پانامہ اسکینڈل کے بعد کہا گیا کہ نوازشریف نظریاتی ہوچکے اور اپنا ایک بیانیہ تشکیل دے چکے ہیں۔نوازشریف کے بیانیہ کے ساتھ ساتھ میاں شہباز شریف اور مریم نواز کے بیانیہ کا بھی چرچا رہا۔میاں نواز شریف کو جیل ہوئی تو سوال اُٹھائے گئے کہ اب اِن کے بیانیہ کو آگے کون بڑھائے گا؟ جواب دیا جاتا رہا،مریم نواز…کہ میاں شہباز شریف کا تو اپنا الگ بیانیہ ہے۔ لیکن میاں نواز شریف ،شہباز شریف اور مریم نواز نے پہلے خاموشی اُوڑھی پھرلندن کا رختِ سفرباندھا ، مریم نواز بدستور خاموش اور باہر جانے کے لیے بے تاب ہیں تواب بھی تینوں کے بیانیہ کی باتیں زیرِ بحث ہیں۔سوال یہ ہے کہ میاںنوازشریف واقعی نظریاتی ہیں؟مزیدبراں شہباز شریف اور مریم نواز کا بھی کوئی بیانیہ ہے؟ اس ضمن میں ہمارا خیال یہ ہے کہ میاں نوازشریف کی سیاسی زندگی میں کئی موڑ ایسے آئے ،جب یہ سیاسی بیانیہ تشکیل دے سکتے تھے،مگر ایسا نہ ہوسکا،البتہ ایک آدھ موڑ ایسا آیا،جب محض’’ بیان (Statement)‘‘ کو بیانیہ کی تشکیل سمجھا جانے لگا۔میاں نوازشریف کی سیاسی زندگی میں پہلا موڑ تب آیا ،جب نوے میں یہ وزیرِ اعظم بنے اور تھوڑے ہی عرصہ بعد ،صدر غلام اسحق خان سے ان کے اختلافات پیدا ہوگئے اورصدرنے ان کی وزارتِ عظمیٰ کا خاتمہ کردیا۔وزارتِ عظمیٰ کا چھن جانا،اِنہیں ایک مختلف سیاست دان بناسکتا تھا۔مگر یہ موقع ضائع ہو گیا۔دوسرا موڑ تب آیا ،جب اِ ن سے دوسری بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب چھین لیا گیا ،لیکن یہ سیاسی بیانیہ تشکیل دینے کے بجائے ملک چھوڑ کر ہی چلے گئے۔تیسرا موڑ تب آیا ،جب دوہزار چھ ،لندن میں یہ بے نظیر کے ساتھ میثاقِ جمہوریت معاہدے پر دستخط کررہے تھے اور اگلے برس نومبر میں وطن واپس آئے،لیکن بعدمیں اِنہوں نے پی پی پی کے دورِ حکومت میں کالا کوٹ پہننے کو ترجیح دی۔چوتھا موڑتب آیا ،جب پانامہ اسیکنڈل کے بعد یہ تیسری بار بھی اپنی مُدت پوری نہ کرسکے۔تاہم پانامہ اسیکنڈل کے بعد اور جیل جانے سے قبل اِن کے ردِ عمل اور نعروں سے گمان ہوا کہ نوازشریف نظریاتی ہو چکے ہیں اور اپنا سیاسی بیانیہ تشکیل دے چکے ہیں۔ چودہ مار چ دوہزار سترہ کو کراچی میں ہولی کی تقریر سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہاتھا’’کسی کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے لیے کہنا جرم ہے‘‘ بعد میں جامعہ نعیمیہ لاہور میں ایک تقریب سے خطاب میں اِنہوں نے مذہبی اکابرین پر زور دیاتھا’’ وہ دہشت گردوں کے نظریات کے خلاف متبادل بیانیہ دیں‘‘نوازشریف کے اس طرح کے بیانات سے یہ سمجھاجانے لگا کہ یہ نظریاتی ہو چکے ہیں ،یہا ں ایک بات کا خیال رہے کہ اِن کے نظریاتی ہونے کی باتیں ،پانامہ اسکینڈل کے بعد شروع ہوئی تھیں۔پانامہ اسیکنڈل سے پہلے نوازشریف کے کسی عمل اور نعرے سے نظریاتی ہونا محسوس نہیں ہواتھا۔اس بات کا بھی خیال رہے کہ پی ایم ایل این کے دورِ حکومت میں جب آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان ترتیب پایا،تو کہا جاسکتا ہے کہ ریاست کی طرف سے ایک قومی بیانیہ سامنے آیا تھا،جو پروان تو نہ چڑھ سکا،لیکن یہ کسی سیاسی جماعت کا بیانیہ نہیں تھا۔