بیسویں صدی میں افغانستان کے ادبی افق پر جن چھ ادیبوں اورشعراء نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، ادبی حلقوں میں وہ ستاروں کے نام سے مشہور ہیںان میں مولانا قیام الدین خادم بھی شامل ہے۔مولاناخادم ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے کیونکہ وہ بیک وقت عالم دین بھی تھے ،پکے نیشنلسٹ بھی تھے ،شاعر وادیب اور ایک اچھے انسان بھی تھے۔ اُن کے نثری اور شعری فن پارے پڑھنے کے بعدقاری پہلی فرصت میں ان کی افغانیت،وطن دوستی اور ملی تفاخر کو بھانپ لیتا ہے اور ساتھ ساتھ ان کی انسان دوستی اور روشن فکری کامعترف بھی ہوجاتاہے۔پشتون ملاووں کی فہرست میں نیشنلزم کے داعی مُلاخال خال ملتے ہیں اور میں سمجھتاہوں کہ مولانا قیام الدین خادم انہی خال خال روشن خیال ملاووں کے سرخیل تھے-دوسری طرف مولاناخادم پشتو ادب کی معاصر تاریخ میں شاید وہ واحد ادیب وشاعر تھے جو نظم کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی پشتون نیشنلزم کے پرچارک رہے تھے ۔پشتون سماج میں ایک نیشنلسٹ کیلئے اپنے افکار کا دفاع کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے لیکن مولانا خادم کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ ایک پکے عالم دین تھے یوں اپنی قوم پرستانہ افکار کا دفاع کرنا ان کیلئے کچھ مشکل نہیں تھا۔اپنے نثری اور شعری فن پاروں میںانہوں نے دین اسلام اور اسکے اساسی مقاصد کو بھی فوکس کیا ہے ۔اسی طرح انسان کی انفرادی زندگی، سماج اور مدنیت پرلکھنے کے ساتھ ساتھ ایک فلاحی ریاست کا خوبصورت ڈھانچے کا نقشہ بھی پیش کیاہے ۔مولانا کا تعلق افغانستان کے شاعرانہ علاقے ننگرہار سے تھا-آپ 1907 ء کوکامہ اولسوالی (ضلع) کے ایک روحانی علمی خاندان میںپیدا ہوئے-ان کے والد حسام الدین زاخیل مومند خود بھی ایک عالم تھے یوں اپنے بیٹے کو بھی انہوںنے دینی علوم کے حصول کی طرف راغب کیا- علوم دینیہ کے حصول کیلئے مولانا خادم نے خودکونہ صرف ننگرہار،خوست اور پشاور کے دینی مدارس تک محدود رکھا بلکہ علمی پیاس بجھانے کی غرض سے وہ متحدہ ہندوستان بھی گئے جہاں انہوں نے دہلی کے فتح پور ، مراد آبادکے عربی اور لودھیوں کے عزیزیہ مدرسے میں نحو، صرف، منطق،ریاضی ،فقہ ، اصول فقہ ، حدیث اور تفیسرکی کتابیں پڑھیں - دینی علوم کی تحصیل کے بعدجب وطن لوٹے توپہلے جلال آباد کے ایک ابتدائی اسکول میں درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ پھر کندہار منتقل ہوئے تووہاںانجمن پشتو ادب کے رکن بنے اور یہیں سے انہوں نے باقاعدہ طور پر ادبی، تحقیقی اور شعری کاوشوں کاآغازبھی کیا۔انجمن کا دفترجب کابل منتقل ہواتومولانابھی کابل میں ٹھہرے اورسہ ماہی جریدے ’’زیری ‘‘ کی ادارت بھی سنبھالی ۔بعدمیںان کو وقتاًفوقتاًمشرقی اتحاد،اصلاح اورکابل مجلہ نامی جریدوں کی ادارت کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔مولانا دو سال تک پشتو زبان کے نصابی شعبے میں کام کیا اور’’اولس‘‘ کے نام سے اپناذاتی جریدہ بھی جاری کیا۔ مادری زبان پشتو کے علاوہ مولاناکو عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر بھی خاصا عبور حاصل تھا تاہم انہوں نے اپنی تمام تر تصانیف پشتوزبان میں کیں۔مولاناکمال کی شاعری کرتے تھے۔ ان کی شاعری پڑھنے کا جب بھی مجھے اتفاق ہوا ہے تو اس میںمَیںنے موضوعات کا حیران کن اور بے مثال تنوع پایا ہے۔ ان کی شاعری میں انسان دوستی ،فلاح انسانیت اوراصلاح کے علاوہ افغانیت اور وطنیت کے جلوہ بہت دور سے نظرآتے ہیں-مولاناقول کے پکے اور اصولوں کے حددرجہ پابندتھے ، یہی وجہ تھی کہ ان کے مزاج میں درشتگی تھی اوربسااوقات اپنی بات پراڑے رہتے تھے ۔ایک جگہ اپنے سوانح حیات میں ’’میری زندگی پرتنقید" کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں کہ زندگی میں ہر انسان لوگوں کی تنقید کی زد میں آتا ہے اور میرے اوپر بسا اوقات لوگ یہ تنقید کرتے ہیں کہ اس میں ماننے کامادہ نہیں اوردرشت مزاج کے مالک ہیں- مولانا آگے لکھتے ہیں کہ ’’ یہی بات مجھ سے میری والدہ بھی بسااوقات کہا کرتی تھی جس کے جواب میں میں کہتاکہ اگر میں ماننے والا ہوتا تو میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح ہوتا‘‘۔ویش زلمی تحریک اسی زمانے کی ایک جمہوری تحریک تھی جو سیاسی ،جمہوری ، فکری اور تعلیمی آزادی کے حصول کیلئے جنگ عظیم دوئم کے بعدافغانستان کے دانشوروں اور روشنفکروں کی کوششوں سے قائم ہوئی تھی۔ویش زلمیان ہی کی مساعی کانتیجہ تھاکہ ملک کے کونے کونے میں نوجوانوں میں بیداری کی ایک نئی لہراٹھی۔اس تحریک میںملا وں، مبلغین اور صوفیوں کیلئے جگہ تھی ۔ مولانا خادم ان چند لوگوںمیں شامل تھے جنہوں نے کابل میں پہلے ایک ادبی تنظیم قائم کی اور بعدمیں ویش زلمیان کے نام سے باقاعدہ تحریک کی بنیادرکھی ۔ولی محمد غبار اپنی کتاب’’ در مسیر افغانستان میں لکھتے ہیںکہ ’’ویش تحریک کے اجلاس میں اس کی منشور کیلئے جو تجاویز سامنے آئے ان میں ایک تجویزنور محمد ترکئی اورعبدالروف بینوا ،دوسری تجویزمولانا خادم نے اور تیسری تجویزصدیق اللہ رشتین نے پیش کی۔ اپنی چالیس سالہ ادبی زندگی میں انہوں نے پچاس سے زائد کتابیںلکھیںجن میں تیس کے قریب کتابیںشائع ہوئی ہیں۔ستائیس اکتوبر1978کو افغان حکمران سردار داود خان حکومت کے خلاف پیپلزاور پرچم پارٹیوں نے بغاوت کی اور ایک کمیونسٹ حکومت کے قیام کے بعد مولانا خادم کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالاگیا۔جیل میں انہیں اتنا ٹارچر کیاگیا جب رہاہوئے تو ان کے اعضاء اپاہج ہوچکے تھے۔اس کے بعدمولاناخادم طویل عرصے تک علیل رہے اور 1979ء کو کابل کے علی آباد ہسپتال میں انتقال کرگئے ۔ان کا جسدخاکی ننگرہار لایاگیاجہاںانہیںکامہ میںان کے آبائی قبرستان’’زرشوئی‘‘ میں دفن کیاگیا ۔ کالم کے آخر میں ان کی ایک شہرہ آفاق پشتو نظم کے چنداشعار اردو ترجمے کے ساتھ قارئین کی نذر کرنا چاہتاہوں جواستاد خادم کی زندگی کے ارفع مقاصد کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ترجمہ: ’’میںہمیشہ مستقیم راستہ بتانے کی تلقین کرتارہوں گااور سچ بولوں گا خواہ رہوں یانہ رہوں۔حق کی اتباع کے علاوہ میرے دل میں اور کچھ نہیں،جتنا تھا اتناہی رہوں گا،خواہ رہوں یانہ رہوں۔میں آزاد جیا ہوں ، انسان کابندہ بننے کے بجائے میںفقط اپنے مولیٰ کا بندہ رہوں گا ،خواہ رہوں یا نہ رہوں۔ایک ٹوٹی کشتی میں سوارہوا ہوں اور آگے طوفان ہی طوفان ہیں ، سواپنی کشتی کواسی راستے پر لے جاوں گا، خواہ رہوں یا نہ رہوں‘‘۔