امریکی شہر نیو یارک میں بھارتی قونصل جنرل سندیپ چکورتی نے ایک تقریب سے خطاب میں کہا ہے کہ مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں ہندوئوں کی آبادکاری کو یقینی بنانے کے لئے اسرائیلی طرز پر ماڈل اپنائے گی۔ جبکہ حکمران بی جے پی کے رہنما رام مادھو نے کہا کہ ان کی جماعت تقریباً 2سے تین لاکھ ہندوئوں کو وادی کشمیر میں لانے کے لئے پرعزم ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ طاقتور ممالک اپنے تجارتی مفادات کے سبب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر خاموش ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مودی حکومت انتہا پسند آر ایس ایس کے فاشسٹ نظریات پر عمل پیرا ہے ،جو نہ صرف ہندوستان بھر سے مسلمانوں کے خاتمے کے لئے کمربستہ ہے بلکہ مقبوضہ وادی میں بھی ہندوئوں کو بسا کر مسلمان آبادی کو اقلیت میں بدلنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے محاصرے کو 115روز ہو چکے ہیں، پوری وادی فوجی چھائونی میں تبدیل ہو چکی ہے جبکہ دفعہ 144کے مسلسل نفاذ کے باعث معمولات زندگی مفلوج،تجارتی مراکز بند ،سکولز اور دفاتر ویرانی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ انتہا پسند مودی کشمیریوں کو کھلی فضا میں سانس بھی نہیں لینے دے رہا، لیکن اس پر عالمی برادری خصوصی طور پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی قابل افسوس ہے۔ عالمی برادری کی آشیر باد سے پہلے سرزمین غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں اسرائیل نے 140یہودی بستیاں قائم کی تھیں جنہیں آج امریکہ قانونی جواز فراہم کر کے اس خطے میں جنگل راج کی توثیق کر رہا ہے جبکہ اسی طرز پر مودی سرکار بھی مقبوضہ کشمیر میں ہندوئوں کی بستیاں قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکی ہے۔ جس پر عالمی برادری کی خاموشی کشمیریوں کو دیوار کے ساتھ لگانے کے مترادف ہے۔ قابض انتظامیہ نے پہلے کشمیری مسلمان تاجروں کی جائیدادوں پر قبضہ کیا، اب انہیں اقلیت میں بدلنے کے گھنائونے منصوبے تشکیل دیے جا رہے ہیں۔دوسے تین لاکھ ہندوئوں کو وادی میں بسا کر مودی سرکار کشمیریوں کے حق خود ارادیت پر ڈاکہ ڈالنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ سلامتی کونسل جس کے فورم پر کشمیریوں کی قرار دادیں 71برس سے موجود ہیں اسے مودی کے اس غیر قانونی عمل کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان نے تو دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ طاقتور ممالک اپنے تجارتی مفادات کے سبب مودی سرکار کی سرکشی پر خاموش ہیں حالانکہ ان طاقتور ممالک سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا اپنی حکومتوں کو یہ باور کرا چکی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی تاریخ کا بڑا اجتماعی قتل عام جاری ہے لیکن طاقتور ممالک اس پر ایکشن تو دور کی بات ہے دو لفظ مذمت کے بھی جاری کرنے سے گریزاں ہیں۔ بھارت بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لئے لابنگ کر رہا ہے۔ گو گزشتہ روز اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی دھجیاں اڑانے والا بھارت مستقل تو دور کی بات ہے غیر مستقل رکن بننے کا بھی اہل نہیں۔ کیونکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن بننے کے لئے کئی طرح کی کڑی شرائط سے گزرنا پڑتاہے،بھارت ان میں سے کسی ایک شرط پر بھی پورا نہیں اترتا۔ اس وقت پانچ ممالک اقوام متحدہ کے مستقل رکن ہیں۔ ان پانچوں ممالک کے عوام خوشحال ہیں۔ ان ملکوں میں عوام ریاستی دہشت گردی کا شکار نہیں۔ اقلیتیں محفوظ ہیں۔ امیر‘ غریب‘ سیاسی اور مذہبی آدمی کے لئے ایک جیسا قانون ہے۔ وہاں پر آزادی کی کوئی تحریک چل رہی ہے نہ ہی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے، لیکن بھارت کس منہ سے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لئے لابنگ کر رہا ہے۔ وہاں پر آزادی کی 126تحریکیں چل رہی ہے۔ اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے پرہجوم تشدد کر کے قتل کر دیتے ہیں لیکن مقتولین کے لواحقین کی انصاف کے لئے کسی بھی جگہ شنوائی نہیں ہوتی ۔ وہاں انصاف فراہم کرنے والا سب سے بڑا ادارہ سپریم کورٹ ہے ، جس نے بابری مسجد کا فیصلہ صرف اسی بنا پر ہندوئوں کے حق میں دیا کہ وہ خود ہندو نظریات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ چین کے ساتھ بھارت کا سرحدی تنازعہ چل رہا ہے جبکہ اس نے سری لنکا کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کر کے وہاں پر عسکری تنظیمیں تشکیل دے رکھی ہیں۔ نیپال بھارت کا سب سے قریبی ہمسایہ ہے لیکن کالا پانی کے معاملے پر دونوں ملکوں میں کشیدگی چل رہی ہے۔ اس طرح بھوٹان کے اندرونی معاملات میں بھارت کی دخل اندازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بنگلہ دیش کے ساتھ بھی بھارت کا آبی تنازعہ جاری ہے۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر پر قبضے کے بعد پاکستان کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات کشیدہ ہیں ‘ جو ملک اس قدر متنازع پس منظر رکھتا ہو وہ کسی طور پر بھی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا حقدار نہیں ۔ اس لئے اقوام متحدہ کو بھارت ایسے متنازعہ ملک کو مستقل ممبر بنانے سے انکار کر دینا چاہئے۔ پاکستان جو سب سے زیادہ بھارت کا متاثرہ ملک ہے اسے عالمی سطح پر اپنے سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے بھارت کے خونخوار چہرے سے نقاب ہٹانا چاہیے اور سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو بھی باور کرایا جائے کہ یہ ملک کسی طرح بھی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا اہل نہیں ہے بلکہ پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہے، وہ مستقل رکنیت کا زیادہ حقدار ہے، پاکستان کے سلامتی کونسل کے مستقل رکن بننے سے عالم اسلام کے مسائل حل ہونگے اور وہ بلا تفریق دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے لئے موثر کردار ادا کر سکے گا۔ اس لئے عالمی برادری ایک انتہا پسند ملک کی بجائے پرامن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حمایت کرے۔