میاں نواز شریف کا ہولی کی تقریب اور جامعہ نعیمیہ میں خطاب ،جس میں قدرے مختلف بات کی گئی اور پہلی باراِن کے خیالات میں ماضی کی نسبت تبدیلی کی جھلک محسوس کی گئی تھی تو،اس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ نوازشریف کے دورِ حکومت میں مقبول بیانیہ صرف اور صرف سیکولر بیانیہ تھا،اس بات کا ادراک پی ایم ایل این کو ہو گیا تھا ،جبھی نواز شریف کو ہولی کی تقریب اور جامعہ نعیمیہ میں قدرے مختلف بات کرنا پڑگئی تھی۔اس کی ایک مثال قائد اعظم یونی ورسٹی کے شعبہ فزکس کو ڈاکٹر عبدالسلام سے جوڑنے کی کوشش کی بھی، دی جاسکتی ہے۔ ہماری رائے کے مطابق نوازشریف،شہباز شریف اور مریم نواز کا کوئی بیانیہ نہیں رہا،نہ ہی پی ایم ایل این بطور ایک سیاسی پارٹی کبھی قومی و سیاسی بیانیہ دینے میں کامیاب رہی ہے۔پی ایم ایل این کی سیاسی ناکامی اور مجموعی طورپر ملکی سیاسی نظام کی ناکامی کے پیچھے ،کسی بیانیہ کا نہ ہونا بھی ہے ۔ تیسری بار وزارتِ عظمیٰ نہ رہنے کے بعد میاں نوازشریف کی جانب سے لگایاجانے والا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ ،عوام کی بالادستی کا بیانیہ ٹھہرسکتا تھا۔مریم نواز بھی بارہا یہ کہتی چلی آئی ہیں کہ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ہی پی ایم ایل این کا بیانیہ ہے۔مگر یہ نعرہ ،بیانیہ ،نہ بن سکا،جس کو سیاست دان بیانیہ کہہ رہے ہوتے ہیں ، وہ بیانیہ نہیں بیان ہوسکتا ہے۔بیانیہ اور بیان میں بہت زیادہ امتیاز ہے۔بیان یا Statementکوئی ،کسی موقع کے حوالے سے دے سکتا ہے۔لیکن بیانیہ طرزِ زیست ہوتا ہے۔یہ مجموعی رویوں کا احا طہ کرتا ہے۔یہ ہمہ گیرہوتا ہے۔ یہ سماجی رویوں کو تشکیل دے کر نظام کی صورت گری کرتاہے۔ یوں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ بیانیہ نہ بن سکا،بیان نعرہ تک ہی محدود رہا،اگرچہ بیان اور بیانیہ باہم جڑے ہوئے ہیں ،بیان ہی بیانیہ بنتا ہے ،لیکن جب یہ طرزِ زیست بن جائے۔بیانیہ کی تشکیل سماجی و اقتصادی اور سیاسی ضرورتوں کے تحت ہوتی ہے ،لیکن پی ایم ایل این کی جانب سے، یہ کوشش اگر ہوئی بھی ہے، تو یہ ذاتی نوعیت کے فائدے کے لیے ہے۔پی ایم ایل این کو اگر دوہزار چودہ میں دھرنا کی صورت مشکل نہ پڑتی اور دوہزار سولہ میں پانامہ اسکینڈل کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو کیا پھر بھی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگتا اور اور اس کو بیانیہ کہاجاتا؟صاف ظاہر ہے کہ نہیں۔گویا جس کو یہ بیانیہ کہتے ہیں ،وہ ذاتی مفاد اور ضرورت کے تحت تشکیل دیا گیا۔ہر سیاسی جماعت کا اپنا ایک منشور تو رکھتی ہے ،جس میں اُس جماعت کے اصولوں کی تشریح ہوتی ہے۔پی ایم ایل این کا بھی منشوررہا ہے ،مگر وہ کبھی منشور کو بیانیہ میں بدل نہ سکی۔جو سیاسی تجزیہ نگار اور دانشور اس بات پر بہ ضد ہیں کہ نوازشریف اور پی ایم ایل این کا بیانیہ رہا ہے تو پھر اس جماعت کا بیانیہ ہمیشہ اقتدار کے حصول سے جڑے رہنا بنتا ہے۔ دوسری طرف بیان ،عمل سے جڑے تو بیانیہ آہستہ بہ آہستہ تشکیل پانا شروع ہو جاتا ہے،جب یہ اپنی اہمیت اور افادیت قائم نہ رکھ پائے تو اِس کو پرکھنے کی ضرورت پڑجاتی ہے۔جبکہ سیاسی نعرہ اپنی اہمیت کھودے تو اِس کی جگہ نیا نعرہ تخلیق کیا جاتا ہے،پی ایم ایل این نئے نعرے تخلیق کرتی رہی ہے۔میاں نواز شریف کے وہ بیان،جو گاہے بہ گاہے دیے گئے ، جن کو بیانیہ سمجھا گیا ،کیا اِن کے عمل سے جڑ کر عوام میں مقبول ہوسکے؟مثال کے طورپر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘کے لیے عملی طورپر کیا ہوا؟پاکستان مسلم لیگ ن کا یہ بیانیہ نہیں نعرہ تھا۔