پاکستان میں سیاسی کشمکش اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ اکثریتی سیاسی پارٹی اقتدار سے باہر ہے اور میثاقی پارٹیاں، جنہوں نے پوری ایک دہائی مل جل کر حکومت کی تھی، دوبارہ حکومت بنا چکی ہیں۔ کوئی پوچھے کہ پچھلے چار سال میں ایسا کرنے میں کونسی رکاوٹ تھی اور اب یہ معجزہ کیسے رونما ہوگیا ہے تو مخالفوں کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ بیرونی ہاتھ۔ لیکن ہم ایسے معاملے میں پڑیں ہی کیوں جس پر نظریہ ضرورت کا اطلاق ہوچکا ہے؟ امریکہ کا نام لیکر کانپیں ٹنگوانے کا فائدہ؟ چوری کے سوال پر نقص امن کا خطرہ ہے تو ہم مہنگائی کو قومی مسائل کی جڑ کیوں نہ قراردیں؟ ہم پچھلی حکومت کے زوال سے مہینوں پہلے اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے اور اس حوالے سے متعدد تفصیلی کالم بھی لکھ مارے تھے کہ مہنگائی وہ سازش ہے جو عوام کے خلاف ایک منظم طریقے سے رچائی گئی ہے۔ یہ بھی عرض کیا تھا کہ طوعاً و کرہاً ہی سہی اس ملک کی حکمران پارٹیاں اس سازش کا لازمی حصہ ہیں۔ اس سازش کے تحت ایک زرعی ملک میں اشیائے خوردونوش لوگوں کی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں ۔ پیداواری عوامل، بجلی اور ڈیزل، کو بھی مسلسل مہنگا کیا جارہا ہے۔ اگر وجوہات کی طرف جایا جائے تو نہایت ہی دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔ بایئس کروڑ عوام کو ہرچھ گھنٹے بعد بھوک لگتی ہے، اس بھوک کو مٹانے کے لیے وسائل کی کمی نہیں لیکن وہ وسائل چند خاندانوں کے ہاتھ میں تھما دیے گئے ہیں۔ زرخیز زمینوں اور پانی کے وسائل پر قبضے کا نتیجہ یہ ہے کہ زراعت کمرشل ہوگئی ہے۔ ایک تو اجناس کی پیدواور کوملکی ضروریات کے نہیں بلکہ منافع کے تابع کردیا گیا ہے۔ یہ منافع ذخیرہ اندوزی سے بھی بڑھتا ہے اور برآمدات سے بھی۔ ڈیم بننے کے نتیجے میں بھوک کے خاتمے میں دریائوں کا کردا بھی نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ اب جن لوگوں کے ہاتھ میں پیداواری وسائل ہیں انہیں کے ہاتھ میں سیاسی پارٹیاں بھی ہیں۔ یوں منتخب حکومتیں بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے اشارے پرعوام کو بھوک اور اس کے نتیجے میں بیماری کے حوالے کرتی جارہی ہیں۔ بیرونی مداخلت کا یہ سلسلہ اس وقت سے شروع ہوا جب ہم نے دریا بیچ کھائے،ڈیم بنائے اور نہری نظام کا سارا فائدہ جاگیرداروں کو دے ڈالا۔ ہم اپنے منطقی انجام یعنی، ابدی غلامی، کی طرف نوے کی دہائی سے تیزی سے بڑھنا شروع ہوئے جب ترقی کے نام پربیرونی قرضے لیے گئے اور حکمرانوں نے انہیں اپنی عیاشیوں پر اڑا دیا۔ پہلے اگر دو سیاسی پارٹیاں ایک دوسری کی ناکامی کا فائدہ اٹھاکر اقتدار میں باریا ںلیتی تھیں تو ایک تیسری پارٹی کو میدان میں اتاردیا گیا۔ جب اس تیسری پارٹی نے ان دونوں کو چوری کے الزام کے تحت شکست دیکر حکومت بنائی تو ' چوروں' نے مل کر اسے زمین پر پٹخ دیا ہے، باوجود اسکے کہ اس نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے اہداف کو حاصل کرنے میں اپنے پیشرووں کو بھی مات دی تھی۔ اب سابقہ حکمران پارٹی لاکھ چیخے اور چلائے کہ بیرونی ہاتھ ملوث ہے، معتبر گواہوں نے ہی اس کے خلاف گواہی دے دی ہے تو کیا ہوسکتا ہے۔ بظاہر بات اتنی سی ہے کہ ہم نے اخراجات کو کم کرنا ہے اور محصولات کو بڑھانا ہے۔ ایسا چوری کو روکنے، غیر ضروری اخراجات سے چھٹکارا پانے، قناعت پسندی اختیار کرنے، طاقت اور وسائل نچلی سطح تک منتقل کرنے اور ٹیکس نظام میں اصلاحات سے ممکن ہے۔ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں، کوئی بھی سیاسی پارٹی اس حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔ ملک پر دہائیوں حکومت کرنیوالی سیاسی پارٹیوں کے نہ تو اندر جمہوریت ہے اور نہ ہی ان میں پالیسی سازی کا کوئی ڈھانچہ۔ سرد جنگ کے زمانہ میں، جب جمہوریت نہیں تھی، تو ہمارے دفاعی اخراجات امریکہ اٹھا لیتا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد جمہوریت کا بوجھ بھی اسی کے سر پر ڈال دیا گیا ہے۔ تاہم اس جمہوری بوجھ کو امریکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ذریعے دیے گئے قرض کی صورت میں اٹھاتا ہے۔ چونکہ ہماری معیشت میں سکت نہیں ہے اس لئے یہ قرضے قلیل مدتی ہوتے ہیں اور ان کی واپسی ممکنہ وسائل سے ہی پوری ہوتی ہے۔ یعنی جی ایس ٹی، بلا واسطہ ٹیکس، جو ہر خاص و عام پر لگتا ہے اور ان اشیا پر جنکی طلب غیر لچکدار ہوتی ہے جیسا کہ خوردنی تیل، دالیں اور پٹرولیم مصنوعات۔ مہنگائی سازش اس لئے ہے کہ وہ عوامل جو اس کا سبب بنتے ہیں ان پر قابو پانے میں منتخب حکومتیں ناکام ہیں۔ اگرچہ مہنگائی والی سازش کا واضح نشانہ عوام ہیں اور وہ واقعتاً بھوک اور بیماری کے چنگل میں پھنس چکے ہیں لیکن اسکا نتیجہ ریاست کے لاغر پن کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ دوسری طرف بھوک ایک خاص حد تک برداشت ہوسکتی ہے۔ بوٹوں کی دھمک اور سنگینوں سے پھیلایا گیا خوف بھوک کو نہیں مٹا سکتا۔ بغاوت نہیں تو طوائف الملوکی سر اٹھا سکتی ہے اور یہ دور حاضر کا خطرناک ترین ہتھیار ہے جو عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ عراق، مصر اور شام اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ حل؟ ظاہر ہے، باہر سے نہیں اندر سے ہی ہوگا۔ اس وقت سیاسی کشمکش نقطہ عروج پر ہے تو اسکی وجہ یہی ہے کہ یہ معاشرہ اپنی بقا کا راستہ ڈھونڈھ رہا ہے۔ نظام تبدیل ہوگا تو بات بنے گی۔ عدالت اور اداروں کی دانشمندی کو دیکھتے ہوئے کہ انہوں نے ملک میں سیاسی تبدیلی کے پیچھے بیرونی ہاتھ کو خارج از امکان قرار دیا ہے، مہنگائی کے سر الزام دھرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ کان کو اس ہاتھ سے پکڑیں یا دوسرے سے، ایک ہی بات ہے۔ مہنگائی اندرونی اور بیرونی گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے جو عدم مساوات ، سیاسی پارٹیوں کے اندر جمہوری رویوں کی عدم موجودگی، طاقت کے چندخاندانوں اور شہروں میں ارتکاز، اداروں کی سستی ، نا اہلی اور غیر شفافیت کے ذریعے پھیلائی گئی ہے۔ یہ قوم اپنی بقا کیلیے ایک عالمی طاقت سے ٹکرانے کی سکت نہیں رکھتی لیکن مہنگائی پرسیاسی عمل سے ضرور قابو پاسکتی ہے۔ عدالتیں بنیادی حقوق کا تحفظ کریں، الیکشن کمیشن مقامی حکومتوں کے بروقت انتخابات کرادے اور سیاسی پارٹیوں کو تہذیب کے دائر میں رکھے تو یہ ' کار خیر ' متانت، وقار اور خوش اسلوبی سے انجام پاسکتا ہے۔