محفل سے اٹھ نہ جائیں خامشی کے ساتھ ہم سے نہ کوئی بات کرے بے رخی کے ساتھ اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ بس زندگی اسی کا نام ہے۔ اس میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔ اس زندگی کا سانحہ کتنا عجیب ہے۔ ہم دیکھتے ہیں موت کو لیکن کسی کے ساتھ۔ میرا مقصد آپ کو اس تذکرے سے ڈرانا نہیں۔ کچھ باتیں اصل میں عرصہ بعد کھلتی ہیں۔ کہنے کو اک الف تھا مگر اب کھلا کے کہ، وہ پہلا مکالمہ تھا میرا زندگی کے ساتھ۔ یہ خودکلامی بھی ہے۔ بہاری کا شعر ذہن میں آ گیا۔ زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں۔ اور کیا جرم ہے پتہ ہی نہیں۔ لیکن امید کا پہلو بھی تو غالب نے دکھایا۔ کوئی دن گر زندگانی اور ہے۔ اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے۔ آج کے ہنگام میں سکون اور اطمینان کہاں۔ ایک ہنگامے پہ موقوف گھر کی رونق۔ ابھی گھڑی ٹلی نہیں ہے۔ ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ کا ارادہ ہے اور دوسری جانب سے پیش بندی۔ آپ نے تاش میں بلف گیم دیکھی ہوگی۔ یہ بلف ضروری نہیں کہ ہمیشہ چل جائے۔ ویسے بس سیاست تاش کا کھیل نہیں۔ اس کے کچھ زمینی حقائق ہیں اور کچھ آسمانی۔ کوئی بلف کھیلے اور پھر وہ ٹف اور رف بھی ہو تو نتائج کسے معلوم۔ پرویزالٰہی کی بات دل کو لگتی ہے کہ اتنی گھمبیر صورت حال میں بھی وہ کہہ رہے ہیں کہ اسمبلی میں رہ کر ن لیگ کا مقابلہ ہوگا۔ پھر یہی رویہ قومی اسمبلی میں کیوں نہیں اپنایا جا سکتا۔ شہزاد صاحب نے کہا تھا: اپنا حق شہباز چھینیں گے مانگیں گے نہیں رحم کی طالب نہیں بے چارگی جیسی بھی ہے میرا خیال ہے اور یہ غلط بھی ہو سکتا ہے کہ اگر خان صاحب حوصلہ اور بردباری دکھاتے ہوئے اپوزیشن بنچوں میں آن بیٹھتے تو ان کی صلاحیتیں اور زیادہ اجاگر ہوتیں۔ ایک لیڈر اپوزیشن میں بھی اپنا بانکین دکھا سکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ پارلیمانی نظام میں اگر آپ ہیں تو پھر اسی کے اصولوں پر رہ کر آپ مقابلہ کرسکتے ہیں۔ آپ کو یاد ہے ناں کہ اس سے پہلے بھی پی ٹی آئی نے اسمبلی کو جعلی قرار دیا تھا۔ ۔ اب کے بھی وہی پریکٹس دہرائی جا رہی ہے۔ ایک بات خان صاحب کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ ایک غالب اکثریت عوام کی ملک میں سکون چاہتی ہے کہ کاروبار پہلے ہی تباہ ہیں۔ آپ کا بیانیہ بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ہم اپنی خودمختاری اور سالمیت چاہتے ہیں اور کوئی باہری مداخلت نہیں چاہتے۔ یہ بات مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ مخالفین نے سازش کر کے آپ کو ہٹانے کے لیے ایک آئینی طریقہ اختیار کیا۔ یہ بھی درست کہ آپ کے بل بوتے پر جیتنے والوں نے آپ کے ساتھ بے وفائی کی اور سیاسی چال چلتے ہوئے اپوزیشن بنانے میں کامیاب ہو گئے۔آپ ایک اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے اپنی ناکامی کو تسلیم کرلیتے اور پھر حکومت کوٹف ٹائم دیتے۔ عوام کو اپنی مشکلات کا بتاتے۔ آپ کے ہوتے ہوئے حکومت کا چلنا مشکل ہو جاتا کہ وہ مہنگائی کو تو روک نہیں سکتے تھے۔ آپ کو اپنی ناکامی کے اسباب و محرکات پر غور کرنا چاہیے ۔ کبھی خان صاحب نے سوچا نہیں کہ ایک بندے کی جماعت اور اسے اتنی بڑی جماعت پی ٹی آئی کا انجن بنا دیا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ سٹیئرنگ پر بیٹھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کو سیاست سے منہا نہیں کیا جا سکتا اور ان کا لور کلب موجود ہے ۔ کتنے پڑھے لکھے لوگ ہیں جو شہباز گل کے طرز سیاست پر حیران ہوتے ہیں کہ کسی نے اسے سیدھی اور پر اثر بات کرتے نہیں دیکھا۔ وہ مکالمے میں تلخ اور تند لب و لہجے سے لڑائی کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ زرتاج گل اپنی معصومیت کے باوجود ان سے کہیں بہتر ہے۔ خان صاحب کو اپنا اسلوب سیاست بدل کر دیکھنا چاہیے۔ اداروں پر پریشر بڑھانا بھی درست نہیں کہ مخالف پارٹی کو بھی بات کرنے کا موقع ملتا رہے جواباً وہ بھی اسی طرح اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو اداروں کے لیے مشکل پیدا ہو جاتی ہے۔ اداروں کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں۔ پنجاب میں آخر انجینئر بلیغ الرحمن گورنر بن چکے اور آٹھ وزرا نے حلف بھی اٹھا لیا ہے اور بات پھر وہیں آتی ہے کہ پرویزالٰہی نے ایک گھاک سیاستدانوں کی طرح فیصلہ کرلیا کہ اسمبلی میں انہیں ٹف ٹائم دیا جائے گا۔ لڑائی جھگڑے کا نتیجہ شاید مشکل سے نکلے گا کہ حکومت کے پاس وسائل ہیں۔ وہ آگے بڑھ کر کھیل رہے ہیں۔ شاید وہ فرسٹریشن میں ہیں کہ کب ان کا کھیل ختم ہو جائے مگر اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ فوراً سب کچھ چھوڑ دیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ انہیں کھونے کا ڈر نہیں۔ منیر نیازی کے بقول: آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے یہ تاثر ابھارا جارہا ہے کہ پخوتنخوا صوبہ وفاق پر یلغار کرنا چاہتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی قیادت صرف پھرتیاں دکھاتی رہی۔ خان صاحب نے خود بھی محسوس کیا ہے اسی لیے یہاں تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔ میں پوری دیانتداری سے ایک مرتبہ پھر کہہ رہا ہوں کہ غالب اکثریت جو خاموش اکثریت ہے ہنگامہ آرائی اور افرا تفری کو پسند نہیں کرتی۔ دوسری طرف حکومت توڑ پھوڑ اور ریاستی نقصان پر پی ٹی آئی کے رہنمائوں پر مقدمے بنانے جا رہی ہے۔ وہ ان کے استعفے بھی تھوڑے تھوڑے کر کے منظور کرے گی۔ ضمنی الیکشن کروائے گی۔ پنجاب میں ڈی سیٹ ہونے والے ممبران کی جگہ ضمنی الیکشن بہت زیادہ اہم ہیں۔ اب یہاں پی ٹی آئی نے مقابلہ کا فیصلہ کیا تو اچھا کیا۔ خان صاحب کے لیے ایک شعر: کون سمجھے میرا تنہا ہونا یہ ہے دنیا سے شناسا ہونا خان صاحب کو چاہیے کہ وہ مستقل بنیادوں پر سیاست کریں۔ اپنی غلطیوں پر نظر رکھیں اور مثبت انداز میں آگے بڑھیں اور سوچیں کہ جن کی سیاست ختم ہو چکی تھی وہ کیسے کھیل میں آ گئے۔ صرف اتنا کہنے سے کام نہیں بنے گا کہ وہ سازش کا نتیجہ ہیں۔