دُعا دیجیے اپنے ملک کی زراعت اور جفا کش کسانوں کو جنہوں نے کورونا کے طوفان میںڈگمگاتی پاکستان کی معیشت کی کشتی کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ دو ماہ ملک کی صنعت و حرفت اور تجارت کا پہیہ رُکارہا‘ خدمات کا شعبہ بھی بند تھا لیکن اسی دوران میں ملک کی سونا اگلتی زمینوں نے اڑھائی کروڑٹن گندم پیدا کردی۔ حالانکہ اس باربے موسمی بارشیں بھی ہوئیں جن سے گندم کی تقریباً دس فیصد فصل خراب ہوگئی لیکن پھر بھی ہمیں جتنی گندم سال بھر کے لیے د رکار ہے وہ گوداموں میں پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کی معیشت کو کئی بار بڑے بڑے خطرات کا سامنا کرنا پڑا‘ کڑے وقت آئے لیکن ہر بار اس ملک کواسکی زراعت کی بے پناہ طاقت بچا کر لے گئی۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک بار ایسا ہُوا ہے کہ اس ملک کی معاشی ترقی کی شرح منفی میں رہی ہو۔ یہ انیس سو اکیاون‘ باون کا مالی سال تھا جب موسم گرما میںایک سُوپر فلڈنے تباہی مچائی تھی ورنہ یہ ملک بدترین حالات میں بھی معاشی طور پر آگے بڑھتاہی رہا۔ حتیٰ کہ جس برس مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بنا اس سال بھی پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح منفی میں نہیں تھی ‘ بلکہ یہ مثبت1.2 فیصد تھی۔ اب ستّر سال بعد ایک بار پھر خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ کورونا وبا کے باعث ہمارے ملک کی شرحِ ترقی جون کے اختتام پرمنفی میں چلی جائے گی۔مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہا ہے کہ اس مالی سال میںملکی معیشت ایک سے ڈیڑھ فیصد تک سکڑسکتی ہے۔ تاہم بعض ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ مجموعی قومی دولت (جی ڈی پی)میں ترقی کی شرح منفی میں نہیں جائیگی تاہم بہت کم یعنی آدھا‘ پونا فیصد رہے گی۔اگر ایسا ہُوا تو اس کی وجہ زراعت کے شعبہ کی نسبتاً بہتر کارکردگی ہے۔ان تاریک دنوں میں صرف زرعی شعبہ کے حجم میں تین سے چار فیصد اضافہ ہوا ہے جس نے ملک کو سنبھالا دیا ہوا ہے۔ ملک کو سب سے بڑا نقصان تو صنعتی شعبہ میں ہوا ہے جسکی نمو میں چھ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔چونکہ پوری دنیا میں نیم کرفیو کی کیفیت ہے ‘ کاروبار‘ بازار بند رہے اس لیے ہماری برآمدات بھی کم ہوگئیں۔ ہدف تھا پچیس ارب ڈالر کی برآمدات ہوں گی۔لیکن اب اکیس ارب ڈالر کی توقع ہے۔بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی جو ترسیلات زربھیجتے ہیں ان میں بھی تقریباً دو ارب ڈالر کی کمی ہوگئی ہے۔اس مندی کے حالات میں حکومت کو ٹیکسوں کی وصولی بھی کم رہے گی۔اس مالی سال کے اختتام تک وفاقی حکومت ہدف سے سولہ سو ارب روپے کم ٹیکس وصول کرپائے گی۔ ظاہر ہے کہ اخراجات پورا کرنے کی غرض سے حکومت کو بھاری قرضے لینے پڑے ہیں۔حکومت کے لیے اگلے مالی سال میں بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ کس طرح معیشت کے پہیہ کو رواںدواںکیا جائے ‘ کساد بازاری کی حالت سے باہر نکلا جائے۔ صنعتی ترقی کو منفی زون سے نکالنا بھی ایک اہم کام ہے جس کے لیے حکومت کو پالیسی تشکیل دینا ہوگی لیکن ہماری زراعت میں اتنی صلاحیت ہے کہ اگر حکومت اس پر کچھ زیادہ توجہ دے تویہ شعبہ کم وقت میں بہتر نتائج دے سکتا ہے۔ زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے۔ گو اس کا مجموعی قومی دولت میں حصہ تقریباً بیس فیصد ہے لیکن ملک میں کام کرنے والے بیالیس فیصد سے زیادہ لوگوں کا روزگار زرعی شعبہ سے وابستہ ہے۔ ملک میں لوگ سالانہ تیس لاکھ ٹن چاول غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔جبکہ ہمارے کاشتکارہر سال ساڑھے سات لاکھ ٹن چاول پیدا کرتے ہیں۔ اضافی پیداواردنیا کو بیچی جاتی ہے۔ ہمارے گوالے گائے‘ بھینسوں سے چھبیس ارب لٹر دودھ حاصل کرتے ہیں۔ حالانکہ اس شعبہ کو حکومت کی سرپرستی حاصل نہیں۔ہمارے جانور دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت کم دودھ دیتے ہیں۔ اگر حکومت جانور پالنے والوں کو اچھی نسل کی گائیں‘ بھینسیںکم قیمت پر فراہم کرے‘ نسل کشی کے زیادہ فارم بنائے۔فارمرز کو جدید طریقے کے مطابق جانور پالنے کی تربیت مہیا کرے تو دودھ کی پیداوار دو تین گنازیادہ ہوسکتی ہے۔ پاکستان سال میں دس لاکھ ٹن پام آئل ملائشیا وغیرہ سے منگواتا ہے جسے کھانے پکانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ خوردنی تیل پرہر سال تقریباًتین ارب ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کینولا اور سورج مکھی کے پودے آسانی سے کاشت کیے جاسکتے ہیںجن کے بیج سے خوردنی تیل حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کاشتکار یہ فصلیں اسلیے نہیں اگاتے کہ ان کو خریدنے کا کوئی مناسب بندوبست نہیں۔ اگر حکومت گنے‘ گندم کی طرح ان فصلوں کی امدادی قیمت مقرر کردے اور پاسکو یا صوبوں کے محکمہ زراعت کو کاشتکاروں سے یہ فصلیں خریدنے کا پابند کردے تو ملک خوردنی تیل میں خود کفیل ہوجائے گا بلکہ قیمتی زرمبادلہ بھی بچے گا۔یہی حال دالوںکا ہے۔پاکستان ہر سال ایک سو ارب روپے سے زیادہ کی دالیںدرآمد کرتا ہے۔یہ بھی ملک کے اندر پیدا کی جاسکتی ہیں‘ اگر زمینداروں کویہ اعتماد ہو کہ ان کی فصل مناسب قیمت پر خرید لی جائے گی۔اس وقت ہم اپنی ضرورت سے بہت زیادہ چاول اور گنا کاشت کررہے ہیں ۔ یہ دونوں فصلیں بہت ہی زیادہ پانی استعمال کرتی ہیں۔ ان فصلوں کوقدرے محدود کرکے حکومت زمینداروں کو دالیں‘ خوردنی تیل کاشت کرنے کی ترغیب دے جو ہم باہر کے ملکوں سے درآمد کرتے ہیں۔ طویل عرصہ سے زراعت کا شعبہ حکومت کی عدم توجہی کے باعث اپنی پوری استعداد کے مطابق ترقی نہیں کررہا۔ گزشتہ دس پندرہ برسوں میںکپاس کی پیداوار بڑھنے کی بجائے تیس پینتیس لاکھ گانٹھ کم ہوچکی ہے۔ تحقیقی انسٹی ٹیوٹ فنڈز اور ماہرین کی کمی کا شکار ہیں۔نئے بیج نہیں بنیں گے تو زراعت کی ترقی رکی رہے گی۔ حکومتوں کی توجہ نمائشی کاموں پرمرکوز رہی۔ جن کاموں سے ملک کی معیشت کی بنیاد مستحکم ہوتی انہیں پس پشت ڈال دیا گیا۔ کورونا بحران میںزراعت نے جس طرح ملکی معیشت کو سہارا دیا ہے‘ عوام کو فاقوںسے بچایا ہے اس سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ حکومت کو زرعی شعبہ کی ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