رنگ اترنے میں بہت دیر لگی دل میں ٹھرنے میں بہت دیر لگی تیری آنکھوں کی طرح گہرا تھا زخم بونے میں بہت دیر لگی یہ رنگ وہی رنگ جس کا ذکر فیض نے کیا تھا کہ گلوں میں رنگ بھرے بادِنو بہار چلے‘چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے‘اور گلشن کے کاروبار کے لئے ایک سیٹھ میمن ان سے ملنے گیا کہ کاروبار گلشن میں حصہ ڈال سکے۔ فیض صاحب مسکرا دیے۔ ویسے تو وطن کو بھی گلشن ہی کہتے ہیں اسے بھی تو دائو پر لگایا گیا اور کاروبار بنایا گیا۔ بات مگر ہم نے رومانٹیک چھیڑی تھی کہ جھیل آنکھوں کی گہرائی گہرے زخم تو دیتی ہے اور جو زخم بھرتے ہی نہیں وہ زخم زبان کے ہوتے ہیں۔ مگر نہ بھرنے والے زخم عزت داروں کو لگتے ہیں۔وگرنہ سیاستدان ایک دوسرے کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہتے۔ اخباروں کی شہ سرخی پر نظر پڑی تو آنکھیں سرخ ہوتے ہوئے رہ گئیں کہ سرخی ہی ایسی تھی کہ تمام معاشی اشاریے مثبت سمت میں جا رہے ہیں۔ خود کو سنبھالا تو سوچا کہ یہ اثبا ت عوام کی نفی کے باعث ہے۔ ایسے ہی جیسے ایک فربی شخص نے ایک کمزور آدمی سے کہا تمہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ملک میں قحط ہے کمزور آدمی نے پلٹ کر کہا اور تمہیں دیکھ کر قحط کی وجہ بھی سمجھ آ جاتی ہے۔ظاہر ہے ملکی معیشت کے مثبت اشاروں کے لئے عوام کی جیبیں کاٹی گئی ہیں سرکاری ملازمین کو نچوڑ کر اور بے جا ٹیکسز لگا کر کام چلایا گیا ہے۔ سادہ لفظوںمیں عوام کا جینا حرام کر کے معیشت کا کام چلایا گیا ہے جن سے خزانے اگلوائے تھے وہ آہستہ آہستہ دوبارہ پوزیشنیں سنبھال چکے ہیں۔ پہلے کسی کو ملک سے نکالا اور اب لانے کی تگ ودو اور جو موجود ہیں ان کو باہر نہ بھیج سکنے کا پچھتاوا۔ لوگ تو پھر بھی دیوانے ہیں: کیا غضب ہے کہ وہ پھر بھی ہے قیامت آسا رخ پہ غازہ بھی نہیں آنکھ میں کاجل بھی نہیں بڑی مزے کی بات یاد آئی کہ ہمارے دوست محمد عامر خاکوانی نے اپنے کالم میں لکھا کہ انہیں کبھی کوئی شعر یادنہیں ہوتا۔ صرف ایک شعر غالب کا انہیں یاد کرنا پڑا کہ اس سے انہوں نے اپنے کالم زنگار کا نام رکھنا تھا پہلی بات ان سے متضاد یہ کہ مجھے شعر کے علاوہ کچھ یاد نہیں رہتا۔ دوسری بات یہ کہ زنگار کا اتنا اچھا استعمال کون کرے گا۔ ویسے کیا خیال ہے قوم کی حالت بھی معیشت کا پتہ نہیں دیتی ۔باریک بات نہیں ہے چمن مہکے گا تو باد بہاری چلے گی۔آخر ہماری مثبت سمت جاتی ہوئی معیشت کسی پر اثرانداز ہی نہیں ہو رہی۔ ویسے آپ متعلقہ شعر پڑھ بھی لیں۔ لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی چمن رنگا رہے آئینہ بادِ بہاری کا زنگار وہی مسالہ سا ہوتا ہے جو شیشے کے پیچھے لگتا ہے اور اسے آئینہ بناتا ہے۔