نئے مالی سال کے تیسر ے ہفتے میں ہی حکومت نے ضمنی گرانٹس کے دروازے کھولتے ہوئے آئندہ عام انتخابات کے لیے 42 ارب 53 کروڑ روپے جبکہ ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے حکومت اور عسکری قیادت کی جانب سے نئی تشکیل شدہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے لیے 20 کروڑ روپے کی منظوری دے دی ہے۔معشیت کی ترقی کے لاکھ دعوے سہی مگر حقائق کی پڑتال کچھہ جداگانہ ہے۔ مالی سال 22-2021ء کے مقابلے میں گزشتہ مالی سال ترسیلات زر میں 15.9 فیصد کی کمی سامنے آئی ہے، اوورسیز پاکستانیوں نے جون کے دوران 2.2 ارب ڈالر بھیجے، جون 2023ء میں ترسیلات زر میں 27 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی اور 2 ارب 20 کروڑ ڈالر موصول ہوئے، مالی سال 2023ء کے دوران ترسیلات زر کی مد میں مجموعی طور پر 27.0 ارب ڈالر موصول ہوئے جو مالی سال 2022ء کے مقابلے میں 13.6 فیصد کم ہیں۔ جون 2023ء میں ترسیلات زر کی آمد کے اہم ذرائع میں سعودی عرب 515.1 ملین ڈالر، برطانیہ 343.0 ملین ڈالر متحدہ عرب امارات 324.7 ملین ڈالراور امریکا 272.3 ملین ڈالر شامل ہیں، کیا یہ عوام کا حکومت پر عدم اعتماد نہیں اور اوورسیز پاکستانیوں کو برا بھلا کہنے کا نتیجہ نہ ہے؟ سیلاب اور عدم توجہی شعبہ زراعت کا نوحہ ہے جبکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی ایکسپورٹ گزشتہ مالی سال 2023ء کے دوران سالانہ بنیادوں پر 14.63 فیصد کمی کے بعد 16 ارب 50 کروڑ ڈالر رہی، جس کی وجہ بْلند پیداواری لاگت، محدود سرمایہ اور عالمی سطح پر کم طلب ہے، جون میں سالانہ بنیادوں پر برآمدات 13.73 فیصد کمی کے بعد ایک ارب 47 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات میں کمی کے نتیجے میں پاکستان کی اشیا کی مجموعی برآمدات مالی سال 23-2022ء کے دوران سالانہ بنیادوں پر 12.71 فیصد کمی سے 27 ارب 54 کروڑ ڈالر رہیں جو گزشتہ برس 31 ارب 78 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں۔ ٹیکسٹائل مشینری کی درآمدات میں مالی سال 2023ء کے دوران 57.03 فیصد کمی ہوئی، گویا ثابت ہوا کہ منصوبوں کو جدید کرنا یا توسیع دینا ترجیح حکومتی نہیں رہی۔ یہی نہیں پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات مالی سال 2023 ء کے دوران سالانہ بنیادوں پر 27.03 فیصد کم ہوئیں، یہ اعدادوشمار چیخ چیخ کر بتاتے ہیںکہ معاشی سست روی اور غیر معمولی مہنگائی عوام اور معشیت کو لے ڈوبی۔ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات اور مقامی پیداوار میں بھی کمی کا رجحان رہا۔ مجموعی طور پر پیٹرولیم گروپ کی درآمدات مالی سال 2023ء کے دوران گر کر 17.01 ارب ڈالر رہیں جو گزشتہ مالی سال کے دوران 23 ارب 31 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات مالیت کے حساب سے 36.80 فیصد اور مقدار کے حساب سے 38.82 فیصد کمی ہوئی، جبکہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمدات جولائی تا جون 2023ء کے دوران سالانہ بنیادوں پر 24.57 فیصد سکڑی۔ مشینری کی درآمدات مالی سال 2023ء کے دوران 46.82 فیصد گر کر 5 ارب 80 کروڑ ڈالر رہ گئی، جو مالی سال 2022 کے دوران 10 ارب 92 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھی، جس کی وجہ موبائل فون و دیگر ٹیلی کام آلات کی درآمدات میں 64.35 فیصد تنزلی ہوئی ہے۔ مالی سال 2023ء کے دوران موبائل فون کی درآمدات 71.19 فیصد کم ہوئی، ٹیکسٹائل مشینری، پاور جنریشن، زراعت اور الیکٹریکل اپلائنسز کی درآمدت میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) گزشتہ مالی سال کے دوران 25 فیصد گر کر ایک ارب 46 کروڑ ڈالر کی سطح پر آگئی، جس سے ملک میں سرمایہ کاری کے خراب ماحول کا عندیہ ملتا ہے۔ جون میں ایف ڈی آئی گزشتہ برس کے اسی مہینے کے 27 کروڑ 10 لاکھ کے مقابلے میں 11 کروڑ 40 لاکھ ڈالر رہی۔ یہ کمی نصف سے زائد ہے۔ گزشتہ کئی سال سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے نظر انداز کیے جانے والا ملک جون میں ختم ہونے والے پورے مالی سال کے دوران سیاسی اور اقتصادی بے یقینی کی لپیٹ میں رہا۔ پی ڈی ایم سرکار مادر وطن میں پوٹینشل کے باوجود وزیر اعظم مینگو ڈپلومیسی اور بلاول کے سیر سپاٹوں کے ثمرات گنواتے ہوئے بھی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں ناکام رہے۔ اوپر سے ستم بالائے ستم سٹیٹ بینک نے پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کو منافع منتقل کرنے سے روک دیا تھا، جس کی وجہ خراب زرمبادلہ کے ذخائر تھے تاہم اس سے ملکی سرمایہ کاری کے ماحول کو نقصان پہنچا۔ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جون 2023ء میں براہ راست سرمایہ کاری کی مد میں 14 کروڑ 14 لاکھ ڈالر موصول ہوئے۔ جون 2022ء میں یہ رقم 29 کروڑ 34 لاکھ ڈالر تھی جبکہ اْسی مہینے غیر ملکی سرمایہ کاری کا اخراج بڑھ کر 2 کروڑ 71 لاکھ ڈالر ہو گیا، جو گزشتہ برس 2 کروڑ 23 لاکھ ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ پورے مالی سال 2023ء کے دوران ملک میں 21 فیصد کمی کے ساتھ 2 ارب 13 کروڑ ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی گئی جبکہ اخراج 11 فیصد سکڑ کر 67 کروڑ 56 لاکھ ڈالر رہا۔ گزشتہ کئی برسوں سے چین ہمارا سب سے بڑا سرمایہ کاری اور سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، جس نے مالی سال 23-2022ء کے دوران بھی سب سے زیادہ 43 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی مگر یہ بھی گزشتہ برس کے 59 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں کم تھی۔ بہرحال ترسیلات زر اور برآمدات میں کمی سے ملک کو مجموعی طور پر 8 ارب 40 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا، ایشیائی ترقیاتی منظرنامے میں پیش گوئی کرتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ 2024ء میں بھی مہنگائی کی شرح بلند رہنے کے خدشات ہیں۔ حکمرانوں کی کارکردگی سے ثابت ہواکہ مسئلہ سائفر نہیں اور ہے، وہ یہ کہ میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح!!! ۔