس اعلان کے بعد مودی اوراس کے گودی میڈیا پرمایوسی کے ایسے سایے چھا گئے کہ میڈیا اب کہہ رہا ہے کہ کسانوں کا یہ احتجاج زرعی قوانین کے خلاف نہیں بلکہ مودی کے خلاف ہے اور اس کے پیچھے اپوزیشن ہے۔ مودی نے جب تک زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان نہیں کیا تھا اس وقت تک تو یہ اینکراوران کے پسند کے بلائے گئے مہمان ہرممکنہ طریقے سے اس کے کسانوں کے مفاد میں ہونے کی دلیلیں پیش کیا کرتے تھے۔ وہ یہ بتاتے نہیں تھکتے تھے کہ اس سے ملک کے زرعی سیکٹر میں انقلاب آجائے گا اور کسانوں کی آمدنی دوگنی ہوجائے گی۔ ہرشام اورہر ٹی وی چینل پر اینکر کسانوں کو یہ مشورہ دیا کرتے تھے کہ کچھ دنوں کے لئے اس قانون کو لاگو ہوجانے دیں، اگر اس سے کسانوں کا فائدہ ہو تو اسے جاری رکھیں ورنہ بعد میں احتجاج کریں۔لیکن کسان خوب سمجھتے تھے کہ ان کے کانوں میں کس کی بات کوڈالاجا رہا ہے اوروہ اس ترغیب سے مطلق لاتعلق رہے اورانہوں نے اپنی تحرک کو بدستور جاری رکھا جب کسانوں کے احتجاج کو توڑنے کے لئے میڈیاکا حربہ کامیاب نہ ہوسکا تواس نے اس تحریک پر خالصتانیوں کا لیبل چڑھادیا۔ لیکن کسان لیڈرراکیش ٹکیت کے اس تازہ موقف سے سب سے زیادہ قابلِ رحم حالت میڈیا کے ان اینکروں کی ہے جو رات دن زرعی قوانین کے فائدے گنوا رہے تھے۔اب انہیں ان قوانین کی واپسی کے فائدے بیان کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ یعنی اب انہیں یہ بتانا ہے کہ یہ قوانین کیوں واپس لئے گئے اور اس میں ملک کا مفاد کس طرح پوشیدہ ہے۔ ایک اینکر نے راکیش ٹکیت سے ایک انٹرویو اس بات پر کرلیا کہ آپ نے یہ کیوں کہہ دیا کہ مودی جی کی باتوں پر آپ کو بھروسہ نہیں ہے تو اس نے جواب دیا میں تو ایک عملی آدمی ہو ں جو باتوں پرنہیں عمل پریقین کرتاہوں۔میڈیا اور بھگتوں کی وہ جھنجھلاہٹ بھی دیکھنے کے قابل ہے جو مختلف ذرائع سے ابل ابل کر باہر آ رہی ہے۔ ان کی یہ جھنجھلاہٹ دیکھ کر ہنسی بھی آتی ہے اورعبرت بھی حاصل ہوتی ہے۔ عقل، ظرف اور ضمیر کو گروی رکھ دینے سے آدمی کس طرح کی کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے؟ یہ اس کے جیتے جاگتے نمونے ہیں۔دوسری طرف کسان لیڈرراکیش ٹکیت کے بیان سے نہیں لگتا کہ کسانوں کی تحریک مکمل طور پر ختم ہو جائے گی کیونکہ کسانوں کے دیگر مسائل ہیں جیسے گنے کی قیمت، یوریا اور کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، بجلی پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمتیں۔ سوال یہ ہے کہ 700 کسانوں کی موت کے بعد مودی کیوں کسانوں کے ساتھ آمادہ بہ صلح ہوا ۔ پنجاب کو الگ ملک بنانے کے لئے جہاں برطانیہ، امریکہ اورکینڈامیں سکھ خالصتان کامطالبہ لئے ہوئے اچانک متحرک ہو گئے ہیں مودی کویہ ڈرلاحق ہوگیا ہے کہ ایسے میں پنجاب کے انتخابات میں خالصتان کی تحریک موقع کا فائدہ اٹھا سکتی ہے اوراگر یہ ہوگیا تو پھر پنجاب میں 80 کی دہائی کے حالات دوبارہ پیدا ہو جائیں گے۔کئی مبصرین کاخیال ہے کہ مودی کے اس فیصلے کے پیچھے اتر پردیش کے انتخابات ہیں۔سی اے ایس ڈی اے کے اعداد و شمار کے مطابق مغربی اتر پردیش میں تقریباً 70 فیصد لوگ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر تناسب کچھ اس طرح ہے کہ یہاںمسلمان 32 فیصد، دلت تقریباً 18 فیصد، جاٹ 12 فیصد اور او بی سی 30 فیصد ہیں۔ان میں سے بی جے پی مسلمانوں کو کبھی اپنا ووٹ بینک نہیں مانتی۔ دلتوں اور او بی سی کو ساتھ لانے کے لیے بی جے پی پہلے ہی کئی کانفرنسوں کا انعقاد کرتی رہی ہے لیکن بے سود۔ حال ہی میں اتر پردیش بی جے پی کے صدر سواتنتر دیو سنگھ کا دلتوں کے گھر چائے پینے کا بیان بھی سرخیوں میں رہا تھا۔ اب زرعی قانون واپس لینے کی وجہ سے ناراض جاٹوں کے 12 فیصد ووٹ بھی بی جے پی کی جھولی میں آئیں گے، تب بی جے پی کے لیے صورتِ حال اچھی ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف کسان تحریک سے پنجاب میں اکالی دل پارٹی بی جے پی کا اتحاد ٹوٹ چکا ہے اسی لئے مودی نے کسانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے کسانوںکے مطالبات قبول کیا ہے۔ اکالی دل پارٹی بی جے پی کی سب سے پرانی حلیف جماعت تھی جب بی جے پی اور اکالی دل نے اتحاد کیا تھا تو دونوں پارٹیوں کے لیڈروں لال کرشن اڈوانی اور پرکاش سنگھ بادل کی سوچ یہ تھی کہ اگر سکھوں کی نمائندگی کرنے والی پارٹی (اکالی دل) اور ایک ایسی پارٹی جو خود کو ہندوؤں کی تنظیم کہلاتی ہے یعنی بی جے پی اکالی دل سے مل کر پنجاب میں الیکشن لڑیں تو یہ دونوں کے لئے بہتر ہو گا کیونکہ سکھوں کو پھر آرایس ایس والے نہیں ماریں گے اسی آس پر یہ اتحاد برسوں تک قائم رہا۔لیکن مودی کا ڈی این اے کسی بھی طورپر اکالی دل این ڈی اے کے ساتھ نہیں مل رہا اس لئے بی جے پی کو پنجاب میں جو 7 فیصد ووٹ ملتے رہے اس میں اب نمایاںکمی واقع ہوئی ہے اورمودی کے باعث اکالی دل کے ساتھ یہ ووٹ تقریباً 35 فیصد سے بڑھ کر45 فیصد تک جا پہنچا ہے۔