چلیے آج دھوپ بڑی مزے کی نکلی ہے اور زمستاں کی دھوپ ہماری کمزوری ہے یہ وہی دھوپ ہے جس میں بیٹھے قلبی داس نے بادشاہ وقت کو خواہش پوری کرنے کی پیشکش پر کہا تھا کہ بس ذرا دھوپ چھو ڑدو ، ہائے میرے سامنے تصویر میں عمران خان اسلام آباد کے ایک سبزہ زار میں ایم کیو ایم کے وفد کے ساتھ ملاقات فرما رہے ہیں چاروں جانب دھوپ ہے یقینا ایسی ہی ایک ملاقات ق لیگ سے ہو چکی خان صاحب کی اچھی تصاویر شائع ہو رہی ہیں چند روز قبل وہ اپنے دو کتوں کو کھانا کھلا رہے تھے اس تصویر کو دیکھ کر نہ جانے پرویز مشرف یاد آئے کہ جب سب سے پہلے وہ ’’کو‘‘کر کے آئے تو ان کی گود میں دو کتے تھے۔ ہائے ہائے: اک اشارہ ہی کافی ہے اس نے کہا داستانیں سنانا ضروری نہیں مریم نے بھی تو اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ لاہور جلسے کے وقت آپ کتوں کو نہیں خود کو بہلا رہے تھے۔وقت بڑا ظالم ہے یہ ایک سا نہیں رہتا کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دوست کل کے دشمن۔مگر یہ لوگ آخری درجے کی گالی گلوچ کے بعد بھی شیرو شکر ہو جاتے ہیں۔ واقعتاً حیا اور غیرت ایک احساس کا نام ہے جو کب سے ان میں ختم شد۔ میرے پیارے قارئین!ذرا ادبی صورت حال پر بھی بات ہو جائے کہ ہمیں کل ’’ماہنامہ تخلیق‘‘ مدیر اعلیٰ سونان اظہر جاوید کی جانب سے موصول ہوا۔ خاص بات اس کے ساتھ یہ بھی کہ ایک لفافے میں 5عدد ماسک بھی تھے اچھا لگا کہ عصر کا شعور بھی لازم ہے اور معاشرے میں ادیب کے ذمہ کچھ شہری حقوق بھی ہیں یہ خوبصورت تحفہ ہے۔ ایک صحت مند سوچ کی یہ علامت ہے۔ اس تخلیق کے بانی اظہر جاوید تھے۔ یہ رسالہ پہلے سے بہت بہتر ہو چکا۔پیارے قارئین:دو اور کتب میرے یار دیرینہ ڈاکٹر ضیاء الحسن نے بھیجیں ہیں ہماری بھابھی حمیدہ شاہین صاحبہ کی جن کے کئی اشعار زبان زدعام ہیںایک شعر دیکھیے: اپنے کمرے میں اتنا ٹہلنا پڑا زندگی بھر نہ پیروں کے چھالے گئے بھیجی گئی دونوں کتب ان کے تنقیدی مضامین میں حرف کے روبرو اور مطالعہ، حیرت تو اس بات پر ہوئی کہ نہایت عمدہ شاعرہ کی نثر بھی کسی صورت ان کی شاعری سے کمتر نہیں۔ باقی مضامین تو الگ رہے انہوں نے داتا گنج بخش علی ہجویریؒ پر جو مضمون لکھا ہے یہ ان کے مزاج کا ایک نہایت روشن پہلو سامنے لاتا ہے۔ وہ ویسے بھی اپنے خاندانی رکھ رکھائو کی وجہ سے بہت محترم ہیں مجھے ہمیشہ سعد بھائی کہہ کے مخاطب کرتی ہیں تو اچھا لگتا ہے مجھے ثمینہ راجا کے بعد ان میں وہ جوہر نظر آتا ہے کہ وہ دوسرے شعبوں پر بھی نظر رکھتی ہیں۔ جذبات کا تقدس ان کی شاعری کا خوبصورت عنصر ہے۔ انہوں نے دوسروں کی کتب پر جو مضامین لکھے ہیں اسی طرح دوسروں کی تحریروں پر ان سے بھی اچھی تحریر لکھنے والے ڈاکٹر خورشید رضوی ہیں۔چلیے میں کتب کی رسید دے دی۔ کتب تو میرے زیر مطالعہ رہیں گی ۔ حمیدہ شاہین ہی کے خوبصورت شعر کے ساتھ کالم کا اختتام کرتے ہیں: اک دن اپنا آپ سمیٹا اس کوچے سے کوچ کیا میں نے اپنی قیمت جانی اپنی ہی ارزانی سے