یہودی مصنف (Arishavit)نے لکھا ہے کہ ہم تاریخ کے مشکل ترین لوگوں کا سامنا کر رہے ہیں، ہاں واقعی آپ (امریکہ‘ یورپ) کو چھ صدیوں کے غلبہ پائے‘ غارت گری کرتے رہنے قوموں اور ملکوں پر قبضہ جمانے کی عادت کو ناقابل یقین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مشرق خصوصاً مسلمان اقوام کے خطے آپ کا آسان ہدف بنے رہے۔ مسلمانوں کی نئی نسلوں نے آپ کے خلاف پریقین مزاحمت کا پختہ عہد باندھا ہے۔ انہوں نے وسائل کی کمیابی اور اسلحہ کی نایابی کے باوجود کئی محاذوں پر امریکہ، یورپ اور ان کے اتحادیوں کی اندھی طاقت کو شکست فاش دی ہے، پہلے پہل ایران نے پراکسی حکمران امریکہ کے لے پاک رضا شاہ پر عرصہ حیات تنگ کر دیا، وہ بھاگنے پر مجبور ہوا‘اللہ کی زمین اس پر تنگ ہو کر رہ گئی خود امریکہ اور یورپ کے کسی ملک نے اپنے وفادار غلام کا جہاز اترنے کی اجازت نہیں دی۔ بالآخر ایک مسلم منافق حکمران نے اسے قبر کے لئے جگہ فراہم کی اور مصر میں فرعون کی ہمسائیگی میں کندۂ جہنم ہو گیا اور پھرافغانستان ‘ افغانی طالبان مجاہدین تو حد کر دی۔ امریکہ کے واحد عالمی طاقت(سپر پاور) کا اعزاز ’افتخار‘ غرور و تکبر جاہ و حشمت ‘ جلال و وقار کو ریزہ ریزہ کر کے غبار کی شکل فضائوں میں اڑا دیا۔خوف اب مقدر ہے جب تک جیو گے خوف اور وحشت تمہارا پیچھا کرتی رہے گی۔ صدیوں جو کرتے رہے آئندہ صدیوں اس کا کفارہ ادا کرتے رہوگے۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ غزہ پر پہلے آپ ایک مغربی مصنف‘ محقق‘ مفکر‘ دانشور اور مشہور و معروف جنگی وقائع نگار‘ جو سچ لکھنے اور سچائی کے ساتھ بیان کرنے کی شہرت رکھتے ہیں‘ دنیا بھر میں پڑھنے لکھنے والے لوگ ان کے نام اور کام سے خوب واقف ہیں ان کا 12اکتوبر کے کالم کا اردو ترجمہ پڑھیے ’’ایرک مارگولیس‘‘ غزہ کی جنگ یہ حقیقی جنگ نہیں ہے۔ یہ اسرائیل اور فلسطین میں قتل عام کا خونی منظر ہے جس کا آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ ایک بڑی جیل کے اندر ہونے والی بغاوت ہے‘ جسے اسرائیل کی فوجی طاقت نے کچل دیا تھا۔ اسرائیل کے مہرکاوا ٹینکوں کا مقابلہ ایم 16ہلکی رائفل اور گھر میں بنائے راکٹ(لڑنے والے پائپ بم) کے بمقابل امریکہ کے جدید ترین اور بے بدل F15اور F16لڑاکا بمبار حماس کے چند ہزار جنگ جو اسرائیل کی 600000(چھ لاکھ) فوج اور اس سے بھی کہیں زیادہ ریزرو فوجی، پولیس، ڈرونز اور بھاری توپ خانے کی مدد سے ‘امریکی ساختہ بم اور راکٹ اب غزہ میں جو کچھ بچ رہا تھا اس کو توڑنے اور تباہ کرنے میں مصروف ہیں۔ جو دنیا کے سب سے گنجان آباد مقامات میں سے ایک ہے۔ اسرائیل کے ایک میوزک فیسٹیول پر حماس کے جنگجو اور راکٹ حملوں میں 1200(بارہ سو) سے کچھ زیادہ شہریوں کی ہلاکت پر اسرائیل نے بائبل کے مطابق فلسطینیوں سے بدلہ لینے کا عہد کیا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی فراہم کردہ جنگی طیارے بم اور راکٹ فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو کہ امریکی آرمز کنٹرول ایکٹ کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں جو شہری اہداف کے خلاف امریکی ہتھیاروں کے استعمال سے منع کرتا ہے امریکی قوانین سے غافل صدر بائیڈن کی انتظامیہ غزہ کے بارے میں مکمل جنگی جنون میں مبتلا ہے اگلے امریکی انتخابات قریب آ رہے ہیں امریکی ریاست کی رہنمائی کرنے والا میڈیا بھی جنگی جنون کو بڑھا رہا ہے جو غزہ کے واقعات کو امریکہ پر حملے کے طور پر پیش کر رہا ہے واشنگٹن میں جنگ پسند پارٹی ایران کے خلاف حملے کے لئے تیار ہے، جس کا جہاں تک جانتے ہیں، غزہ کے حملوں میں براہ راست کوئی بنیادی کردار نہیں ہے جو کہ اسرائیلی دائیں بازو کے عسکریت پسند اور فوکس نیوز کے ذریعے تلاش یا تیار کیا جائے گا۔ میں تقریباً 70سال سے فلسطین کی ادیت کو دیکھ اور لکھ رہا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ یہودیوں کا ایک چھوٹا سا علاقہ تقریباً 200 (دو سو) جوہری ہتھیاروں اور ناقابل یقین ہلاکت خیز ہتھیاروں ذخیرہ بن چکا ہے۔ غزہ ‘ بدنما‘ گھٹیا ‘ بدبودار انسانی کچرے کے ڈھیر میں بدل چکا ہے غزہ کھلی فضا میں ایک بڑی جیل ہے جس میں بائیس لاکھ فلسطینی پناہ گزین رہ رہے ہیں۔ جنہیں 1948ء میں اسرائیل کی نئی ریاست سے نکالا گیا تھا‘ فلسطینیوں کو ساحل سے صرف مچھلی پکڑنے کی اجازت ہے‘ ساحلی گیس اور تیل کے ذخائر پر مصر اور اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اسرائیل کے سرپرست اور فنانسہ (مالی مدد گار) امریکہ نے اپنے سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے پر خوشی کا اظہار کیا تھا‘ ایک ایسا اقدام جسے بائبل کے مذہبی بنیاد پرستوں نے عیسائی مسیحا آرما جیڈون ‘ کی واپسی کے لئے ایک اہم قدم خیال کیا جس میں دوسرے یہودی بھی شامل ہیں ۔ غزہ کے بائیس لاکھ لوگ غذائی قلت کے دہانے پر ہیں۔اسرائیل کھلے عام فخر کرتا ہے کہ وہ مکمل فاقہ کشی کو روکنے کے لئے خوراک کی اجازت دیتاہے ۔ پانی صاف کرنے والے اجزا پر پابندی ہے۔ بجلی صرف چند گھنٹے چلتی ہے کیونکہ اسرائیل کو فراہم کردہ امریکی فضائیہ نے پاور پلانٹ پر بمباری کی تھی ہسپتالوں میں ادویات نہیں ہیں، مختصر یہ کہ کھلی جیل میں چڑیا گھر کے بدحال جانور بھی بھوک سے مر رہے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف لڑنے کے لئے بڑے پیمانے پر امریکہ کا فراہم کردہ اسلحہ اور رقم کا استعمال کیا ہے جو واضح طور پر امریکی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ یہ سارے فلسطینی کہاں سے آئے‘ اسرائیل عرصہ دراز سے دعویٰ کر رہا ہے کہ ایسے لوگ یا قومیت موجود ہی نہیں ہے۔1948ء میں جب امریکہ اقوام متحدہ کی مدد اور روس کے تعاون سے اسرائیل بنا گیا تو تقریباً دس لاکھ فلسطینیوں کو بندوق کی نوک پر ان کے گھروں سے بھگا دیا یا وہ نسل کشی کے خوف سے بچ نکلے اور ان کے گائوں بلڈوز کر دیے گئے۔ جب 1967ء میں اسرائیل نے مغربی کنارے اور یروشلم پر قبضہ کیا تو پانچ لاکھ فلسطینیوں کو پناہ گزین بنا دیا گیا۔ اس خون آلود گندگی سے نکلنے کے بس دو ہی راستے ہیں یا لاکھوں فلسطین کو نسل کشی کر کے ختم کر دیا جائے یا اقوام متحدہ کی طرف سے ایک طویل عرصے سے تاخیر کا شکار فلسطینی ریاست بنائیں جسے امریکہ کی طرف سے ویٹو اور اسرائیل کی مزاحمت نے طویل عرصے سے روک رکھا ہے ‘ ایرک مارگولیس کے خیالات آپ نے پڑھ لئے۔ فلسطینی کے مسئلے ‘ جبر کے عہد‘ امریکہ کے ستم‘ یہودیوں سے ظلم‘ عربوں کی نسل کشی کی کوششوں کو جاری رکھے 75برس گزر گئے آج بھی یہ شہدا کے خون کی طرح تروتازہ ہے ۔ شہدا بہتے خون کے ساتھ زندہ ہیں۔ اللہ کی رضا کے لئے ان کا تازہ خون نئی نسلوں میں بدل بدل کر حملہ آور ہوتا مزاحمت کرتا ہے ہم دیکھ رہے ہیں اللہ کی راہ اور اپنے حق کے لئے قتل ہونے والوں کا جذبہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ قاتل کی شمشیر کند اور بازو شل ہو گئے ہیں۔ ان پر تھکن طاری ہے اور قبضہ اور طاقت کا گھمنڈ افغانستان میں انجام دیکھ کر خوف میں بدلتا جا رہا‘ چہرے کی زردی‘ آنکھوں میں خوف صاف دکھائی دینے لگا ہے‘ عالمی ضمیر بھی گہری نیند سے بیدار ہو رہا ہے۔نیو یارک میں لاکھوں یہودیوں کا اسرائیل اور امریکہ کے خلاف فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ اور مغربی دانشوروں کے خیالات آنے والے اچھے دنوں کی نوید ہیں۔صبر کے ساتھ ثابت قدم رہو تم ہی کامیاب رہو گے اگر تم مومن ہو ۔