کل شام قریشی صاحب میرے ساتھ بیٹھے ایک نیوز چینل پر خبریں سن اور دیکھ ہی نہیں رہے تھے ،مسلسل تبصرے بھی فرما رہے تھے، مجھے دوستوں کی غیرضروری باتیں متاثر نہیں کرتیں‘ چاہے وہ خبروں کی شکل میں ہی کیوں نہ ہوں، جتنے مرضی لوگ ہوں اور جتنا مرضی شور، میں اپنا کام کرتا رہتا ہوں، یہ بات صرف انہی لوگوں کو معلوم نہیں جنہوں نے مجھے کام کرتے نہیں دیکھا ،ہم تو بیک وقت ایک درجن چینلز کی آوازیں کھلی رکھ کر بھی ڈسٹرب نہیں ہوتے، چھوٹی چھوٹی آوازیں کیسے ہمارے اعصاب پر سوار ہو سکتی ہیں؟ اور ہاں، مجھ جیسے لوگوں کو اگر کسی چیز سے ڈر لگتا ہے تو وہ ہے خاموشی ،اس وقت نیوز چینل پر شیخ رشید اور رانا ثنا اللہ چھائے ہوئے تھے، میرا دوست تبصرے کرتا کرتا تھک گیا تو مغلظات پر اتر آیا، میں اس کے باوجود خاموش رہا تو اس نے زوردار آواز میں میری جانب ایک سوال پھینکا… صاحب! ہم کہاں رہ رہے ہیں؟ رانا ثنا اللہ اور شیخ رشید کے درمیان، میرا جواب تھا جی ہاں، ہم اسی ملک میں رہ رہے ہیں‘ جہاں کے سیاست دان آجکل ہر چینل کے کامیڈی پروگرام میں بیٹھے اداکاری کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں یا عدالتوں میں پیشیاں بھگتتے ہوئے ۔ ٭٭٭٭٭ اس وقت پاکستان میں سب سے طاقتور ادارہ بظاہر نیب دکھائی دیتا ہے، ڈور اس کے ہاتھ میں ہے، جس کی چاہے پتنگ کاٹ دے، باقی ساری پتنگیں شاید کچے دھاگوں سے اڑائی جا رہی ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان کی گھر واپسی میں دوہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا ہے،جاتے جاتے وہ بہت اشارے دیں گے،بہت سارے ریمارکس دیں گے کیونکہ وہ جو کچھ چاہتے تھے ہمارے خیال میں وہ ہوا نہیں، بحیثیت ادارہ قومی احتساب بیورو نیب کے بارے میں ان کے ریمارکس تاریخ کا حصہ بنیں گے،ادارہ رہے نہ رہے اس کے نام کا ڈنکا بہت دیر تک بجتا رہے گا، حکومت کو نیب سے شکایت،وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ وہ جو چاہتے تھے نیب وہ پرفارمنس نہیں دے سکا، ساری اپوزیشن پارٹیوں کو نیب سے شکایتیں، سرمایہ کار اس سے نالاں، اب تو چیف جسٹس پاکستان یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ایک درخواست آتی ہے اور لوگوں کی پگڑیاں اچھال دی جاتی ہیں، لوگوں کی عزت ختم کر دی جاتی ہے،نیک کام میں ٹانگ اڑائی جاتی ہے،سسٹم روک دیا جاتا ہے،یہ باتیں عدالتی نظام کا چیف کہہ رہا ہے اور اگر صحیح کہہ رہا ہے تو جناب! پھر اس نیب کو چلا کون رہا ہے؟ یہ ادارہ اگر کسی کو بھی جوابدہ نہیں تو مطلب صاف ہے۔ ٭٭٭٭٭ سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ اٹھارہویں ترمیم پر بھی سماعت کر رہا ہے، کیس ہے ہیلتھ کے شعبے کا، ہسپتالوں کے انتظام کے حوالے سے، اس کیس میں سابق چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما رضا ربانی اس خدشے میں مبتلا ہیں کہ کہیں اٹھارہویں آئینی ترمیم ختم تو نہیں ہو جائے گی؟ انہوں نے اس کیس میں فل بنچ تشکیل دینے کی استدعا کی جو مسترد کردی گئی،عدالت عظمی نے ان کے خدشات کی نفی کی ہے،انہیں بتایا گیا ہے کہ ایشو چند ہسپتالوں کا ہے اٹھارہویں ترمیم کا نہیں، عدالت عظمیٰ نے ان کے سامنے سوال رکھا کہ کیا اس ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کسی صوبے کے اسپتال کی مدد نہیں کر سکتی؟ رضا ربانی کہتے ہیں، آئین کی منشا ہے کہ ہسپتالوں کا انتظام صوبے دیکھیں، چیف جسٹس نے اس کیس میں ریمارکس دئیے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم پر ایوان میں بحث نہیں ہوئی تھی،ہمارے ملک میں بغیر بحث آئینی ترمیم کیسے منظور ہو جاتی ہے، رضاربانی نے جزوی طور پر ان عدالتی ریمارکس کی تائید کی، ہسپتالوں سے متعلق یہ زیر سماعت کیس تو ختم ہو ہی جائے گا مگر اٹھارہویں ترمیم کب تک زندہ رہتی ہے اسکے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ٭٭٭٭٭ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ چیف جسٹس پاکستان نے اپنے کندھوں پر بہت زیادہ وزن اٹھا لیا تھا، اب وقت کم ہے اور کام زیادہ۔ سنا ہے کہ جسٹس ثاقب نثار نے اپنی ریٹائرمنٹ کے آخری دن بھی بہت سارے کیسوں کی شنوائی رکھ دی ہے ،اور بہت سارے کیس جلد از جلد نمٹائے بھی جا رہے ہیں، ایل ڈی اے کے پلاٹوں کی بندر بانٹ کیس میں دونوں چوہدریوں کی فائل بند کر دی گئی ہے، آصف زرداری، پرویز مشرف اور ملک قیوم کے خلاف این آر او کیس بھی ختم کردیا گیا ہے، چیف جسٹس کہتے ہیں کہ ان کے اثاثوں کی تفصیل آ گئی ہے۔ آگے قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی کے کیس میں سپریم کورٹ نے حکومتی رپورٹ مسترد کردی ہے، اس کیس میں جناب چیف جسٹس کے ریمارکس تھے کہ تین صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں ہیں ،انہوں نے کیا کیا؟ اگلے چند دنوں میں ریٹائر ہونے والے متحرک چیف جسٹس نے اپنے اس زمانہ تحرک میں کیا کھویا کیا پایا؟ اس سوال کے جواب کیلئے کسی کو تاریخ لکھے جانے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا، ان کی ریٹائرمنٹ کے دس منٹ بعد ہی آوازوں کا شور شروع ہوجائے گا اور یقینا چپ تو خود جسٹس نثار ثاقب بھی نہیں رہیں گے، چیف جسٹس صاحب کی ستائش میں پہلی آواز استنبول سے اٹھی ہے جہاں ترک صدر طیب اردوان نے وزیر اعظم عمران خان کے دورے کے دوران کہا کہ وہ پاکستان کے چیف جسٹس کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنے ملک میں گولن سکولوں پر پابندی لگائی۔ پاکستان کے عوام ترکی سے اس اطلاع کے منتظر ہیں کہ ترک اسکولوں کے اساتذہ اور دیگر جن ملازمین کو واپس بھجوایا گیا تھا ان کا کیا بنا؟ ٭٭٭٭٭ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید آج پاکستان میں ہونگے، کہا جا رہا ہے کہ وہ ہمارے لئے دو ارب ڈالرز کی امداد کا اعلان کر سکتے ہیں، دو دن پہلے عمران خان بھی کچھ نہ کچھ تو لیکر ہی آئے ہیں، موجودہ حکومت نے اپنے پہلے پانچ ماہ میں ہی جتنی امداد وصول کی اس کی مثال شاید ماضی کی کسی حکومت کے دور میں نہ دکھائی دے، وزیر اعظم جدھر بھی گئے ڈالروں کی بوریاں سمیٹ کر آئے، اس ساری امداد سے یقینا معیشت کو سنبھلنے میں بہت سہارا ملے گا، پاکستان کو نیا پاکستان بنانے کے لئے اس کے سوا اور چارہ بھی کیا تھا؟یہاں تک جو ہوا درست بھی اور ٹھیک بھی، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں فوری طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑے گا، عوام کو ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکان دینے کیلئے ہمیں کوئی بھی امداد نہیں دے گا، چین، سعودی عرب اور دوسرے ممالک سے ملنے والا یہ مالی تعاون صرف ایک بار کیلئے ہے، اگر دوسری بار کسی کے دروازے پر دستک دی تو ضروری نہیں کہ وہ ہمارے لئے پھر دروازہ کھولے۔ ٭٭٭٭٭ ایک بات جاتے جاتے بہت سارے لوگ کہہ رہے ہیں، نیا پاکستان بن رہا ہے، بہت سارے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں نیا نہیں قائد اعظم والا پاکستان ہی چاہئے، میں یہ سوچتا ہوں ، جس گھر میں رہتا ہوں اس کا ایک ہی دروازہ ہے اسی دروازے سے اندر داخل ہوتا ہوں اور اسی دروازے سے باہر نکل جاتا ہوں۔