ریاستیں اپنے مفادات کے انڈے کبھی کسی ایک ملک کی ٹوکری میں نہیں رکھتیں۔ عالمی سیاسی معاملات میں ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو والا معاملہ ہوا کرتا ہے۔ ماضی میں پاکستان نے امریکہ اور چین کے درمیان پل کا کردار ادا کیا اور امریکہ اور چین دونوں کا اتحادی رہا۔ چین سے ہماری دوستی سردگرم حالات، ہر آزمائش پر پورا اترتی رہی تو امریکہ سے تعلقات میں بھی وقت اور ضرورت کے لحاظ سے تغیر کے شکار رہے ۔چین نے پاکستان کے لئے سی پیک کے ذریعے کثیر سرمایہ کاری کی، ترقی و خوشحالی کے دروازے کھولے تو اس سرمایہ کاری سے چین کو گرم پانیوں تک رسائی ملی۔ چین پاکستان کے بڑھتے سٹریٹجک تعلقات اور عسکری تعاون کے بعد امریکہ نے چین کے مقابلے میں پاکستان کے بجائے بھارت کو اتارنا چاہا تو چین نے ون بیلٹ ون روڈ انیشی ایٹو کادائرہ نیپال، بنگلہ دیش تک بڑھا کر بھارت کو گھیرے میں لے کر خطہ میں تنہا کر دیا۔ امریکہ نے پاکستان کو چین کے منصوبے سے باز رکھنے کے لئے لالچ اور دھونس کے تیر آزمائے مگر ناکام رہا۔ اب امریکہ نے ڈپلومیٹک جنگ میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کی صورت میں چین امریکہ معاشی جنگ میں ترپ کا پتہ کھیلا ہے۔ ٹرمپ نے خلیجی ریاستوں سے اسرائیل کے 70سالہ تنازع کے حل کی جانب اہم سنگ میل طے کر کے آئندہ الیکشن میں اپنی کامیابی کے لئے آسانی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے عالمی مبصرین اس اقدام کو چین امریکہ مخاصمت کے تناظر میں بھی اہمیت دے رہے ہیں۔ اسرائیل عرب امارات اتحاد کو چین کی ایران میں 400ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ چین اور امریکہ خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ نئی صف بندیوں میں مصروف ہیں ۔چین پاکستان ایران ترکی اور ملائشیا کے علاوہ ہمسایوں بنگلہ دیش اور نیپال کے معاشی مفادات جوڑنے میں مصروف ہے تو دوسری طرف امریکہ دنیا پر اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے چین کے مقابلے میں پوری طاقت کے ساتھ اترنے کی تیاری کر رہا ہے۔ امریکہ نے خلیجی ریاستوں کے اسرائیل سے اتحاد کے ذریعے پاکستان کو فیصلہ کن موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ چین گزشتہ کئی برسوں سے خطہ میں نئے اتحادیوں کے ساتھ صف بندی میں مصروف تھا مگر امریکہ نے اپنے پرانے اتحادیوں کے ایک یوٹرن سے کھیل کا پانسہ پلٹنے کی کوشش کی ہے۔مگر جیسے کہ قابل اجمیری نے کہا ہے کہ: وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا امارات اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کی بھی وقت نے برسوں نہ صرف پرورش کی ہے بلکہ عالمی میڈیا میں اس پرورش پر تواتر کے ساتھ تبصرے بھی ہوتے رہے ہیں۔ عالمی میڈیا اس کھیل کو اپنے تناظر میں دیکھ رہا ہے جس کی ایک جھلک ذیل میں عالمی میڈیا کے تجزیوں اور تبصروں میں واضح طور دکھائی دیتی ہے۔ برسلز ٹائمز کا تجزیہ دیکھئے ’’ہم یروشلم کے یہودی ہیں جن کے ابائو اجداد اسی سرزمین پر پیدا ہوئے ‘‘یہ ڈائیلاگ سعودی عرب کے زیر کنٹرول ٹی وی چینل ایم بی سی پر نشر ہونے والے ٹی وی سیریل ام ہارون کے ہیں جو رمضان میں ٹیلی کاسٹ ہوا۔ برسلز ٹائمز نے اس ڈرامے کے ٹیلی کاسٹ ہونے کو اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان قربت کا واضح اشارہ قرار دیااور لکھا کہ خلیج کے بدترین دشمن ممالک سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان پس پردہ سفارت کاری کوئی راز نہیں رہی۔