مجھ کو میری ہی اداسی سے نکالے کوئی میں محبت ہوں محبت کو بچا لے کوئی میں سمندر ہوں مری تہہ میں صدف ہے شاید موج در موج مجھے آ کے اچھالے کوئی موجودہ لاک ڈائون میں سچ مچ میں اداس ہو گیا ہوں۔ حالانکہ موسم بہت خوشگوار ہے۔ بادل بھی ہیں اور کن من بھی۔ اور لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے، کہ کہتے ہیں کہ جب فصلیں کٹ رہی ہوں تو پھر سونے کی بوند بھی جان لیوا ہوتی ہے۔ کسان کو پتھر کی طرح لگتی ہے مگر اس کی وہی جانتا ہے اور یہی بات دل کو تسلی دے جاتی ہے مگر اداسی کی اور باتیں بھی تو ہیں کہ اس موسم میں بندہ کدھر جائے کیسے خوشی کے گیت گائے کہ فضائوں میں تو وائرس کا خوف رینگ رہا ہے اور مستقبل میں جھانکیں تو کچھ عجیب سی تصویریں بننے لگتی ہیں۔ قحط بھی نہیں، مگر قحط زدہ سا خیال ہم پر مسلط ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ سب کنفیوژ ہیں۔ جتنے لوگ بھی مر رہے ہیں وہ کورونا سے مر رہے ہیں کہ شاید یہ طے کر لیا گیا ہے کہ کسی کو کسی اور بیماری سے مت مرنے دیں۔ میں اس بحث میں بالکل نہیں پڑوں گا کہ بہرحال احتیاط پھر بھی بہتر ہے۔ میری اداسی میں ایک پرانا گیت بھی گونجنے لگتا ؎ یہ اداس اداس ٹھنڈک جو بسی ہے اس بدن میں کہیں بجلیاں نہ بھر دے کسی گوشہ چمن میں پہلے کبھی اس طرح تو نہیں تھا کہ باہر نکلیں تو لوگوں سے زیادہ بھکاری آپ کو نظر آتے ہوں۔ یہ مشاہدہ آپ بھی کر چکے ہونگے کہ بیکری ہو یا کوئی اور ایسی جگہ یعنی میڈیکل سٹور ہو تو گھات میں آپ کو پیشہ ور بھکاری نظر آئیں گے۔ ایسے لگتا ہے کہ ان کے لئے موجودہ صورت حال بہت ہی ثمر آور اور قیمتی ہے۔ لوگ بھی خیرات کرنا چاہتے ہیں اور ان کے سامنے یہی لوگ جلوہ گر ہیں۔ ان پیشہ ور بھکاریوں نے مزدوروں کا روپ بھی دھار رکھا ہے۔ سجاد میر صاحب درد دل سے بات لکھی ہے کہ ہے یہ جو قطار اور در قطار مزدور بیٹھے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ کام نہیں پھر حکومت نے بارہ بارہ ہزار کس کو دیے ہیں۔ بات کسی حد تک ان کی بھی درست ہے کہ سب اپنے اپنے جیالوں کو نوازتے ہیں اور ڈیٹا چونکہ بے نظیر سکیم سے لیا گیا تو اس میں سندھ کے جیالے اکثریت میں ہیں۔ آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ جب کسی نے تحقیق کی تو مزدوروں میں بیٹھے ہوئے اکثر لوگ کام پر جانے کے لئے تیار نہیں تھے کہ وہ مستری مزدور ہوتے ہی نہیں وگرنہ مزدور تو بہت خوددار ہوتے ہیں۔ میں نے ایک نمازی مزدور کی موبائل پر اپنی والدہ سے گفتگو سنی تو اسے روک کر اس کی ہتھیلی پر کچھ رکھنے کی کوشش کی تو اسے جیسے کرنٹ لگا کہنے لگا میں کوئی لولا لنگڑا ہوں۔ خود کمائوں گا تو ماں کو بھیج دوں گا میں اسے قائل نہ کر سکا کہ تحفہ ہی سمجھ لے۔ مجھے فیصل عجمی کا شعر یاد آ گیا: پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر گیا خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا ان دنوں میرے لئے پسندیدہ بات یہ ہے کہ میں مصطفی ٹائون میں رہائشی پذیر اپنے چھوٹے بھائی احسان اللہ شاہ کے گھر والد محترۃم سے ملنے جاتا ہوں۔ ان کے پاس بیٹھا رہتا ہوں۔ ان کی حمد اور نعت ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر ڈال کر ان کو سناتا ہوں تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس عمل کی وجہ سے میری ساری بیماری جاتی رہی ہے۔ آمدم برسر مطلب ایک روز میں علی الصبح وہاں گیا تو مصطفی ٹائون کے گھروں کے باہر نوٹس نما کاغذ آویزاں تھے۔ دور سے تو ایسے لگا کہ کوئی ڈیمانڈ نوٹس وغیرہ ہیں یا پھر کسی محکمے کی طرف سے وارننگ ، تجسس پیدا ہوا کہ دیکھا جائے۔ میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو میں خوشگوار احساس سے سرتاپہ سرشار ہو گیا کہ یہ تو جماعت اسلامی مصطفی ٹائون کی طرف سے آفر تھی کہ اگر آپ موجودہ تکلیف دہ صورت حال میں مالی مشکلات میں ہیں تو بے جھجک موجود نمبر پر فون کریں‘ راشن آپ کو گھر پر پہنچ جائے گا۔ ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ پیشہ ور بھکاری ذرا دور ہی رہیں۔ بس اصل نیکی بھی یہی ہے ۔ اللہ ایسا سوچنے والوں کو بھی جزائے خیر دے: ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنی محبت میں کیا گو سمجھتے ہیں زمانے کی ضرورت کیا تھی میری اداسی پھر بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اس وقت جبکہ ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے اور لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ بے روزگاری حدیں پار کر رہی ہے۔ کاروباری لوگوں کا برا حال ہے کہ اپنے ملازموں کو دو ماہ کی تنخواہیں جیب سے دینا پڑی رہی ہیں۔ وہ کب تک زیرو آمدن پر اپنا گھر بھی چلائیں گے۔ ایسے میں بھی ہمارا حوصلہ بڑھانے کی بجائے حکومت اور اپوزیشن کے لوگ مکمل طور پر سیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ کبھی پٹرول پر فقرے بازی ہو رہی اور کبھی اٹھارویں ترمیم پر الجھ بیٹھے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت پچھلی جماعتوں نے اپنے اپنے خاندان کی اجارہ داری کو مضبوط کر لیا مگر کورونا کو تو گزر جانے دیں‘ اس کا رونا پھر سہی حکومت کی یہاں تک مت ماری گئی ہے کہ انتہائی خوفناک مسئلہ اقلیت کمیشن اور اس میں احمدیوں کی نمائندگی کا چھیڑ لیا۔ سید ارشاد احمد عارف نے اس پر انتہائی مدلل کالم لکھا ہے جو میں نے شیئر بھی کیا ہے۔ خدا کے لئے ہمارے جذبات کو برانگیختہ نہ کریں ۔ لوگ بھوک برداشت کر لیں گے مگر ختم نبوت والا معاملہ کہ اس میں نقب لگائیں برداشت نہیں ہو سکتا۔ اے سعد محمدؐ سے لازم ہے محبت یوں ہر شخص کہے تجھ کو دیوانہ ہے دیوانہ بہرحال اس وقت لازم ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال کو سنبھالا جائے۔ یہ وزیروں اور مشیروں کی ردوبدل سے عوام کو کوئی غرض نہیں۔ ہاں اگر لوگوں کو خوش کرنا ہے تو ان چوروں اور ڈاکوئوں کو سزا دیں جو کب سے چینی اور آٹے کی مد میں انہیں لوٹ رہے ہیں۔ان بدبخت فلور ملوں والوں کو پکڑیں اور جو حکومت سے کم قیمت پر گندم خرید کر بازار میں بیچ دیتے ہیں مگر ہماری ہسٹری شیٹ اچھی نہیں اور اب کچھ مختلف نہیں۔اب بھی گا، گے، گی ہو رہا ہے۔ جس ملک میں خیرات میں آئی کھجوریں اور کمبل مارکیٹ میں آ جائیں اور جس ملک کا وزیر اعظم خیرات میں ملا نیکلس اپنی بیوی کے گلے میں ڈال دے۔ آپ وہاں کیا امید رکھیں گے۔ یار جی! ہر سوچ ہی اداس کر دینے والی ہے۔ مگر کچھ باتیں دو گھڑی کے لئے ہی سہی اداسی کم کرتی ہیں کہ کوئی شجاعت ہاشمی‘ اسلم کمال‘ باقی احمد پوری جیسا دوست فون کر کے حال چال پوچھے ۔