اس کو جب تک میں نہیں جانتا تھا دل محبت کو کہاں مانتا تھا خاک اڑانے میں قباحت کیا تھی یہ تو میں صبح و مسا چھانتا تھا ہم آج محبت کا تذکرہ کریں گے مگر اس سے پیشتر آپ عبدالغفور ایڈووکیٹ کی ایک مزیدار ریسرچ سن لیں کہ انہوں نے غیر شادی کے معنی گوگل سے دیکھے تو وہاں "unworried" لکھا ہوا تھا۔ ہمارے ڈاکٹر ناصر قریشی نے اصلاح کی وہاں غلطی ہو گئی ہوگی وہاں unmarried لکھا ہوگا۔ عبدالغفور نے ثبوت پیش کردیا۔ ویسے یہ بات ہمارے دل کو کیا ہرشادی شدہ کے دل کو لگے گی کہ واقعتاً کہ غیر شادی شدہ unworried ہی ہوتا ہے۔ یعنی جسے کوئی غم نہ ہو۔ اسی لیے تو بعض لوگ صرف بیگم کو بے غم بولتے ہیں۔ آپ نے اللہ میاں کی گائے بھی تو سنا ہوگا۔ یہ نصف بہتر کو پیار سے کہتے ہیں۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ محبت کی بات میں یہ کیا تذکرہ شروع کردیا۔ کسی میرے جیسے دانشور نے کہا تھا کہ نیک ہو جانے کی نشانی ہے کہ کسی کو بیوی سے محبت ہو جائے: میں محبت کو زندگی سمجھا اس محبت نے مار ڈالا مجھے ویسے آپ جو کچھ مرضی کرلیں آپ کی بیوی آپ کو کبھی نہیں مانے گی۔ ایک مرتبہ میں نے بیگم کو بتایا کہ برطانیہ میں کوئی میری نظموں کی ٹرانسلیشن کررہا ہے۔ انتہا ئی تعجب سے سوال داغ دیا آپ کی نظموں کی؟ بے ساختہ ہماری زبان سے نکلا ’’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘‘۔ وہ اس پر بھی خوش نہیں ہوئے کہ یہ شاعر بیوی کے سامنے اسے گل کہے دیتے ہیں اور باہر ہر جگہ گل کھلاتے پھرتے ہیں۔ اچانک مجھے مشتاق احمد یوسفی یاد آئے کہ انہیں بیوی سے بہت محبت تھی۔ لندن میں اس خیال سے کہ بیوی کا دل لگار ہے‘ اسے کچھ مرغیاں لادیں۔ ایک دن سخت بارش میں ایک مرغی ان کے مسودے پر آن بیٹھی۔ یوسفی صاحب غصے میں بولے کہ بہت ہوگئی۔ آج کے بعد اس گھر میں میں رہوں گا یا مرغیاں۔ بیوی نے زاروقطار رونا شروع کردیا۔ یوسفی صاحب کہنے لگے چپ کر جائو۔ میں تو مذاق کر رہا تھا۔ بیوی بولی مگر اس بارش میں آپ کہاں جائیں گے۔ خیر بات ہوگی محبت کی۔ مجھے اپنے پیارا دوست غلام محمد قاصر کا شعر یاد آ گیا کہ جس میں سیاستدانوں کے لیے اکثر تصرف کر کے محبت کی جگہ کرپشن کا لفظ لگا دیا جاتا ہے: کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا مجھے یہ بہت لوگوں نے بہت کچھ لکھا اور کہا مگر تشنگی پھر بھی رہ گئی کہ اس عمل میں گنجائش ہی بہت ہے‘ اس کا پھیلائو بھی بہت ہے لیکن اظہار شاہین سامنے آن کھڑے ہوئے: تم کسی راستے سے آ جانا میرے چاروں طرف محبت ہے میرے پیارے قارئین یہ محبت بھی عجیب شے ہے کہ جب بازی پر آتی ہے تو سب کچھ چھین لیتی ہے یا سب کچھ مار دیتی ہے۔ محبت مار دیتی ہے۔ وطن کے پھیلائو میں صرف گوشت پوست اور رنگ و بو ہی نہیں۔ اس میں آدرش بھی ہے۔ یہ ایک کیفیت اور جنون ہے کہ طاری ہو جائے تو سب کچھ بھلا دیتا ہے۔ تجھ کو معلوم نہیں کیا ہے محبت کا کمال۔ جس کو چھوتی ہے اسے خواب بنا دیتی ہے۔ یعنی وطن کی مٹی گواہ رہنا۔ یہ سب باتیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی بہت ہے کہ وہ اس مٹی کی لاج رکھ لیں جس سے ان کوبنایا گیا اور جس مٹی کو آگ نے سجدہ کیا۔ شایدیہ شعر اسی حوالے سے تو نہیں کہ: مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے مگر ہم تو جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ بالکل چکنے گھڑے۔ ہر کام میں مٹی پائو والا حربہ استعمال کرنے والے۔ اقبال کی کون سنتا ہے کہ اس نے کہا تھا ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ یہ نم بھی تو آنکھوں سے آتا ہے۔ جب آنکھوں کا پانی مر جاتا ہے تو کون سی نمی اور نمو۔ ویسے پہلے تو یہ احساس ختم ہوتا ہے اور پھر آنکھیں خالی ہو جاتی ہیں۔ آنکھیں خالی ہو جائیں تو کشکول بن جاتی ہیں۔ ان میں آنسو رہیں تو اسی ظرف کو موتی مل جاتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں یا طا لع آزمائوں نے آنکھوں سے چمک تک چھین لی ہے۔ بجھے ہوئے پژمردہ چہرے۔ معاف کیجئے گا میں ذرا ڈی ٹریک ہو گیا یا پھر ٹریک پر آگیا کہ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے: جو آنکھیں سوالی ہوں اور خوابوں سے خالی ہوں ان آنکھوں کی قسمت ہے پتھرائے ہوئے رہنا محبت کو مقصدبنانا اور بات ہے کہ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے اور اگر اپنے مقصد سے محبت ہو جائے تو وہ جنوں میں ڈھل جاتی ہے۔ محبت مجھے ان جوانوں سے ہے۔ ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند۔ مگر ہمارے نوجوان کہاں کمندیں ڈالتے ہیں‘ سب جانتے ہیں۔ بہرحال انسانیت سے محبت اصل بات ہے۔ اس محبت میں انسان خود بھی بدل جاتا ہے ویسے کم سے کم محبت کرنے والا نفرت نہیں کرتا۔ پذیرائی بھی ایک قسم ہے: وہ کہ تسلیم تو کرتا ہے محبت میری میں ادھورا بھی نہیں اور مکمل بھی نہیں غالب کے شاگرد نے بھی کہا تھا شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ۔ اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی۔ خورشید رضوی نے بھی تو کمال کہا‘ دو بول محبت کے جس نے بھی کہے اس کو۔ افسانہ سنا ڈالا تصویر دکھا ڈالی۔ واقعتاً انسان محبت کا بھوکا ہے۔ وہ محبت کا کوئی لفظ نہ لب تک آیا اور میں تھا کہ برابر ہمہ تن گوش رہا۔ مجھے پتہ ہے کہ میں لکھتے ہوئے ادھر ادھر بھٹک رہا ہو۔ اب آخر میں محبت کرنے والے درویش شاعر طارق چغتائی کے تازہ شعری مجموعہ ’’تری تصویر کہاں ہے‘‘ کا تذکرہ خیر۔ اس مجموعہ کی انفرادیت یہ ہے کہ ہر غزل میں ایک ہی خاندان کے قافیے استعمال کئے گئے ہیں۔ مثلاً تدبیر‘ تحریر اور تصویر وغیرہ۔ خود کو ان بندھنوں میں باندھ کر اتنے شعر نکالنا آسان نہیں۔ ان کی قادر الکلامی کی گواہی ڈاکٹر طارق عزیز‘ باقی احمد پوری‘ حسن عسکری کاظمی‘ حمیدہ شاہین اور اعتبار ساجد نے دی ہے: کھینچا نہ کبھی ہاتھ روایات سے طارق لاہور میں رہتا ہوں مگر میر کی صورت