2018ء میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی میگزین کو انٹرویو میں کہا تھا کہ اسرائیل کو اپنی سرزمین پر پرامن طریقے سے رہنے کا حق حاصل ہے۔ برسلز ٹائمز نے سعودی حکمران کے اس بیان کو سعودی عرب کے بیانیہ سے یوٹرن قرار دیا۔ ہارٹز کے تجزیہ نگار zvi baral نے اپنے تجزیہ میں اسرائیل کو سعودی عرب کی خوابوں کی ریاست کہا۔ ان کے خیال میں اسرائیل کا عرب سنی ممالک سے بہتر کوئی دوست نہیں ہو سکتا، اس کی وجہ یہ بتائی کہ عرب حزب اللہ کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ سعودی عرب نے لبنان کے وزیر اعظم کو عہدے سے ہٹا پھینکا جو حزب اللہ کے ساتھ برسوں سے پرامن طریقے سے رہ رہا تھا۔ مزیدکہتے ہیں کہ سنی اتحاد کے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کی سعودی عرب سے زیادہ کسی ملک کو خوشی نہیں ہو سکتی۔جس کا مطلب ہے عربوں کی فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کے موقف سے انحراف۔ فروری میں سعودی شاہ سلمان نے کہا تھا کہ یہ مسلمانوں کا ورثہ رہا ہے اور یہودی اس بات سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ دونوں مذاہب کے لوگ ایک پرامن معاشرے میں باہمی تعاون سے زندگی گزارتے رہے ہیں۔ ٹی وی سیریل ام ہارون میں ماضی کے اس قسم کے معاشرے کی ہی عکاسی دکھائی گئی ہے۔ گزشتہ مئی میں سعودی اخبار عرب نیوز نے مسلم ورلڈ لیگ کے جنرل سیکرٹری شیخ محمد بن عبدالکریم العیسٰی کا انٹرویو شائع کیا جس میں العیسیٰ یہودیوں اور مسلمانوں کے تعلقات کے حوالے سے حضور نبی کریمﷺ کے زمانے کو مثال بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہودی اور مسلمان دوستانہ انداز میں ایک ہی خطہ میں رہ سکتے ہیں۔ العیسیٰ مزید لکھتے ہیں کہ ہم نے یہودی بھائیوں سے معاہدے کئے اور باہمی تعاون کی راہیں ہموار کیں ہمارا ایک دوسرے سے محبت اور عزت کا رشتہ ہے۔ سیاسی اختلاف کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہماری تنظیم کا ایجنڈا اختلافات کو ہوا دینا نہیں۔اسرائیل اور عرب ریاستوں کے بڑھتے تعلقات کو اگر نفع اور نقصان کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں اسرائیل کی ہی جیت ہے کیونکہ اسرئیل کے وزیر اعظم نے معاہدے کے بعد واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر یہودی بستیوں کے قیام کا منصوبہ معطل کیا ہے ختم نہیں ۔اسرائیل اپنی زمینوں سے دستبردار نہیںہوگا۔ عرب ریاستیں بالخصوص سعودی عرب ایران کے مقابلے میں اسرائیل کو اپنا بہترین اتحادی تصور کرتی ہیں۔ امریکہ ایران کو تباہ کرنے کے درپے ہے اس طرح امریکہ اسرائیل اور عرب ریاستوں کا مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد نہ تو غیر فطری ہے نا ہی باعث حیرت۔ ٹرمپ کے اس دھماکے سے جہاں عالمی سیاست میں ہلچل مچی ہے وہاں عالمی صف بندیوں کی رفتار بھی تیز ہو جائے گی۔پاکستان گزشتہ سات دہائیوں سے اپنے اتحادیوں کے درمیان تعلقات میں کم وبیش توازن برقرار رکھتا آیا ہے۔ یقینا اب بھی پاکستان کی پوری کوشش ہو گی کہ چین امریکہ ، عرب ریاستوں اور ایران سے تعلقات متاثر نہ ہوں مگر بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق ٹرمپ نے اس اتحاد کے ذریعے پاکستان کو امریکہ سعودی عرب یا ایران اورچین میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور کرنے کی کوشش کی ہے یہ اب پاکستان کی قیادت پر منحصر ہو گا کہ اس تنے ہوئے رسے پر کب تک اور کیسے چلا جائے۔ اقبال نے کہا تھا نا : حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