آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حالیہ کورکمانڈرز کانفرنس میں ’امن واستحکام کے ثمرات عوام تک پہنچنے چاہئیں‘ کہہ کر دو بڑی بنیادی باتیں کی ہیں، ایک تو یہ کہ وطن عزیز میں امن بحال ہو گیا ہے اور دہشت گرد دوڑ لگا گئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ نسبتاً اندرونی طور پر استحکام حاصل ہونے کے باوجود ابھی تک عوام اس کے ثمرات سے محروم ہیں، یقینا ایسا ہی ہے۔ حال ہی میں عالمی ریٹنگ ایجنسی ’Standard and Poor ‘ نے پاکستان کی قرضے لینے کی صلاحیت کو ’’بی‘‘ کیٹیگری سے ’’منفی بی‘‘ کر دیا ہے۔ ایجنسی کے مطابق پاکستان کی اقتصادیات اور اس کی غیرملکی قرضے واپس کرنے کی صلاحیت ہماری توقعات سے بھی زیادہ گر گئی ہے۔ پاکستان کے بانڈز کی ریٹنگ بھی کم کر دی گئی ہے اور پاکستانی اقتصادیات کے جلد بہتر ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔ اس تناظر میں وزیراعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسد عمر سمیت وزراء کی طرف سے مسلسل یہ گردان کہ ملک تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے مبنی برحقیقت نہیں کیونکہ زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے چھ ماہ میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مہنگائی تقریباً 7.48 فیصد بڑھ چکی ہے، شرح سود میں مزید 0.25 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کو سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات سے ملی ہوئی امداد نے سہا را دیا ہوا ہے۔ سرکلر ڈیٹ جب ایک کھرب چالیس ارب روپے سے تجاوز کر رہا ہو تو اس صورتحال میں عام آدمی کو مہنگائی، بے روز گاری اور کساد بازاری کے سواکیا ملے گا۔ موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت اب تک ایک صفحے پر ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، اس کے باوجود خان سرکار ڈیلیو ر نہیں کرپا رہی۔ حکومتی ترجمان اپوزیشن کو لعن طعن کرنے اور گالی گلوچ کو ہی حکمرانی سمجھتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مثبت اندرونی ماحول سے فائدہ اٹھا کر محض لعنت ملامت کرنے کے بجائے اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کی کوششیں کی جاتیں، یقینا کچھ نیم دلانہ اقدامات کئے بھی گئے لیکن حکومت کے مجموعی رویئے نے بہتر سیاسی ماحول بنانے کی بعض لوگوں کی خواہش کو سبوتاژ کردیا۔ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ دیوار سے لگی اپوزیشن بھی حکومت کے ساتھ کوئی رو رعایت نہیں برت رہی کیونکہ دونوں پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ پابند سلاسل ہے یا نیب اور ایف آئی اے کے مقدمات میں ضمانتیں کراتی پھر رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر کسی کا احتساب ہونا چاہیے لیکن حکومت کی طرف سے یہ دعویٰ کہ ہمارا تو اپوزیشن کو دیوار سے لگانے سے کوئی تعلق نہیں اور اپوزیشن کا جب احتساب کیا جاتا ہے تووہ جمہوریت کو خطرات لاحق ہونے کی دہائی دینا شروع کر دیتی ہے، یہ رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان تمام چیزوں کے باوجود نہ تو کوئی تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک چلا رہا ہے او ر نہ ہی ان کے پاس تحریک چلانے کی استعداد ہے۔ اس صورتحال میں تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن کے ساتھ پارلیمنٹ میں بہتر تعلقات کاربنانے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن حکومتی ترجمانوں اور وزیروں کے شعلہ نوا اور اکثر توہین آمیز ریمارکس سے لگتا ہے کہ عمران خان کی حکمت عملی یہی ہے کہ اپوزیشن کو مطعون کرتے رہو اور اپنا الو سیدھا کرو۔ حکمرانی کا نصف برس گزرنے کے باوجود بھی ڈفلی بجائی جا رہی ہے کہ سابق حکومت کھا پی گئی، خزانہ خالی کر گئی، ملک کو مقروض کر کے اقتصادی طور پرتباہ کر گئی، اب ہم اسے ٹھیک کرنے کی کو شش کر رہے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز میںحصہ لینے والے اور پریس کانفرنسوں سے خطاب کرنے والے ترجمانوں سے کوئی بھی سوال کیا جائے توان کی تان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی کرپشن پر آکر ہی ٹوٹتی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان شہباز گل جو بظاہر وسیع المطالعہ اور دانشور لگتے ہیں سے پوچھا جائے کہ سانحہ سا ہیوال کیوں مس ہینڈل ہوا، گولی چلانے کا حکم کس نے دیا اور عدالتی کمیشن قائم کیوں نہیں کیا جا رہا؟تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ نے تو ایف آئی آر بھی درج نہیں ہونے دی تھی، وہاں بھی تو خون کیا گیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ اگر یہ بات درست بھی ہو تو یہ کیا انوکھی منطق ہے کہ سابق ادوار میں ظلم اور ناانصافی ہوتی رہی ہے لہٰذا ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ یہی حال اقتصادیات کا ہے، اپنی حسن کا رکردگی یا عدم کارکردگی پر تبصرہ کرنے کے بجائے یہی رٹ لگائی جاتی ہے کہ سابق حکومت بیڑہ غرق کر گئی تھی حالانکہ اب چھ ماہ بعد اس حکومت کو اپنی فارمنس پر جوابدہ ہونا چاہیے لیکن ایسا قطعاً نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ حکومتی ترجمان جو خان صاحب سے ڈائریکٹ لائن لیتے ہیں کو یہی کہا گیا ہے کہ گالی گلوچ کرتے رہو، یہی اچھی گورننس کا نعم البدل ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ میڈیا سے تحریک انصاف کی حکومت کی کوئی لڑائی نہیں ہے لیکن میڈیا مالکان کو چور اور میاں نواز شریف کے ہاتھ بکے ہونے کا الزام دے کر اور حق بات کرنے والے صحافیوں کو لفافہ خور ہونے کا طعنہ دے کرخواہ مخواہ ناراض کیا جا رہا ہے۔ میری تو خود بڑی کوشش ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت کو شک کا فائدہ دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی جائے لیکن قریباً ہر روز ہی حکومت کی طرف سے کوئی درفنطنی چھوڑ دی جاتی ہے جس پرمعروضی حالات پر حقیقت حال بیان کرنا ناگزیز ہو جاتا ہے۔ کورکمانڈرز کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والا آرمی چیف کا بیان خاصا معنی خیز ہے۔ فوجی قیادت موجودہ منتخب حکومت کو پوری طرح سپورٹ کر رہی ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ فوج کا کام حکمرانی کرنا نہیں بلکہ سرحدوں کا دفاع اور حکومتی پالیسیوں کو سپورٹ کرنا ہے۔ ماضی میں ایسا نہ ہونے کی بنا پر تباہ کن نتائج برآمد ہوئے لیکن فوج سرحدوں کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی معاملات سے یکسر لاتعلق بھی نہیں رہ سکتی کیونکہ اگر اقتصادیات خراب اور گورننس کا بیڑہ غرق ہوتا ہے تو پاک فوج بھی اس سے براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ اپوزیشن کو بھی بدیہی حقیقتوںکا ادراک ہے، شاید اسی بنا پر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے بجائے مڈٹرم الیکشن کی باتیں شروع ہو گئی ہیں لیکن اسمبلیوں میں تحریک انصاف کی حکومت کو بہت زیا دہ اکثریت حاصل نہ ہونے کے باوجود فی الحال اسے اپوزیشن سے کوئی خطرہ بھی نہیں۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ عسکری قیادت کے علاوہ اپوزیشن بھی ان کے لیے کوئی بڑاخطرہ پیدا نہیں کررہی، انھیں اس ماحول میں قائداعظمؒ کے قول کے مطابق کام، کام اور کام کرنا چاہیے اور گالی گلوچ کی سیاست ترک کر دینی چاہیے۔ وہ اپنی موجودہ روش سے وطن عزیز کی درست سمت کے تعین کا موقع کھوتے جا رہے ہیں۔