انسان جب موت کو لبیک کہتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ وہ کہاں چلا جاتا ہے؟ یہ ایسے سوال ہیں جن کے جواب انسانی عقل و دانش ایک مدت سے تلاش کررہی ہے۔ اتنے طویل علمی سفر کے بعد تین چار بڑے بڑے نظریات سامنے آئے ہیں۔ ایک تو مذہبی ہے جو زرتشت سے لے کر ادیان ابراہیمی تک مماثل چلا آتا ہے کہ دنیا دارالامتحان ہے، یہاں اپنے عمل سے جو لکھا اس کے نتائج ایک خاص دن کو نکلیں گے جب پھر سے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا اور پھر جنت یا جہنم کی مکانیت میں ایک لامحدود زندگی۔ دوسرا نظریہ ہمارے پڑوس میں بسنے والے ہندوؤں اور بدھوں کا ہے کہ اس دنیا میں بار بار آنا ہے۔ اچھے کرم کئے تو کسی اچھی صورت وگرنہ کسی رزیل صورت۔ یہ سلسلہ تب تک رہے گا جب تک بہت ہی اچھے کرموں کی بدولت مکتی نہیں ملتی۔ مکتی یہ ہے کہ جزو جا کر روح کل کا حصہ بن جائے۔ تیسرے ہمارے دوسرے پڑوسی ہیں، چین والے۔ ان کی قدیم دانش کا ماننا ہے کہ اچھا انسان کو بننے کے لئے کسی خدا یا مذہب کی حاجت نہیں۔ ویسا سلوک دوسروں کے ساتھ کرو جیسا تم چاہتے ہو تمہارے ساتھ کیا جائے۔ پھر وہ سائنس والے ہیں، مادے کے لمس کے اسیر۔ اہل دانش ان کی ابتدا قدیم یونان کے فلسفیوں میں تلاشتے ہیں۔ ان کے لئے جو کچھ ہے سب یہیں ہے۔ جس دنیا کو چھوا نہیں جاسکتا، اس کا وجود کیونکر اور کیسے ممکن ہے۔ جو نظر نہیں آتا اور جس کا ادراک یہ پانچ حواس نہیں کرسکتے، اس کو کیسے مان لیں؟ ان حالات میں جو کوئی میرے جیسا واجبی علم والا تلاش کا تھیلا شانے پر ڈالے نکل ہی کھڑا ہو تو بجائے کچھ سراغ پانے کے کنفیوز ہی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر وائن ڈائر امریکی دانش ور، مصنف اور سپیکر تھے۔ ان کا انتقال 2015ء میں ہوا۔ ان کی فکری آبیاری تین برے مکاتب فکر کے زیر اثر ہوئی۔ وہ ہندو عالم نیسار گتا مہاراج اور سوامی مکتند سے براہ راست فیض یاب ہوئے۔ بارہویں صدی کے اطالوی کیتھولک مفکر سینٹ فرانسس سے بیحد متاثر تھے جبکہ پانچویں صدی قبل مسیح کے چینی عالم لاؤزر سے بھی متاثر رہے۔ تاہم کامیاب وہ ہے جو بہت ساری آراء جان اور پڑھ کر اپنا راستہ تلاشے۔ چالیس سے زائد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر وائن ڈائر کی ایک کتاب سے لیا گیا مکالمہ پڑھئے اور دیکھئے کہ حیات بعد الموت کو کس خوب صورت اور مدلل طریقے سے انہوں نے واضح کیا ہے۔ یہ رحمِ مادر میں ہونے والا مکالمہ ہے۔ دو جڑواں بچوں کا مکالمہ جو ابھی ماں کی کوکھ سے باہر نہیں آئے۔ پہلا: کیا تم زچگی کے بعد زندگی پر یقین رکھتے ہو؟ دوسرا: ہاں یقیناً۔ زچگی کے بعد کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے۔ ہوسکتا ہے زچگی کے بعد آنے والی زندگی کی تیاری کے لئے ہی ہم یہاں ہوں۔ پہلا: بکواس۔ زچگی کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے‘ اور اگر تمہاری بات مان بھی لی جائے تو وہ کس قسم کی زندگی ہوگی…۔؟ دوسرا: مجھے کچھ زیادہ علم نہیں مگر یہاں کی نسبت وہاں زیادہ روشنی ہوگی۔ ہوسکتا ہے ہم اپنی ٹانگوں پر چلیں اور منہ سے کھائیں پئیں۔ ہوسکتا ہے ہمیں کچھ ایسی مزید حسیات (Senses) مل جائیں جن کا آج ہم ادراک نہیں رکھتے۔ پہلا: نامعقول بات ہے۔ اپنے پیروں پر چلنا اور منہ سے کھانا!!…۔ کیا مضحکہ خیز باتیں کرتے ہو۔ یہ ناڑ جو ہمارے نافوں میں لگا ہے‘ ہمیں غذا فراہم کرتا ہے اور فضلات خارج کرتا ہے۔ لیکن یہ ناڑ بہت چھوٹا ہے ہم زیادہ دور نہیں جاسکتے۔ سو منطقی طور پر بھی یہاں سے باہر زندگی ناممکن ہے۔ دوسرا: میرا خیال ہے کہ وہاں کے حالات یہاں کی نسبت مختلف ہوں گے۔ ہوسکتا ہے خوراک کے لئے اور فضلہ خارج کرنے کے لئے ہمیں اسی مادی ناڑ کی ضرورت ہی نہ ہو۔ پہلا: فضول بات کرتے ہو یار! اگر واقعی یہاں سے باہر کوئی زندگی ہے تو کبھی کوئی پلٹ کے اس کی گواہی دینے‘ اس کے بارے میں بتانے کیوں نہیں آیا؟ یہ جو زچگی ہے‘ دراصل زندگی کا خاتمہ ہے۔ وہاں کچھ نہیں ہے سوائے اندھیرے کے‘ خاموشی کے اور خود فراموشی کے۔ یہ زچگی ہمیں کسی اور دنیا میں لے کر نہیں جاتی‘ یہ اختتامِ زندگی ہے اور بس۔ دوسرا: مجھے نہیں پتہ تم ایسی باتیں کیوں کررہے ہو۔ یہ بات یقینی ہے کہ زچگی کے بعد ہم وہاں اپنی ماں سے ملیں گے جو ہمارا بہت بہت خیال رکھے گی۔ پہلا: ماں…۔؟؟ کیا تم ماں پر یقین رکھتے ہو…؟ ہاہاہاہا…۔کیا مضحکہ خیز بات ہے۔ اگر واقعی ماں وجود رکھتی ہے تو اس وقت وہ کہاں ہے…۔؟ دوسرا: ماں ہمارے چاروں طرف ہے۔ ہم ماں کے وجود میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہم اسی کا حصہ ہیں اور اس کے اندر رہتے ہیں۔ ماں کے بغیر اس دنیا کا کوئی وجود نہیں۔ پہلا: (کاندھے اچکاتے ہوئے) میں اسے نہیں دیکھ سکتا چناں چہ فطری اور منطقی بات یہی ہے کہ ماں وجود نہیں رکھتی۔ دوسرا: دیکھو! کبھی کبھی جب گہری خاموشی ہوتی ہے‘ تم اپنی توجہ کو مرکوز کرکے دیکھنا‘ تم ماں کی موجودگی کو محسوس کرو گے اور تمہیں اس کی آواز بھی کہیں اوپر سے یہاں نیچے آتی ہوئی سنائی دے گی۔" پتہ نہیں پہلے نے کیا جواب دیا تاہم کبھی خاموشی میں اور سکوت میں یک سو ہوکر کوشش کر دیکھئے، ستر ماؤں ایسا پیار رکھنے والا محسوس ہوگا اور اپنی موجودگی کا پتہ دے گا ###